اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق


خدا کے واسطے پہلے تو یہ گھسا پٹا بیانیہ دہرانا بند کر دینا چاہیے کہ ہم بیرون ملک مقیم پاکستانی زر مبادلہ بھیج کر پاکستان پر احسان عظیم کر رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پیسے ہم اپنے خاندانوں کو بھیجتے ہیں اور ہمارے خاندان پاکستان میں مقیم ہیں لہذا پاکستان کا بھی ساتھ فائدہ ہوجاتا ہے، اگر ہمارے خاندان یوگنڈا، صومالیہ یا بنگلہ دیش ہجرت کر جائیں تو ہم اسی ملک میں پیسے بھیجنا شروع کر دیں گے۔ سیاسی جماعتیں ہم سے چندہ لینے کی خاطر ہمیں پھلاتی رہتی ہیں اور ہم پھولتے ہی جا رہے ہیں۔

میں بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی کا حصہ ہوتے ہوئے، اس بات کا اعتراف کر رہا ہوں کہ دو ماہ پہلے تک مجھے لگتا تھا کہ مجھے بھی پاکستان میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔

مگر حال ہی میں میرے پاکستان کے لگائے گئے چکر کی بدولت میں اپنی رائے پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔

اب مجھے لگتا ہے کہ نہیں، ہم یہاں ترقی یافتہ ممالک میں بیٹھ کبھی بھی پاکستان میں رہنے والے ہم وطنوں کے مسائل کا درست ادراک نہیں کر سکتے۔ ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم فلاحی ریاستوں میں بیٹھ کر ایک ترقی پذیر ملک کی پسے ہوئے عوام پر اپنی مرضی کی حکومتیں مسلط کرتے رہیں۔

پاکستان کے تمام مسائل مہنگائی، لاقانونیت، کرپشن، فضائی آلودگی، کورونا، اور ڈینگی ان لوگوں کو براہ راست متاثر کرتے ہیں جو وہاں پر رہ کر اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔

ہم سب تو اپنی اور اپنے خاندانوں کی زندگی میں آسودگی لانے کی خاطر پاکستان کو اس کے مسائل سمیت چھوڑ کر باہر نکل آئے ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی اور لا قانونیت وجہ سے عوام کی چیخیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ظاہر ہے ان کی گالیوں اور اور بد دعاؤں کا ہدف وقت کا حکمران ہی ہو گا۔ ہم اپنے بھرے پیٹ کے ساتھ لاکھ توجیحات پیش کریں کہ ”سوہنا“ ایماندار ہے، گزشتہ حکمرانوں کے پیدا کردہ مسائل ختم کرنے میں وقت درکار ہے، وہ بہت کرپٹ تھے، مافیاز سے لڑنا آسان نہیں ہوتا، ستر برس کے مسائل حل کرنے میں وقت درکار ہے۔ شاید یہ تمام باتیں سو فیصد درست بھی ہوں۔

مگر یقین کریں بھوکے پیٹ والے عام پاکستانی کو ان کہانیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسے کھانا چاہیے، بچوں کی بیماری کی صورت میں دوا چاہیے، حادثے کی صورت میں وقت پر علاج چاہیے۔ یہ سب مسائل حل نا ہونے کی صورت میں کم از کم اسے اپنی فرسٹریشن اور غصے کے اظہار کا حق تو ہونا چاہیے۔ یہ غصہ اور فرسٹریشن وہ ووٹ کے ذریعے ہی نکال سکتا ہے۔

ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے خاندانوں کو مہنگائی اتنا متاثر نہیں کرتی کیونکہ درہم، دینار، ڈالر اور یورو کا ریٹ اسی تناسب سے اوپر چلا جاتا ہے جس تناسب سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ لہذا ہم سوچتے ہیں مہنگائی کی خیر ہے میاں صاحب اور زرداری صاحب تو کھجل ہو رہے ہیں ناں۔

میرے ناقص رائے میں میڈیائی پروپیگنڈا سن کر یا فیس بک پر بیٹھ کر ہم کبھی بھی زمینی حقائق کا درست اندازہ نہیں لگا سکتے۔ اگر کسی کو پاکستان میں ووٹ دینے کا شوق ہے تو اسے چاہیے وہ وہاں جا کر چھے ماہ زندگی گزارے عام لوگوں سے ملے پھر جا کر فیصلہ کرے کہ اس کے ووٹ کا حقدار کون ہے۔

آخر میں یہ وضاحت بھی کہ اس سارے بھاشن کا مقصد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو کم محب وطن ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ کئی دفعہ تو لگتا ہے کہ ہم اوورسیز پاکستانیوں کو وطن سے دور ہونے کی وجہ سے وہاں کے باسیوں سے بھی زیادہ محبت ہے۔

مکرر عرض ہے ہماری ساری محبت، عشق اور وطن عزیز کو ان ترقی یافتہ ممالک کہ ہم پلا دیکھنے کی خواہش کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ووٹ دینے کا حق صرف وہاں پر کھجل ہوتے اور اپنے ملک کی ترقی میں کسی نا کسی طرح حصہ ڈالتے ہوئے غریب عوام کا ہے۔

اگر ہم باہر سے بیٹھ کر ان پر حکومت مسلط کریں گے تو یہ ہمارے غریب عوام کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی۔
سادہ سی بات ہے جو جس ملک میں زندگی گزار رہا ہے صرف اسے ہی اپنے حکمران چننے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔
یہ ہر ملک کے باسیوں کی مرضی اور حق ہے چاہے وہ کالے چور کو ہر بار منتخب کر لیں۔

ہم اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل یقیناً ہیں مگر ان مسائل کی نوعیت وہاں پر بسنے والے پاکستانیوں سے بالکل مختلف ہے اگر آپ ہمارے اتنے ہی ہمدرد ہیں اور ہمارے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں تو قومی اسمبلی میں دو چار نشستیں صرف اوورسیز پاکستانیوں کے لئے مختص کر دیں۔

میری نظر میں ہمارے مسائل کے حل کے لئے تو الگ نشستیں ہی بہترین حل ہیں۔ اس طرح ہم ووٹ بھی دے پائیں گے اور اسمبلی میں اپنے مسائل کے حل کے لئے موثر آواز بھی اٹھا پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments