سوات میں سکندرِ اعظم کے دور کا قلعہ دریافت: ’اس کے ایک مینار سے پورے شہر کی نگرانی ہوتی تھی‘


کھدائی کے دوران قلعے کے چار ستون، پانی کی ایک ٹینکی اور نکاس کے نظام کے آثار ملے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں دو ہزار سال قدیم قلعے کے آثار دریافت ہوئے ہیں۔ اس قلعے کے آثار کا تعلق قدیم روم کے حکمران سکندرِ اعظم کے دور سے بتایا جاتا ہے۔

سوات میں اٹلی کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے تعاون سے تحصیل بریکوٹ میں بازیرہ کے مقام پر کھدائی کے دوران اس قلعے کے آثار دریافت ہوئے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہزاروں برس قدیم آثار دریافت ہونے کے بعد سوات کے علاقے بازیرہ کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔

کھدائی کے دوران قلعے کے چار ستون، پانی کی ایک ٹینکی اور نکاس کے نظام کے آثار ملے ہیں۔ اس کے علاوہ نگرانی کے لیے بنائے گئے قلعے کے ایک برج (واچ ٹاور) کے آثار بھی دریافت ہوئے ہیں جس سے سوات کی نگرانی کی جاتی تھی۔

قدیم شہر

سوات کی تحصیل بری کوٹ کے علاقے بازیرہ کو ایک قدیم شہر تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں حالیہ چند برسوں کے دوران بازیرہ کے ‘غنڈی’ نامی پہاڑ پر کھدائی کے دوران مختلف ادوار کے آثار ملے ہیں جنھیں ماہرین اہمیت کا حامل قرار دیتے ہیں۔

غنڈی پہاڑ کے ایک جانب دریائے سوات اور دوسری طرف بریکوٹ کی آبادی ہے۔ وادیٴ سوات میں متعدد مقامات ہیں جہاں قدیم آثار موجود ہیں۔

ہر سال آثارِ قدیمہ کے ماہرین، ملکی اور غیر ملکی طلبہ ان آثار پر تحقیق اور قدیم دور میں یہاں پائی جانے والی تہذیب کا مطالعہ کرنے کے لیے سوات کا رخ کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اطالوی ماہرِ آثارِ قدیمہ لوکا ماریہ اولیوری نے بتایا کہ موجودہ دور میں ہمیں بازیرہ کے مقام پر آثار کی دریافت میں کئی کامیابیاں ہوئی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل یہاں ہندوؤں کے ایک مندر کے آثار ملے ہیں جو ترک شاہی دور میں تعمیر ہوا تھا۔

افغانستان میں ساتویں سے نویں صدی تک موجودہ کابل سے گندھارا کے علاقے تک پھیلی ہوئی قدیم ترکوں کی سلطنت کو ترک شاہی کہا جاتا تھا۔

اس مندر کی تعمیر ساتویں صدی عیسوی میں ہوئی تھی اور اسے بعد میں گیارہویں صدی عیسوی میں مسمار کیا گیا تھا۔

پشاور اپنی تاریخی شناخت کیوں کھو رہا ہے؟

ان کے مطابق یہ کہنا مشکل ہے کہ اب تک وہ اس علاقے میں کتنے آثار دریافت کرنے میں کامیاب رہے ہیں کیوں کہ بازیرہ کا علاقہ قدیم آثار و ثقافت کے لحاظ سے بہت زرخیز ہے اور اس علاقے پر کئی دور گزرے ہیں۔

سوات میں آثار کی دریافت کا آغاز

آٹھ کتابوں کے مصنف اور محقق فضل خالق کا تعلق وادیٴ سوات سے ہے۔ انھوں نے تین کتابیں آثار قدیمہ پر لکھی ہیں۔ وہ اس نئی تحقیق کو بہت بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بازیرہ کے علاقے میں مورین سلطنت، ہند یونانی دور، اس کے بعد کشن دور، پارسی دور، ترک شاہی دور، ہندو شاہی دور اور پھر مسلم دور کے آثار موجود ہیں۔

ترک شاہی دور ساتویں صدی عیسویں میں شروع ہوا۔ اس کے بعد وسطی دور آتا ہے جو کہ نویں صدی تک چلتا رہا اور اس کے بعد علاقے میں اسلام آیا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ جب اوائل میں یہاں یونانی ثقافت کے آثار ملے تو اسے سکندرِ اعظم کا شہر ہونے کے عنوان سے شہرت ملی۔

سکندرِ اعظم کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان سے باجوڑ اور دِیر سے ہوتا ہوا بازیرہ میں 327 قبل مسیح میں آیا تھا۔ یہاں اس نے بہت بڑی جنگ لڑی تھی

ہڑپہ کی قدیم تہذیب اور اس سے جُڑی ثقافت

ان کا کہنا ہے کہ اس شہر کے چاروں اطراف دیوار تھی اور ایک قلعہ بھی موجود تھا جس کے آثار اب ظاہر ہو رہے ہیں۔

آثار کے دریافت کی ابتدا والی سوات کے دور میں ہوئیں

فضل حق کے مطابق سوات میں آثارِ قدیمہ سے متعلق کام کا آغاز والیٴ سوات کے زمانے میں ہوا جب اٹلی کے ماہرِ آثار قدیمہ ڈاکٹر ٹوچی اس خطے میں آئے تھے۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر ٹوچی کو تبت میں ایک تحریر ملی تھی جس میں ‘آدیانہ’ کا ذکر ہوا تھا۔ یہ تحریر لے کر ڈاکٹر ٹوچی سوات تک آئے اور یہاں وہ تمام آثار ملے جن کا اس تحریر میں ذکر تھا۔ جس پر ڈاکٹر ٹوچی نے کہا تھا کہ کھویا ہوا آدیانہ پھر سے دریافت کر لیا گیا ہے۔

فضل حق نے بتایا کہ وادیٴ سوات میں آثار قدیمہ کے حوالے سے حالیہ دور میں اطالوی ماہر ڈاکٹر لوکا ماریہ کی خدمات نمایاں ہیں۔ وہ 80 کی دہائی سے سوات میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

سیاحت کے امکانات

فضل خالق کے مطابق مختلف مذاہب کے آثار کا اسی ایک شہر میں پایا جانا نہ صرف وادیٴ سوات بلکہ پوری دنیا کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا شہر ثابت ہو سکتا ہے جہاں پوری دنیا کے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد آ سکتے ہیں۔

ان کے مطابق اگر حکومت مقامی اور بیرونی سیاحوں کے لیے مناسب بندوبست کرے تو اس علاقے میں مذہبی اور ثقافتی سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments