پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کے قواعد زیرِ بحث: پاکستان کی شہریت کسے مل سکتی ہے اور کسے نہیں مل سکتی؟

محمد زبیر خان - صحافی


پاکستان، پاسپورٹ
’ہم لوگوں نے چند دنوں میں سری لنکا جانا ہے۔ ہم سب کا ویزہ لگ چکا ہے جبکہ میری بیٹی کا ویزہ اس وجہ سے نہ لگ سکا کہ اس کے پاسپورٹ کی معیاد میں صرف چار ماہ رہتے تھے۔ ویزہ لگوانے کے لیے یہ معیاد کم از کم چھ ماہ ہونا لازمی تھا۔ میرے شوہر اپنے ضروری کام کے سلسلے میں دوسرے شہر گئے ہوئے تھے جس وجہ سے میں اپنی بیٹی کو لے کر لاہور ڈی ایچ اے میں پاسپورٹ دفتر گئی تو انھوں نے والد کے بغیر بات تک کرنے سے منع کر دیا۔‘

یہ کہنا تھا صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کی مشہور ڈیزائنر زارا شاہ جہاں کا۔

ان کا بدھ کو ایک ٹویٹ وائرل ہوا جس میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ابھی پاسپورٹ دفتر سے واپس آرہی ہیں اور حکام نے ان کی بیٹی کا پاسپورٹ والد کی عدم موجودگی میں بنانے سے انکار کر دیا ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ ’وہ لوگ کیا کرتے ہیں جن کے والد نہیں ہوتے؟‘

زارا شاہ جہاں کا کہنا تھا کہ سری لنکا جانے میں دن بہت کم رہ چکے تھے۔ ’میری بیٹی کا کوئی نیا پاسپورٹ نہیں بنانا تھا صرف تجدید کرنی تھی۔ اس کا شناختی کارڈ بھی بنا ہوا ہے۔ پاسپورٹ عملے کو جب بتایا کہ شناختی کارڈ موجود ہے تو پھر بھی انھوں نے کہا کہ بچی کے والد کی موجودگی ہر صورت میں ضروری ہے، اس کے بغیر پاسپورت کی تجدید ممکن نہیں ہے۔‘

ان کی اس شکایت کی ٹویٹ وائرل ہونے کے بعد انھوں نے کہا کہ ’ہم کیا کر سکتے تھے۔ پاسپورت دفتر سے واپسی پر ٹویٹ کردی۔ مجھے خود اندازہ نہیں تھا کہ یہ اتنی وائرل ہوجائے گی۔ ٹویٹ کے بعد مجھ سے نادرا حکام نے رابطہ کیا اور مسئلہ حل کر دیا۔ یہ ان کی بڑی مہربانی ہے اور میں ان کی مشکور ہوں۔‘

زارا شاہ جہاں کا مسئلہ تو بروقت حل ہوگیا ہے اور انھیں امید ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے ہمراہ اب سری لنکا جا سکیں گی۔

مگر پاکستان میں ایسے کئی کیسز ہیں جن کے والد اب ان کی زندگی میں نہیں ہیں، ان کے والد کی شہریت پاکستانی نہیں ہے۔ ایسے افراد کو شناختی کارڈ یا پاسپورٹ حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایسا ہی ایک معاملہ راولپنڈی کے مجید زاہد کا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں اپنی والدہ کے ہمراہ نادرا دفتر گیا اور جب میری والدہ نے نادرا کے افسر کو بتایا کہ زاہد کے والد پاکستانی شہریت کے حامل نہیں ہیں اور انھوں نے اپنی شہریت کے ثبوت حوالے کیے تو نادرا افسر نے کاغذات دیکھے بغیر ہی کہا کہ ’چلے جاؤ! کچھ نہیں ہوسکتا۔ یہ شناختی کارڈ نہیں بن سکتا ہے‘۔

واضح رہے کہ پاکستانی قوانین کے تحت ماں باپ میں سے کسی کی بھی پاکستانی شہریت ہو تو ان کی اولاد پاکستانی شہریت حاصل کرنے کی حق دار ہے۔

زارہ شاہ کے مسئلے اور چند دیگر افراد کو پیش آنے والی مشکلات کا معلوم ہونے پر بی بی سی نے اس معاملے پر موقف حاصل کرنے کے لیے نادرا، محکمہ پاسپورٹ اور وزارت داخلہ کو سوالات ارسال کیے ہیں مگر فی الحال کوئی بھی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

تاہم کچھ ہی عرصہ قبل خواتین کو طلاق کے بعد اپنا نام تبدیل کرانے میں مشکلات سے متعلق چیئرمین نادرا محمد طارق نے یہ تسلیم کیا تھا کہ نادرا کی ایک ‘غیر اعلانیہ’ پالیسی تھی کہ جب کوئی خاتون طلاق کے بعد اپنا نام تبدیل کرانے آتی تھی تو اس سے طلاق نامہ طلب کیا جاتا تھا اور تصدیق کی دیگر دستاویز تک کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔

بی بی سی نے ایسے افراد سے بات کی ہے جن کی ابتدائی طور پر تو درخواست قبول ہی نہیں کی گئی لیکن کسی وکیل کی مداخلت سے مسئلہ حل ہو گیا۔

’جاؤ والد یا نانا کو لے کر آؤ‘

ادیب اور انسانی حقوق کی کارکن زویا رحمان کہتی ہیں کہ ’میری پرورش سنگل مدر نے کی تھی۔ مجھے جب پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کی ضرورت پیش آئی تو طلاق کے ثبوت فراہم کرنے کے باوجود پاسپورٹ اور نادرا کارڈ کے حصول میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔‘

زویا رحمان کہتی ہیں کہ ’ہماری پرورش اور دیکھ بھال ہماری سنگل مدر نے کی تھی۔ ہمارے والدین کے درمیان طلاق ہوگئی تھی۔ پرورش اور دیکھ بھال میں تو کوئی مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا مگر جب ہمیں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی ضرورت پیش آئی تو بہت مشکلات ہوئیں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ کچھ عرصہ قبل ’مجھے ایک کانفرنس کے لیے انڈیا جانا تھا۔ اس وقت میری عمر اٹھارہ سال سے کم تھی۔ شناختی کارڈ نہیں تھا۔ مگر دیگر ضروری کاغذات موجود تھے۔ اس سب کے باوجود انھوں نے پاسپورٹ بنانے سے انکار کر دیا گیا۔ میری والدہ نے ہر طرح انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ تمام قانونی تقاضے پورے ہیں۔ مگر انھوں نے ایک ہی بات کی کہ کسی بھی صورت پاسپورٹ نہیں بن سکتا۔۔۔ جاؤ والد یا نانا کو لے کر آؤ۔‘

واضح رہے کہ شناختی کارڈ کا اجراء اٹھارہ سال سے کم افراد کو نہیں کیا جاتا تاہم پاسپورٹ سمیت دیگر سفری دستاویزات اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کو والدین کے شناختی کارد، فارم ب یا پاسپورٹ پر فراہم کیے جاسکتے ہیں۔

پاکستان، شہریت، شناختی کارڈ، خواتین

زویا رحمان کہتی ہیں کہ ’ہم کیا کرتے، میری والدہ لڑ جھگڑ کر گھر واپس آگئی تھیں۔ اس موقع پر میری دوست کی والدہ جو کہ قانون دان تھیں ہماری مدد کو آئیں۔ انھوں نے نادرا کے ساتھ جا کر بات کی۔ شاید انھوں نے ہمیں ایک کلائنٹ کی طرح ڈیل کیا جس کے بعد پاسپورٹ بن گیا۔

’شناختی کارڈ بنانے میں بھی ہمیں بہت مشکلات پیش آئیں۔ شناختی کارڈ نہ ہونے سے داخلوں میں مشکلات کا سامنا رہا۔ مجھے یاد ہے کہ میں اپنی کلاسیں چھوڑ کر نادرا کے دفتروں کے چکر لگاتی تھی۔‘

’انڈین باپ کے بیٹے کو پاسپورٹ نہیں مل سکتا‘

راولپنڈی کے شہری محمد مجید کہتے ہیں کہ ’میرے والد بچپن ہی میں وفات پا گئے تھے۔ ہم لوگوں کے والد انڈین شہریت اور والدہ پاکستانی شہریت کی حامل ہیں۔ میرے دو بہن بھائیوں کی پیدائش انڈیا میں ہوئی تھی جبکہ میری پیدائش پاکستان میں ہوئی تھی۔‘

یہ بھی پڑھیے

نادرا نے واقعی شادی کے بعد خواتین کے نام سے متعلق پالیسی میں تبدیلی کی ہے؟

‘والدین تو فوت ہو چکے، اب شناختی کارڈ کیسے بنے گا؟’

پاکستان میں شادی عورت کی ’کامیابی‘ کا پیمانہ کیوں

ان کا کہنا تھا کہ والد کی وفات کے بعد والدہ نانا نانی اور ماموں کے مشورے کے بعد واپس پاکستان آگئیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اس لیے انھیں ملازمت کے حصول میں کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ نانا نانی بھی ہر وقت ہماری مدد کو تیار رہتے تھے۔

’اس طرح ہمیں کبھی معاشی اور معاشرتی مشکلات کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا مگر جب ہمیں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی ضرورت پڑی تو ہمیں دن میں تارے نظر آگئے تھے۔‘

محمد مجید کا کہنا ہے کہ ’یہ چند ماہ پہلے ہی کی بات ہے۔ میں شناختی کارڈ بنوانے نادرا کے دفتر گیا۔ فارم پر میرے والد کی شہریت انڈین اور والدہ کی پاکستانی لکھوائی اور والدہ کی پاکستانی شہریت کے ثبوت فراہم کیے تو مجھے کہا گیا کہ میں جاسکتا ہوں۔ مجھے شناختی کارڈ نہیں مل سکتا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسرے دن ’والدہ میرے ہمراہ نادرا کے دفتر گئیں۔ انھوں نے وہاں پر اپنا نکاح نامہ جو کہ پاکستان کا تھا انڈیا میں شادی رجسڑ ہونے کا سرٹیفکیٹ، اپنا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پیش کرنے کے علاوہ والد کا انڈیا میں ڈیتھ سرٹیفیکٹ پیش کیا۔ اس کے باوجود کہا گیا کہ وہ شناختی کارڈ بنانے کی کارروائی نہیں شروع کرسکتے۔‘

والدہ نے ان سے کہا کہ وہ ’میرے فارم پر یہ لکھ کر دے دیں مگر انھوں نے ایسا کرنے سے بھی انکار کردیا جس کے بعد پتا نہیں میرے ماموں نے کسی وکیل کی خدمات حاصل کیں اور بڑی مشکل سے شناختی کارڈ بنا۔‘

محمد مجید کا کہنا تھا کہ اس کے بعد پاسپورٹ کی مرتبہ بھی یہی کچھ ہوا۔ ’مجھے پاسپورٹ دفتر میں کہا گیا کہ انڈین باپ کے بیٹے کو پاسپورٹ نہیں مل سکتا ہے۔ بعد میں پاسپورٹ تو مل گیا مگر مشکلات بہت آئیں۔ باقی بہن بھائیوں کے معاملے میں بھی اسی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔‘

پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانے کے قواعد

شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ہر ملک اپنے شہریوں کو فراہم کرتا ہے یہ شہریت کا دستاویزی ثبوت بھی ہوتا ہے۔

پاکستان، پاسپورٹ

شناختی کارڈ بنوانے کے لیے ماں باپ کی موقع پر موجودگی یا والد کی موجودگی ضروری نہیں ہے۔ کسی بھی شناختی کارڈ کے حصول کے لیے والدین کے شناختی کارڈ یا کسی ایک کا شناختی کارڈ، فارم ب یا پاکستانی قومیت کا سیٹزن ایکٹ 1951 کے مطابق ثبوت فراہم کرنا لازمی ہے۔

اسی طرح پاسپورٹ کے حصول کے لیے مذکورہ دستیاوزات کا فراہم کرنا لازمی ہے۔ پاسپورٹ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر درخواست دہندہ کا انٹرویو بھی کرتا ہے۔

پاسپورٹ بنوانے کے لیے بھی ماں باپ کی موقع پر موجودگی ضروری نہیں ہے۔ درخواست فارم کو 17 یا گریڈ یا اس کے اوپر کے افسر سے تصدیق کروانا لازم ہوتا ہے۔ بعض اوقات بیان حلفی بھی وصول کیا جاسکتا ہے۔

پاسپورٹ اور نادرا کا عملہ کسی بھی درخوست گزار کی درخواست کو وصول کرنے سے انکار نہیں کرسکتا۔ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ فراہم نہ کرنے کی تحریری وجہ دینا لازم ہے۔

سنگل ماں باپ کی صورت میں طلاق یا ڈیٹھ سرٹفیکیٹ کے کاغذات جمع کروانا کافی ہے۔

پاکستانی شہریت کا قانون کیا ہے؟

پاکستانی شہریت کے حوالے سے سیٹیزن شپ ایکٹ 1951 موجود ہے جو یہ بتاتا ہے کہ کون پاکستانی شہریت کا حامل ہو سکتا ہے اور کون نہیں۔

پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر فرد پاکستانی شمار ہوتا ہے۔

اس ایکٹ کی دفعہ 10 میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ شادی کی صورت میں کون پاکستانی شہریت کا حق دار ہوگا اور کون نہیں۔

اس دفعہ کے تحت پاکستانی مرد اگر کسی غیر ملکی خاتون سے شادی کرتے ہیں تو ان کی ساتھی اس بات کی حق دار ہے کہ وہ پاکستانی شہریت حاصل کر سکے۔ مگر یہ حق خاتون کو نہیں دیا گیا ہے۔

سنہ 2000 میں حنا جیلانی ایڈووکیٹ کی سپریم کورٹ سے رٹ پٹیشن منظور ہونے کے بعد اس قانون میں اہم تبدیلی کی گئی ہے۔ اس کے تحت پاکستانی شہریت کے حامل ماں یا باپ کے بچوں کو پاکستانی شہریت کا حق دیا گیا ہے۔ تاہم یہ ہی حق پاکستانی خواتین کے غیر ملکی شہریت کے حامل شوہروں کو نہیں دیا گیا۔

سیٹزن ایکٹ 1951 کی رو سے جن کے والدین یا والدین کے والدین موجودہ پاکستان کی حدود میں پیدا ہوئے ہوں، یعنی ان کے والدین یا والدین کے والدین 31 مارچ 1937 کے ہندوستان میں پیدا ہوئے ہوں، وہ پاکستانی شہری ہوسکتے ہیں۔

یکم جنوری 1952 سے قبل انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان مستقل آباد ہونے کی نیت سے آنے والے افراد کو پاکستانی شہریت مل سکتی ہے اور اگر ایسا فرد مرد ہو تو اس کی اہلیہ اور بچے بھی شہریت کے حق دار ہوں گے۔

اگر کوئی شخص یکم مارچ 1947 کو موجودہ پاکستانی علاقے سے موجودہ انڈین علاقے کی طرف ہجرت کر گیا ہو تو وہ پاکستانی شہری نہیں کہلا سکتا۔ تاہم اگر ایسا شخص قانونی طور پر پاکستان مستقل قیام کی نیت سے دوبارہ لوٹ آئے تو اسے استثنٰی حاصل ہے۔

قوانین کے تحت اگر کسی شخص کے پاس پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت ہو تو اس کی پاکستانی شہریت ختم ہو جائے گی۔ تاہم یہ اصول اس صورت میں لاگو نہیں ہوتا کہ اگر دوسری شہریت واپس کر دی جائے، دوسری شہریت برطانیہ یا اس کی کسی سابقہ نوآبادی کی ہو، یا ایسی خاتون جو کسی غیر پاکستانی سے شادی کر لے۔

ایسے افراد جو انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر سے پاکستان اس نیت سے منتقل ہوئے ہوں کہ جب تک ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان سے تعلق واضح نہیں ہو جاتا، انھیں بلاامتیاز پاکستانی شہری مانا جائے گا۔

قوانین کے تحت اسی طرح بعض افراد کی شہریت کا خاتمہ اور بعض کو رکھنے کی اجازت ہے۔ اس کا اطلاق ان افراد پر ہوتا ہے جو 16 دسمبر 1971 کے آس پاس ’مشرقی پاکستان‘ میں رہتے تھے۔ 16 دسمبر 1971 کو اپنی مرضی سے بنگلہ دیش منتقل ہونے والے افراد کی پاکستانی شہریت ختم ہو گئی ہے۔

16 دسمبر 1971 کو پاکستان میں رہنے یا پاکستان منتقل ہونے والے ’مشرقی پاکستانی‘ افراد کی پاکستانی شہریت برقرار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments