گلگت بلتستان حکومت: عشق کا پہلا باب


گلگت بلتستان حکومت ایک سال مکمل کر گئی۔ سیاست کے حرف آخر اسمبلیوں تک بھی نہیں پہنچ سکے۔ پچھلی صفوں پر کسی کی نظر پڑ گئی اور نئی صف بندی کردی گئی۔ بنیادی عنصر میں فرق نہیں آیا مگر ذیلی اور ضمنی موضوعات 180 کے زاویہ پر تبدیل ہو گئے۔ ہواؤں کے رخ نے ایسا پانسہ پلٹ دیا کہ لمحوں میں مسافتوں کے فاصلے اچانک طے ہو گئے۔ ہوا کے رخ پر وہ شجر بھی مڑ گئے جو اپنی جڑوں کو شاید زمین کی میخ سمجھ بیٹھے تھے۔

نومبر 2020 کے نصف میں منعقد ہونے والے انتخابات میں حافظ حفیظ الرحمن، سید مہدی شاہ، فدا محمد ناشاد، مہدی شاہ کی پوری کابینہ، حافظ حفیظ الرحمن کی پوری کابینہ ہار گئی اور اکثر وہی جیتے جن پر انگلی رکھی گئی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف گو کہ اپنے ٹکٹ یافتہ امیدواروں کو بڑی تعداد میں نہیں جتوا سکی لیکن حمایت یافتہ امیدواروں کو زبردست انداز میں جتوانے میں کامیاب ہو سکی۔ انتخابی نتائج حسب سابق و حسب دستور رقص و سرور اور الزامات کی زد میں رہے اور سب سے زیادہ حلقہ 2 گلگت کے معاملات اٹکے رہے جہاں پر پیپلز پارٹی کے جمیل احمد اور تحریک انصاف کے فتح اللہ خان کے درمیان کئی روز تک مقابلہ متنازعہ بنا رہا، پیپلز پارٹی کے معاملات صدر امجد حسین ایڈوکیٹ نے دیکھے جبکہ تحریک انصاف کے معاملات میں فتح اللہ خان خود کھڑا رہا۔

اس وقت جو وعدے اعلانات اور دعوے پیپلز پارٹی کی جانب سے کیے گئے وہ سارے ناکام ثابت ہو گئے۔ ڈپٹی کمشنر آفس کا گھیراؤ کیا گیا، گاڑیوں کو جلایا گیا، ہوائی فائرنگ بلکہ ایک معصوم لڑکے کو گولی بھی لگ گئی۔ پیپلز پارٹی اس ساری صورتحال پہ صرف اس قیاس کے ساتھ کھڑی تھی کہ مظاہروں اور طاقت کے ذریعے اپنے مطالبات منوائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اسمبلی بننے کے بعد چند ایک روز تک فتح اللہ پر گولہ باری کی گئی، وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے اپنی پہلی تقریر میں پیپلز پارٹی کے مطالبے پر اعلان کیا کہ وہ حلقہ 2 کے لئے کمیشن بنائیں گے لیکن اس کے بعد پیپلز پارٹی کو وزارت کے برابر عہدہ ملا، تین اہم کمیٹیوں کی سرپرستی ملی وغیرہ وغیرہ جس کے بعد اب صرف یاد دہانی کے لئے کوئی پریس کانفرنس کی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ صوبائی قیادت، ان کی پالیسیوں اور اس کے اثرات پر مفصل مضمون درکار ہے تاہم گزشتہ ایک سال میں بالخصوص اسمبلی کے معاملات میں حاصل شدہ اہداف درج بالا ہی ہیں، کونسل انتخابات میں نواز خان ناجی کی غیرت نہیں جاگتی تو مزید صورتحال واضح ہوجاتی۔

گلگت بلتستان حکومت بھی نئے تجربوں کی خواہشمند معلوم ہو رہی ہے۔ گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت میں آج کی حکومت اپوزیشن میں بہت کم نظر آئی جس کی وجہ سے موجودہ حکومت کے ہاتھ وہ چیزیں نہیں لگ رہی ہیں جس سے عوام کی نبض کو پکڑا جا سکے۔ ایسی غلطیوں کو ماضی کی حکومتوں سے زیادہ دہرایا ہے جن کے باعث گزشتہ ادوار اور ارباب اختیار پر سوالات اٹھتے نظر آئے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی اور واضح مثال گلگت بلتستان کی عالی شان عمارت ہے جو اپنی روح کے اعتبار سے کھوکھلی سی لگ رہی ہے۔

گزشتہ ایک سال تک سپیکر جی بی اسمبلی کا اپنا رویہ کنٹیجنٹ ملازمین کا جیسا رہا ہے جن کو محکمہ کی کارکردگی اور اس کے چہرے سے کوئی غرض نہیں رہی ہے تاہم ڈپٹی سپیکر نے چند اجلاسوں میں اس کو کور دینے کی کوشش کی ہے۔ اسمبلی کا مینڈیٹ ہے کہ کم از کم 120 دن تک اجلاس ہونے چاہیے لیکن گزشتہ ایک سال کے اندر 30 دن بھی مشکل سے پورے نہیں ہوتے ہیں جن سے اگر تعارفی اجلاس، خصوصی اجلاس برائے قرارداد بسلسلہ عبوری صوبہ، پری بجٹ اجلاس جیسے چیزوں کو نکالا جائے تو پیچھے کچھ نہیں بچے گا۔

اسمبلی میں حکومت کی تیاری کا عالم بھی قابل دید ہے جہاں پر صوبائی وزیر فتح اللہ، صوبائی وزیر جاوید منوا، اور مشیر خوراک شمس لون کے علاوہ کوئی اٹھ کر یہ اعلان بھی نہیں کر سکتا ہے کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ ہیں اور انہیں عمران خان کی قیادت و پالیسیوں پر اعتماد ہے۔ سینئر وزیر راجہ زکریا اور مشیر قانون سہیل عباس بھی اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں مگر مجموعی صورتحال کسی صورت بہتر نہیں ہے۔ یہ شاید انوکھا اعزاز جی بی اسمبلی کو جاتا ہے جس میں ایک سال تک اسمبلی کے قائمہ کمیٹیز نہیں بن سکے اور جب بنے تو سپیکر صاحب نے کاغذ کھولنے کی زحمت نہیں کی اور خلاف دستور اقدامات بھی سرانجام دیے۔

خالد خورشید کی اسمبلی میں بطور قائد ایوان پہلی تقریر پر جو ردعمل دیا گیا وہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کو کم از کم ترجمانی کے لئے فردوس عاشق ایوان کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن ایسا نہیں ہوا جہاں ایک طرف فردوس عاشق ایوان کی یہاں تقرری کا مطالبہ کیا جانا جائز معلوم ہوتا ہے وہی پر ڈھیروں غیر ضروری عہدوں کی بندر بانٹ کردی ہے۔ اس وقت اگر زیر تحریر کالم کے دوران اگر حکومتی عہدوں کی گنتی شروع کروں تو ایک کالم جتنا مزید وقت لگے گا کون کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے؟

جو کچھ کر رہا ہے کم از کم حکومت نہیں کر رہا ہے۔ عوام اور حکومت کے بیچ میں خلا ہے جو کسی بھی وقت اپنے اظہار کو پہنچ سکتا ہے۔ اب تک غیر یقینی اور غیر معمولی صورتحال کے اندیشے کے پیش نظر عوامی اظہار سامنے نہیں آ سکا ہے تاہم اس کا کسی بھی وقت سامنے آنا اور حکومت کو بیک فٹ پر جاکر وضاحتیں جاری کرنا کوئی دور نہیں ہے۔

جن نئے تجربات سے موجودہ حکومت گزری ہے ان میں ایک 370 ارب روپے کا جامع ترقیاتی پیکج ہے مگر اس پیکج کے خد و خال کو اب تک عوام کے سامنے اس طرح سے نہیں لایا جا سکا ہے جس طرح سے ہونا چاہیے۔ 370 ارب کا نعرہ یا اعلان بہت جلد سی پیک کی شکل اختیار کر جائے گا جہاں پر ہر ضلع پکارے گا کہ 370 میں سے ہمیں کتنے ارب ملے ہیں۔

ترقیاتی منصوبوں کے کاغذی مراحل پر تحریک انصاف کی حکومت کو کریڈٹ نہ دینا سراسر زیادتی بلکہ بددیانتی ہوگی۔ مختصر وقت میں جس طریقے سے منصوبوں کو فورمز سے منظور کرایا ہے وہ انتہائی حیران کن اور اس بات کا مظہر ہے کہ جی بی حکومت کے وفاقی حکومت کے ساتھ اچھے معاملات چل رہے ہیں جن سے خالد خورشید حکومت بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ گلگت بلتستان میں 1 کھرب سے زائد کا بجٹ پیش کیا گیا جو کہ 370 ارب کے جامع پیکج کا حصہ بھی ہے۔

50 ارب مالیات کا گلگت تا شندور ایکسپریس وے کو بڑی تیزی سے منظوری دلائی اور ٹینڈر کرایا گیا اور ابتدائی کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ آئندہ سال گلگت سٹی کے سیوریج پر کام شروع ہونا ہے جس کی منظوری مل چکی ہے، ہینزل پاور پراجیکٹ کا دوبارہ ٹینڈر کر کے ملازمین کی تقرری کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ صحت کے شعبے میں ڈاکٹروں کی مستقلی اور مطالبات کی منظوری عمل میں لائی گئی۔ تتہ پانی روڈ کے متبادل روڈ کی منظوری مل چکی ہے اور متوقع طور پر آئندہ سیزن تک نیا راستہ مل جائے گا۔ گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کے غبارے میں بھی ایک بار پھر زور سے ہوا پھونکی گئی ہے تاہم اس کا انحصار ملکی حالات و واقعات پر ہے جو حسب دستور تیسرے سال کے بعد لڑکھڑاتے یا ادھر ادھر ہوتے نظر آرہے ہیں۔ سونی جواری پارک قائم کیا گیا ہے حدود و قیود اور کارکردگی سامنے آنا باقی ہے۔

دوسری جانب عوامی مسائل اب بھی حل طلب ہیں، سردیاں اپنے عروج کی جانب گامزن ہیں لیکن توانائی کا معقول حل موجود نہیں ہے، سابقہ حکومت کے ایئرمکس گیس منصوبے میں سردمہری برتی گئی، اضلاع کے ہیڈکوارٹر ہسپتال اب بھی جوں کے توں پڑے ہوئے ہیں، ہسپتالوں میں ٹیکنیکل سٹاف کے معاملات درپیش ہیں، گندم سبسڈی کی مد میں رقم تو بڑھائی گئی مگر گندم پھر بھی غیر معیاری اور قلیل، شہری علاقوں میں پانی کا بحران جیسے متعدد مسائل اب بھی اسی طرح موجود ہیں جس طرح پہلے سے موجود تھے۔

سالار قافلہ جتنی جلد مشاورتی عمل کا آغاز کرے گا اتنے بہتر نتائج ملیں گے، موجودہ کابینہ آپس میں ہی متفق نظر نہیں آتی ہے تو اس سے اوپر کسی مرحلے پر کیا کام کرے گی۔ حکومت کا دل جگر گردہ بڑا ہوتا ہے، چھوٹی باتوں کو خندہ پیشانی سے ہضم نہیں کریں گے تو کسی بڑے منصوبے کی جانب نہیں بڑھ سکیں گے۔ امید ہے عنایت کردہ محدود وسائل میں دوسرے سال عوام کے مسائل پر توجہ دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments