زندگی خوبصورت ہے



زندگی بہت خوبصورت ہے اس کو کینسر کے مرض کی طرح عذاب بنا کر مت گزاریں جیئے جینے کے فن سیکھنے کی کوشش کریں میں بھی زندگی کو خوبصورت خوشیوں سے لطف اندوز ہو کر گزارنے کی بھر پور کوشش کرتی ہوں اسلام آباد میں پچھلے تین ماہ سے بسیرا کر بیٹھی تھی، مگر دل کا لگنا اور لگانا میرے لیے اس قدر مشکل ہو رہا تھا یہاں کے آفس کی چھٹی کے بعد یہاں لوگوں کو ڈھونڈتی پھرتی تھی جن کے ساتھ بیٹھ کر سکون کے چند لمحے گزار سکوں اسی طرح روز شام کو خوبصورت کرنے کے لیے معمول بنا رکھا تھا کہ تبصرے چھیڑ دینے ملکی حالات کی سرگرمیوں کو دیکھ کر روزمرہ زندگی کی رفتار جس تیزی سے پروان چڑھ رہی تھی مسائل بھی اتنا ہی زور پکڑ رہے تھے۔

اکتاہٹ ہی ہوتی تھی سوچ، سوچ کر پھر خیر وہاں سے بھی بھاگنے کو دل چاہتا ہے پھر پہاڑوں سے نیچر سے آکسیجن حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ روبرو ہونے کا دل چاہتا مجھے لگتا ہے میں نے عشق کیا ہے بس ان کو دیکھ کر محسوس کر کے مجھے لگتا ہے میں کسی اپنی ہی دنیا میں گم ہوں تو بس ان پہاڑوں کو چھونے کا ان کے احساس کو محسوس کرنے کا بہت دل چاہ رہا تھا میں نے پلان بنایا اچانک کے پہاڑوں کا رخ موڑ لیا جائے میں تو تھی ہی پاگل مجھے اس ٹرپ میں اپنے ساتھ ایک اور پہاڑوں سے عشق کرنے والی ٹکرا گئی اب کراچی سے فلائٹ پکڑ کر آنے والی لڑکی نے میرے بھی دل کو حوصلہ دے دیا کہ اس سردی میں ہی نکلا جائے پہلی بار میں نے اسلام آباد سے ہنزہ چلنے والی لوکل ٹرانسپورٹ کو استعمال کیا اور ہنزہ پہنچ گئے ہم خزاں کے رنگ دیکھنے خزاں کے رنگوں سے یاد آیا کہ اس کا تعلق جوڑنے والے شاعر حضرات جو خزاں کو بہت آڑے ہاتھوں لے لیتے ہیں محبوب کی جدائی ہو یا وصال یار سب کا بہتان خزاں کے سر کر دیتے ہیں جب کہ شاخ سے ٹوٹنا اس پتے کا اور تنہا رہ جانا پھر خزاں کے رنگ بن جانا اس کی سبزادی کو کھا جاتا ہے میں بھی اتنا طویل سفر طے کر کے اس موسم کی آمد کو ملنے آئی ہوں ہر انساں دنیا کی بھاگ دوڑ میں مبتلا میں سکون کے کچھ لمحے اس موسم کے سپرد کرنے آئی میں کوئی اک پریشاں حال مسافر بھی نہیں جسے سفر کی تھکن اور منزل کی دوری نے بہت پریشاں کر رکھا ہو اور راستے میں کئی چیزوں کا جواب حاصل کرنے کے لئے قدرت کے قریب جانا چاہتی ہو ہا

خزاں کا پورا تسلط ہے تاحد نظر دائیں بائیں نظر آنے والے درخت پودے، جھاڑیاں، روشیں مرجھا چکے ہیں۔ مجھے خزاں کا یہ موسم بہت پسند ہے سارے درخت سر جھکا لیتے ہیں۔ جیسے دست بستہ آنکھیں موندے کسی کے حضور میں کھڑے ہوں۔ ساکت، صامت پتے ازخود سرنگوں ہو جاتے ہیں۔ نہ ہلتے ہیں نہ جلتے ہیں، پتہ نہیں کس کے اشارے پر بن چاپ کے زمین پر گرتے رہتے ہیں۔ ہرے بھرے درختوں کے پیرہن ملگجے ہو گئے ہیں۔ درختوں کی چھال جیسے جل چکی ہے۔

پرندے اب بھی ان درختوں پر آتے ہوں گے مگر ان کے آنگن میں سناٹا ہے۔ ایک پراسرار مہیب جس نے ماحول کو جادوئی بنا دیا ہے یہ کون ہے۔ جو دن رات کی زنجیروں میں موسم باندھ کے انسانوں کی نگری میں بھیج دیتا ہے زرد پتوں کے ڈھیر زمین کے سینے پر تھکے ہوئے نومولود کی طرح سو رہے ہیں۔ سورج بھی آج کل مصلحت آمیز ہو گیا ہے جب دھوپ کی شدید ضرورت تھی۔ تب دھوپ بھی شرمیلی بن گئی

اونچی نیچی روشوں پر زرد پتے دوڑتے پھرتے ہیں اور ہوا ان سے کہتی ہے بکھیرو میرے ٹوٹنے کو سمیٹنے کے بجائے اور پھر بہار کے آنے کے منتظر بیٹھ جاتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments