پاکستان کی نجی کمپنی جو خواتین کو ’ماہواری میں ہر ماہ ایک چھٹی‘ دے رہی ہے

عمر دراز ننگیانہ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


ماہواری
پاکستان میں ایک نجی کمپنی نے خواتین ملازمین کے لیے ماہواری کے دنوں میں ہر ماہ ایک چھٹی دینے کی پالیسی متعارف کروائی ہے۔ یہ چھٹی ان چھٹیوں کے علاوہ ہو گی جو وہ سالانہ لینے کی حقدار ہیں اور اس روز کی ان کی تنخواہ نہیں کاٹی جائے گی۔

’منتھلیز‘ کے نام سے شروع کی جانے والی چھٹی کی اس پالیسی کا اطلاق حال ہی میں کیا گیا ہے اور کمپنی کی ہر خاتون باآسانی مہینے میں ایک دن اس سے استفادہ حاصل کر پائیں گی۔

سوئفٹ لاجسٹکس نامی ای کامرس کمپنی کے چیف ایگیزیکیٹو آفیسر محمد انس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس پالیسی کا مقصد معاشرے میں ماہواری کے حوالے سے پائے جانے والے منفی خیالات و رحجانات کو ختم کرنا ہے تاکہ خواتین کو ماہواری کے درد والے دن بیماری کا بہانہ بنا کر چھٹی کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کی کمپنی میں یکم نومبر سے لاگو کی جانے والی اس پالیسی کے مطابق کوئی بھی خاتون با آسانی ایک پورٹل پر جا کر منتھلیز کی چھٹی کی درخواست بھریں گی جو پہلے سے منظورشدہ ہو گی اور یوں وہ چھٹی حاصل کر پائیں گی۔

’ہماری کمپنی میں جھوٹ بولنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے‘

محمد انس کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر پائے جانے والے تاثر کے برعکس اس پالیسی سے ان کی کمپنی کو کسی قسم کے مالی نقصان کے بجائے فائدہ ہو گا۔ ’اگر کوئی خاتون ماہواری کے دنوں میں درد کے ساتھ کام پر آ رہی ہیں تو وہ ویسے بھی اپنی پوری صلاحیت کے مطابق کام نہیں کر پائیں گی۔ ہماری کمپنی میں جھوٹ بولنے کے کلچر کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔‘

ان کے خیال میں اگر ان کے کسی ملازم کو جھوٹ بولنے کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی تو وہ اعتماد کے ساتھ زیادہ پیدواری صلاحیت کے ساتھ کام کریں گے جس کا انھیں بھی فائدہ ہو گا اور کمپنی کو بھی۔

ماہواری

Mavera Rahim

سوئفٹ لاجسٹکس میں تین سو کے لگ بھگ ملازمین کام کرتے ہیں اور محمد انس کے مطابق ان میں 30 فیصد خواتین ہیں۔

ان کا دعوٰی ہے کہ پاکستان میں وہ پہلی کاروباری کمپنی ہے جس نے خواتین کو ماہواری کے دنوں میں تنخواہ کے ساتھ چھٹی دینے کی پالیسی اپنائی ہے۔

’یہ جائے ملازمت کے لیے ہدف ہے‘

اس اقدام کو پاکستان میں سوشل میڈیا پر کافی پذیرائی ملی ہے جہاں خاص طور پر خواتین اسے ایک ’بہترین آغاز‘ قرار دے رہی ہیں۔

ٹوئٹر پر نمرہ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ سوئفٹ لاجسٹکس کی جانب سے بہترین پہلا قدم ہے۔ برائے مہربانی اسے ہر اس کمپنی کے لیے قانون بنا دیجیے جس میں خواتین کام کرتی ہیں۔‘

صحافی علینہ فاروق شیخ نے اس خبر کو شیئر کرتے ہوئے سوئفٹ لاجسٹکس کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ’براوؤ۔ امید ہے کہ باقی اس کی تقلید کریں گے۔‘

سعدیہ دادا نے اسے ’جائے ملازمت کے لیے ہدف‘ قرار دیا۔ انھوں نے سوئفٹ لاجسٹکس اور وہاں کام کرنے والے افراد کی طرف سے ممنوع سمجھے جانے والے موضوع کے تاثر کو ختم کرنے کے لیے ’پیریڈ ڈے آف‘ دینے کو سراہا۔

مہران نامی ایک صارف نے کپمنی کو داد دیتے ہوئے لکھا کہ ‘تھوڑا سہی مگر یہ شروعات ہے۔ کیا کوئی اور کمپنی پاکستان میں اس طرح کی پالیسی پر عمل کرتی ہے؟ ان کا دعوٰی ہے کہ پیریڈ لیوز متعارف کروانے والی وہ پہلی کمپنی ہیں۔‘

اس پالیسی نے کیسے جنم لیا؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سوئفٹ لاجسٹکس کے سی ای او محمد انس نے بتایا کہ ان کمپنی کی طرف سے اس نوعیت کی پالیسی متعارف کروانے کے پیچھے ایک کہانی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ ایک سٹور پر خریداری کر رہے تھے جب وہاں موجود دو تین مرد سیلزپرسنز کو انھوں نے اپنی ایک خاتون ساتھی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سنا۔

‘وہ خاتون بار بار کبھی اٹھ رہی تھیں، کبھی بیٹھ رہی تھیں۔ میرے کانوں میں ان مرد سیلز پرسنز کی آواز پڑی کہ یہ آج بہت چڑھی ہوئی ہے لازماً اسے ماہواری چل رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سٹور سے نکل کر واپس گھر جاتے ہوئے وہ راستے میں سوچتے رہے کہ وہ اس خاتون کے لیے تو کچھ نہیں کر سکتے تھے لیکن وہ اپنی کمپنی میں کام کرنے والی اپنی ساتھی خواتین کے لیے آسانی پیدا کر سکتے تھے۔

‘اگر وہ خاتون اس صورتحال میں کام کرنا مشکل محسوس کر رہی تھیں تو میں نے سوچا کہ لازماً خواتین ان دنوں میں ایسی صورتحال سے گزرتی ہوں گی۔‘

اس کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی کمپنی میں خاص طور پر پیریڈ لیوز متعارف کروائیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’اگر ماہواری نہ ہوتی تو آپ کا وجود بھی نہ ہوتا‘

سوشلستان: ’ماہواری بیماری نہیں ہے‘

کیا ماہواری کے ایام کا حساب لگانے والی ایپس نے خواتین کو مایوس کیا ہے؟

’خواتین کو چھٹی کے لیے جھوٹ بولنا پڑتا ہو گا‘

محمد انس کا کہنا تھا کہ انھیں تب یہ معلوم ہوا کہ ماہواری کے دنوں میں جب خواتین کام کرنے کی سکت نہیں رکھتی ہوں گی تو لازماً انھیں بیماری کا بہانہ بنانا پڑتا ہو گا یا دوسرے الفاظ میں جھوٹ بولنا پڑتا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی کمپنی میں سچ بولنے کے کلچر کو فروغ دیتے ہیں اور اس لیے وہ چاہتے تھے کہ خواتین ملازمین کو ایسی صورتحال کا سامنا ہی نہ کرنا پڑے کہ جہاں انھیں بہانہ بنانے کی ضرورت پڑے۔

‘اگر وہ بہتر محسوس نہیں کر رہی تو کھل کر بتا پائیں اور اس روز کام سے چھٹی کر پائیں، اس لیے ہم نے اس پالیسی کو اپنایا۔ پھر بھی یہ ان کی مرضی ہے، اگر وہ گھر پر رہ کر کام کر سکتی ہیں اور گھر سے کام کرنا چاہیں تو بھی کر سکتی ہیں۔‘

محمد انس نے بتایا کہ جب ان کی خواتین ساتھی ملازمین کو اس پالیسی کے حوالے سے آگاہ کیا گیا تو ان تمام نے انتہائی خوشی کا اظہار کیا۔

’اگر ہم کر سکتے ہیں تو باقی بھی کر سکتے ہیں‘

سی ای او سوئفٹ لاجسٹکس محمد انس نے بتایا کہ اس پالیسی کو ترتیب دینے سے پہلے انھوں نے کمپنی کے تمام ملازمین کو مشاورت کے لیے دعوت دی۔ جب ان سے اس خیال کا اظہار کیا گیا تو 99 فیصد ملازمین نے اس کی حمایت کی۔

اس طرح ان کی کمپنی میں خواتین کو سال میں 12 پیریڈ لیوز ملیں گی جن پر ان کی تنخواہ نہیں کاٹی جائے گی۔

محمد انس کا کہنا تھا کہ اس پالیسی کی تشہیر سے ان کا مقصد یہ تھا کہ باقی کاروبار اور کمپنیاں بھی اس طرح کی پالیسی کو اپنائیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ہم ایسا کر سکتے ہیں تو باقی بھی کر سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی محض دو سال پرانی ہے تاہم ان برسوں میں اس نے اس قدر ترقی کی ہے کہ ای کامرس مارکیٹ میں وہ تیسرے نمبر پر آچکی ہے۔

اس کی وجہ ان کے خیال میں یہی تھی کہ ان کے ہاں ہر ملازم کو اعتماد کی فضا میں کام کرنے کا موقع ملتا ہے کہ انھیں کسی قسم کا بہانہ بنانے اور جھوٹ بولنے کی ضرورت نہ پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments