بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق: ’پاکستان ہمارا ہالیڈے ہوم ہے‘

عارف شمیم - بی بی سی اردو، لندن


پاکستان میں اکثر ہر مسئلہ سمندر جتنا بڑا ہو جاتا ہے اور اس مرتبہ تو مسئلے میں سمندر بھی حائل ہے۔ جی ہاں، یہ مسئلہ ہے سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کا۔ اگر سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو دیکھا جائے تو زیادہ تر سمندر پار پاکستانی تو ووٹ کا حق ملنے پر خوش ہی نظر آ رہے ہیں، لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ یہ غلط ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ’ووٹ پیرس میں ڈالا جائے اور نتیجہ ملتان میں نکلے‘۔

لیکن جو سب سے بڑا سوال بنتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ کیسے ہو گا، کون ووٹ ڈال سکے گا اور کون نہیں۔ کیا صرف وہ ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے جو دوسرے ممالک میں کام کرنے گئے ہیں اور کچھ سال بعد واپس آ جائیں گے، یا وہ بھی جو دوہری شہریت کے حامل ہیں۔

کیا وہ دو مختلف ممالک میں مختلف حکومتیں بنانے کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ کیا بیرون ملک رہنے کی کوئی کم از کم مدت مقرر کی جائے گی؟ کیا ایسا کرنے کے لیے کوئی آئینی تبدیلیاں کرنا ہوں گی یا حکومت ان کے بغیر ہی ایسا کروا لے گی۔ اگر دیکھا جائے تو جتنا غور کریں اتنے ہی زیادہ سوالات ابھرتے ہیں اور مسئلہ اتنا سیدھا بھی نہیں لگتا جتنا کہا جا رہا ہے۔

لیکن ساتھ ساتھ ایسا بھی نہیں کہ ہم ایسا کرنے والے پہلے ملک ہیں اور اس سے پہلے کبھی اس کا تجربہ نہیں کیا گیا۔

دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک اپنے بیرون ملک رہنے والے شہریوں کو کسی نہ کسی حوالے سے ملک میں ووٹ ڈالنے کا حق دیتے ہیں۔ زیادہ تر ممالک نے ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی شرط رکھی ہے اور اگر کوئی اورسیز شہری اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنا چاہتا ہے تو اسے اس شرط پر پورا اترنا ضروری ہے۔

مثال کے طور پر برطانیہ کا کوئی شہری اگر ملک سے باہر رہتا ہے تو وہ انتخابات میں ووٹ ڈال سکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ بیرون ملک رہنے والے برطانوی شہری کے طور پر رجسٹرڈ ہو اور ایسا وہ پندرہ سال ملک سے باہر رہنے تک ہی کر سکتا ہے۔ ماضی میں پندرہ سال کی شرط کو ہٹایا گیا تھا لیکن اورسیز الیکٹرز بل کی مدت پوری ہونے کے بعد یہ شرط پھر نافذ ہو گئی اور ابھی تک اسی شکل میں ہے۔

امریکہ میں بھی ایک ریاست کا قانون دوسری ریاست سے مختلف ہے لیکن زیادہ تر ریاستوں نے بیرون ملک رہنے والوں کو ملک میں ووٹ ڈالنے کا حق دیا ہوا ہے۔

انڈیا نے بھی بیرون ملک رہنے والے شہریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ دوہری شہریت نہ ہو۔ انڈیا دوہری شہریت کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ جن کی دوہری شہریت ہے انھیں ایک اورسیز سیٹیزن آف انڈیا کی پاسپورٹ نما دستاویز دی گئی ہے جس کی مدد سے وہ ملک میں ویزہ کے بغیر آ جا سکتے ہیں، پراپرٹی خرید سکتے ہیں، لیکن نہ تو ووٹ ڈال سکتے ہیں اور نہ ہی انتخابات میں بطور امیدوار کھڑے ہو سکتے ہیں۔

مغربی ممالک میں فرانس وہ واحد ملک ہے جس نے کبھی بھی بیرون ملک شہریوں کے ملک میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے کوئی شرائط نہیں رکھیں اور بیرون ملک رہنے والا ہر فرانسیسی شہری ملک میں ووٹ ڈالنے کا حق رکھتا ہے۔

کینیڈا میں 2019 سے پہلے تک کچھ شرائط تھیں لیکن اب انھیں ختم کر دیا گیا ہے اور ان کے بیرون ملک رہنے والے شہری اب انتخابات میں ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ اسی طرح کا حال اٹلی کا بھی ہے، لیکن اگر اطالوی شہری کسی ایسے ملک میں رہ رہا ہے جہاں اطالوی حکومت کا کوئی سفارتی نمائندہ نہیں ہے تو اسے اٹلی آ کر ووٹ ڈالنا ہوگا اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اطالوی حکومت اس کے سفر کے 75 فیصد اخراجات برداشت کرتی ہے۔

پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سمندر پار پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد مشرقِ وسطیٰ میں ہے اور ان میں بھی بڑی تعداد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں رہتی ہے۔ 2017-18 کے اعداد و شمار کے مطابق مشرق وسطیٰ میں تقریباً 48 لاکھ کے قریب پاکستانی رہ رہے ہیں، جبکہ یورپ میں 21 لاکھ سے زیادہ جبکہ شمالی امریکہ میں یہ تعداد ساڑھ تیرہ لاکھ سے زیادہ ہے۔ تین لاکھ کے قریب افریقہ، دو لاکھ سے ذرا زیادہ ایشیا اور مشرقِ بعید اور ایک لاکھ سے کچھ اور اوپر آسٹریلیا میں رہتے ہیں۔

انتخابی اصطلاحات کا تاریخی ووٹ

17 نومبر کو پاکستان کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کا بل منظور کروایا۔ ویسے تو اس دن حزبِ اختلاف کے احجاجاً اسمبلی سے واک آؤٹ کے بعد حکومت نے ایک دو نہیں بلکہ جلدی جلدی 33 بل پاس کروائے، جنھیں دیکھتے ہوئے ایک مبصر نے یہاں تک کہہ دیا کہ آج تو بل اس طرح پاس ہوئے ہیں جس طرح اس سال سکولوں میں بچوں کو ’بے دریغ‘ پاس کیا گیا ہے۔ لیکن بل پاس ہو گئے اور جیسے بھی ہوئے، حزبِ اختلاف کو اس عمل پر جو بھی اعتراض ہے، یہ حکومت کی کامیابی ہی ہے اور عمران خان کی حکومت کا یہ کہنا بجا ہے کہ ’ہم نے اپنا ایک اور انتخابی وعدہ پورا کیا ہے‘۔

لیکن یہاں یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ اور بھی تو انتخابی وعدے کیے گئے تھے، ان کا کیا بنا؟ کیا ملک میں مہنگائی ختم ہوئی، کیا کرپٹ لوگوں کو سزا ہوئی؟ کیا بجلی، گیس، پانی، پیٹرول اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں کمی کا وعدہ پورا کیا گیا۔ آخر اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کے حق اور ای وی ایم مشینوں کے ووٹنگ کے لیے استعمال کو ہی اتنی ترجیح کیوں دی گئی؟ ان سوالوں کے جواب تو حکومتی وزیر یا اہلکار ہی دے سکتے ہیں، لیکن جن لوگوں سے اورسیز ووٹنگ کا براہ راست تعلق ہے وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ بی بی سی اردو نے برطانیہ میں مقیم چند پاکستانی نژاد شہریوں سے یہی جاننے کی کوشش کی۔

اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق، اس سے کیا فائدہ ہو گا؟

فیصل مخدومی لندن میں ایک انویسٹمنٹ بینکر ہیں اور یہاں گذشتہ 17 سال سے مقیم ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا فیصلہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ اس لیے ضروری ہے کہ آپ کو دیکھنا ہوتا ہے کہ آپ کا ڈائسپورا (تارکینِ وطن) کس قسم کا ہے۔ ’ہم یہاں بیٹھے ذات پات سے اوپر نکل چکے ہیں۔ اس لیے میری ووٹ دینے کی سوچ میکرو ایشوز پر ہو گی مائیکرو پر نہیں۔ میرے لیے پاکستان کی معیشت اور ترقی کے مسائل اہم ہوں گے نہ کے چھوٹے موٹے سطحی مسائل۔‘

جب فیصل سے پوچھا گیا کہ انھیں یہاں بیٹھے ہوئے پاکستان میں ووٹ ڈالنے سے ذاتی طور پر کیا فائدہ ہوگا؟ تو ان کا جواب بڑا دلچسپ تھا۔ انھوں نے کہا: ’اس کا مجھے ذاتی طور پر اس کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں ہے کہ جب میں اپنے ملک جاؤں تو ملک ذرا بہتر حالت میں ہو۔ اس میں ترقی ہو رہی ہو۔ کیونکہ پاکستان اب ہمارا ’ہالیڈے ہوم‘ ہے، ہمارے پہلے والے رابطے ٹوٹ چکے ہیں، ہم نے یہیں رہنا ہے، بچے بڑے ہو چکے ہیں اور آپ اپنے ’ہالیڈے ہوم‘ کو بھی اسی طرح صاف ستھرا اور سہولیات سے بھرپور دیکھنا چاہتے ہیں جس طرح آپ ان ممالک کو دیکھتے ہیں جہاں آپ رہ رہے ہیں۔ آپ پاکستان میں بھی ویسا ہی چاہتے ہیں۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ووٹ اسی کو نہیں دیں گے جس کو آپ کے پاکستان میں رہنے والے رشتہ دار کہیں گے؟ تو فیصل کا جواب نفی میں تھا۔

’نہیں یہ ضروری نہیں ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ میں اپنے بہت سارے رشتہ داروں سے بات کرتا ہوں جو مختلف جماعتوں میں ہیں۔ اگر میں ان کے ساتھ رہوں گا تو شاید میں ان سے متاثر ہو جاؤں، لیکن جب میں ان کے ساتھ ہوں ہی نہیں اور صرف ایک آربیٹری تھیوریٹیکل بحث ہی ہونی ہے تو اس میں میں اپنا گراؤنڈ نہیں چھوڑوں گا۔ میں وہی کروں گا جو مجھے کرنا ہے۔‘

لیکن لندن ہی میں رہنے والی شاعرہ اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن طلعت گل اس سے اتفاق نہیں کرتیں۔ وہ سوال اٹھاتی ہیں کہ کتنے پاکستانی ہیں جو پاکستان کی سیاست میں حصہ لیتے ہیں یا انھیں اس میں دلچسپی ہے۔

’میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو تو پاکستان کے صدر تک کا نام نہیں معلوم ہو گا۔‘

طلعت سمجھتی ہیں کہ یہ ’حکومت نے ملک میں ذرِمبادلہ بھیجنے والوں کو ایک طرح سے خوش کرنے کا طریقہ ڈھونڈا ہے، ایک طرح کی رشوت ہے۔ مجھے بتائیں کہ مجھے جو پاکستان میں رہتی ہی نہیں ہوں، وہاں ووٹ ڈالنے سے کیا فائدہ ہو گا؟ کچھ بھی نہیں۔ یہ صرف لوگوں کی توجہ اہم مسائل سے ہٹانے کا ایک طریقہ ہے۔‘

برمنگھم میں رہنے والے تحریک کشمیر یورپ کے صدر محمد غالب کہتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان میں پاس ہونے والے قانون کا اطلاق ابھی پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے باشندوں پر نہیں ہوتا لیکن کیونکہ وہ پاکستان کے شناختی کارڈ سمیت بہت سی سہولیات استعمال کرتے ہیں اور لاکھوں کشمیری پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی مقیم ہیں اس لیے وہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کے قوانین سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اورسیز کشمیریوں کے لیے کوئی بل ہماری اسمبلی میں نہیں آیا اور جب کشمیر میں انتخابات ہوں گے تو تب ہی پتہ چلے گا۔

یہ بھی پڑھیے

پارلیمان کا مشترکہ اجلاس: اپوزیشن کا انتخابی اصلاحات کے متنازع قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ

پارلیمانی اجلاس کا احوال: ’ایسی بھی کیا جلدی ہے کہ 19 نومبر سے پہلے بل منظور کرانے ہیں؟‘

روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس سے آنے والا سرمایہ پاکستان کی معیشت کے لیے کتنا مفید ہے؟

ان کے مطابق اس وقت پورے یورپ میں 10 لاکھ سے زیادہ کشمیری مقیم ہیں جن میں سے اکثریت برطانیہ میں رہتی ہے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق تو دیا گیا ہے مگر انھیں صرف اپنا ووٹ پاکستان میں جاگیرداروں اور وڈیروں کو ہی ڈالنا ہے کیونکہ وہ تو یہاں رہتے ہیں اور ممبر اسمبلی ان سے کہیں دور پاکستان میں۔‘

محمد غالب کا مشورہ ہے کہ اس کے لیے بھی ’اورسیز ممبر آف آزاد کشمیر‘ کی طرز کی کوئی نشست بنائی جائے، جس کا ممبر یہیں برطانیہ میں مقیم ہو۔ ’یہاں کم از کم ہم اس سے پوچھ تو سکیں گے کہ بھئی کیا کیا ہے ہمارے لیے اب تک تم نے۔‘

یاد رہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی 53 ممبران کی اسمبلی میں کل 45 جنرل نسشتیں ہیں جن میں سے 12 ان کشمیری پناہ گزینوں کے لیے ہیں جو پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد ہیں۔

’جب میرا وہاں رہتے ہوئے ووٹ چوری ہو جاتا ہے تو یہاں کی کیا گارنٹی ہے؟‘

بزنس مین اور سماجی کارکن تنویر زمان خان گذشتہ 34 سال سے لندن میں رہ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی اس وقت کیا ضرورت پڑ گئی جب پاکستان کو اور بہت زیادہ مسائل درپیش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مغربی ممالک میں اورسیز شہریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے ’لیکن کتنی تعداد میں ان ممالک کے لوگ دوسرے ممالک میں رہتے ہیں؟ بہت کم۔‘

وہ کہتے ہیں ’جو لوگ ادھر رہتے ہیں، خصوصاً یورپ میں، وہ اور ان کے بچے یہیں کے ماحول کا حصہ ہیں، ان کا پاکستان کی سیاست بلکہ کہیں کہیں تو ثقافت سے بھی کچھ لینا دینا نہیں۔ وہ تیس تیس چالیس چالیس سال سے ادھر رہ رہے ہیں اور شاذو نادر ہی پاکستان جاتے ہیں۔

’کہا جاتا ہے کہ وہ یہاں رہ کر اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں۔ تو بھئی رشتہ داروں کا خیال رکھنے کا بالکل یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ انھیں ووٹ کا حق بھی دیں۔ یہ صرف ان کا حق ہے جو وہاں رہتے ہیں اور جو سیاست اور ملکی پالیسیوں سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔‘

تنویر کے بقول اس وقت 90 لاکھ کے قریب افراد اورسیز پاکستانی ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ان میں سے کتنے فیصد ہوں گے جو باقاعدہ پاکستان سے رابطے میں ہوں گے؟ ’صرف مشرقِ وسطیٰ میں رہنے والے پاکستانی زیادہ رابطے میں رہتے ہیں اور وہ بھی اقامے پر گئے ہوتے ہیں اور کئی ایک نے تو دس دس سال تک پاکستان کی شکل نہیں دیکھی ہوتی۔ آپ کیا ان سے ووٹ ڈلوائیں گے؟ دور دراز کے علاقے جہاں سے محنت مزدوری کرنے والوں کی اکثریت جاتی ہے، انھوں نے دس دس سال تک اپنے علاقے کی شکل نہیں دیکھی ہوتی، وہ تو بس اپنے رشتہ داروں سے پوچھیں گے کہ بھئی کس کو ووٹ ڈالوں تو وہ اسے ہی ڈال دیں گے۔ اس طرح ووٹ کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔

’دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان میں تو جو لوگ وہاں رہتے ہیں ان کا ووٹ کوئی اور ڈال آتا ہے، تو یہ نوے لاکھ پاکستانیوں کو تو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ ان کا ووٹ کس کو پڑا۔ میں کئی ایسی مثالیں جانتا ہوں جہاں لوگ ووٹ ڈالنے ووٹنگ سٹیشن پر گئے اور انھیں پتہ چلا کہ ووٹ تو پہلے ہی ڈالا جا چکا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو وہاں رہتے ہیں۔ تو پھر ان دور دراز ملکوں میں بیٹھے ہوئے پاکستانیوں کا اگر کوئی جعلی ووٹ ڈال بھی دے گا تو ہم اس کو کیا کہہ سکتے ہیں۔ جب مقامی شخص کا ووٹ اپنے حلقے میں محفوظ نہیں تو ہم باہر بیٹھے ہوئے لوگوں کا کیا پوچھتے ہیں۔‘

دوسری طرف بزنس مین اور اکاؤنٹنٹ جواد حیدر رانا سمجھتے ہیں کہ ’ہمیں ایک قسم کی عادت پڑ گئی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی ہر بات میں سے منفی پہلو نکالیں۔ جب دوسرے ممالک اپنے اورسیز شہریوں کو ووٹ کا حق دیتے ہیں تو پاکستانیوں کو کیوں نہیں۔ اور اگر اب یہ مل گیا ہے تو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ اس سے ہم سب کیا کیا فائدے اٹھا سکتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ: بیرون ملک پاکستانیوں کو کیا سہولیات میسر ہوں گی؟

بیرون ملک پاکستانیوں کا سرمایہ ملک میں لانے کی سکیمیں ناکام کیوں ہوتی ہیں؟

کورونا: بیرون ملک مقیم افراد کو گھر پیسے بھیجنے میں کن مشکلات کا سامنا ہے؟

وبا کے دوران بیرون ملک سے میتیں پاکستان لانے کا طریقہ کار کیا ہے؟

جواد کے مطابق چاہے ہم جتنا بھی پاکستان سے دور رہیں ہمارے جڑیں وہیں ہیں، رشتے وہیں ہیں، زمینیں وہیں ہیں۔ ’میں تو چاہوں گا کہ مجھے پتہ ہو کہ جس شخص کو میں نے یہاں بیٹھے ہوئے ووٹ ڈالا ہے وہ وہاں رہنے والے ہمارے اپنوں کے لیے اور ملک کے لیے کیا کرتا ہے۔‘

وہ سوال کرتے ہیں کہ میں ملک میں زرِمبادلہ بھیجتا ہوں، تو کیا میرا اس سے صرف پیسے کا رشتہ ہی ہونا چاہیے؟ ’جب مجھے ووٹ کا حق بھی ہو گا تو مجھے یہ احساس بھی رہے گا کہ میرا ملک سے رشتہ مضبوط ہے اور میں اسے ’اون‘ کرتا ہوں۔‘

تاہم وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ ووٹنگ کے سارے عمل کو پیچیدہ نہیں ہونا چاہیے۔ ’اگر یہ تکلیف دہ یا پیچیدہ ہو گا تو لوگ ووٹ نہیں ڈال سکیں گے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ وہ اس لیے بھی اس کے حق میں ہیں کیونکہ یہ ووٹ الیکٹرانک ہوگا اور میں جسے چاہے اپنی مرضی سے دوں گا۔ کوئی میرے ووٹ ڈالنے پر اثر انداز نہیں ہو سکے گا، نہ کوئی دوست اور نہ ہی کوئی سیاسی پارٹی یا رشتہ دار۔‘


تو یہ سب ہوگا کیسے؟

تو سمندر پار پاکستانیوں کے لیے انتخابی عمل کے انعقاد کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ اور اسے کون ڈیزائن کرے گا، ای سی پی یا پارلیمان؟

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ابھی تک پارلیمان میں پیش کیے گئے بل میں سمندر پار پاکستانیوں کے لیے ووٹنگ کے کسی ایک نظام کی وضاحت نہیں کی گئی۔ ممکنہ طور پر انٹرنیٹ ووٹنگ ہو گی لیکن سپریم کورٹ کی ہدایت پر مقرر کردہ ماہرین کی ایک ٹاسک فورس نے ووٹوں کی رازداری اور تحفظ سے متعلق خدشات کی وجہ سے آئی ووٹنگ کی حمایت نہیں کی جس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ خیال ترک کر دیا۔ آنٹرنیٹ ووٹنگ ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے اور اگلے دو تین برسوں میں شاید زیادہ محفوظ ہو جائے۔ ایک اور امکان پوسٹل بیلٹ کا ہے لیکن عام طور پر سیاسی جماعتیں محسوس کرتی ہیں کہ پوسٹل بیلٹ میں ہیرا پھیری کا کافی امکان ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ اوور سیز ووٹنگ پاکستان جیسے ملک کے لیے کیسے موزوں ہو گی اور کیا اسے عجلت میں بغیر کسی ضروری ہوم ورک کے کیا جا سکتا ہے؟

احمد محبوب کا کہنا تھا کہ عام طور پر صدارتی طرز حکومت ملک سے باہر ووٹنگ کی سہولت فراہم کرنے کے لیے آسان ہے اور بہت سے ممالک اپنے بیرون ملک مقیم شہریوں کو پوسٹل بیلٹ کے ذریعے یا سفارت خانوں میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ہمارے جیسے پارلیمانی نظام میں تقریباً 600 قومی اور صوبائی حلقوں میں مقابلہ ہوتا ہے اور سفارت خانوں میں ووٹنگ تو تقریباً ناممکن بن جاتی ہے۔

انٹرنیٹ ووٹنگ یا آئی ووٹنگ کیا ہے اور یہ نظام کتنا محفوظ ہے؟

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ ووٹنگ ایک ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی ہے جس میں بہت سی حدود اور کمزوریاں ہیں۔ پہلا یہ کہ ووٹرز کے پاس ای میل ایڈریس ہونا چاہیے۔ ہمارے اوورسیز پاکستانیوں کا ایک بڑا حصہ مزدوری کرتا ہے خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں اور وہ ای میلز تک استعمال نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ 2018 کے ضمنی انتخابات میں صرف ایک فیصد اہل اوورسیز ووٹرز ہی 35 حلقوں میں پائلٹ ٹیسٹ ووٹنگ کے لیے اندراج کر سکے۔

ایک اور بڑا خطرہ ہیکنگ کا ہے۔ رازداری کو یقینی بنانا اور جبر سے پاک ووٹنگ ایک اور بڑا چیلنج ہے۔ کوئی بڑا ملک آئی ووٹنگ استعمال نہیں کرتا۔ میری بہترین معلومات کے مطابق، ایسٹونیا واحد ملک ہے جو آئی ووٹنگ کا استعمال کرتا ہے لیکن اس کے صرف 13 لاکھ کے قریب ووٹرز ہیں۔


پاکستان تحریکِ انصاف کی کوشش ہو گی کہ کسی طرح آنے والے انتخابات سے پہلے ہی وہ اپنی انتخابی اصلاحات پر عمل پیرا ہو اور یقیناً اسی لیے ہی انھوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے ووٹ اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کے استعمال کے لیے قوانین منظور کروائے ہیں۔ لیکن چیلنج یہ ہے کہ کیا وہ 2023 سے پہلے تک یہ سب کام کروا پائیں گے۔

جلدی میں منظور کی گئی انتخابی اصطلاحات پر تنقید کرنے والے بدھ کے مشترکہ اجلاس میں ووٹنگ کی ہی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر پارلیمان کے چھت کے نیچے الیکٹرانک مشینیں صرف 400 افراد کی گنتی درست طریقے سے نہیں کر سکتیں تو کیا گارنٹی ہے کہ یہ نئی مشینیں 22 کروڑ عوام کی گنتی کر پائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments