میری خراب ہینڈ رائٹنگ پر تنقید


اپنی ہاتھ کی لکھائی (ہینڈ رائٹنگ) اتنی اچھی ہے کہ میرا لکھا دیکھ کر بری سے بری لکھائی والا بھی شکر ادا کرتا ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ لکھائی کے معاملے میں پورے ڈاکٹر واقع ہوئے ہیں، کہتے ہیں نا کہ ڈاکٹر بننے کےلیے ڈگری کے ساتھ ساتھ لکھائی خراب ہونا بھی ضروری ہے۔ میں ڈاکٹر بھی اسی وجہ سے نہیں بنا کہ کم از کم ڈاکٹرز کی لکھائی فارمیسی والوں کو تو سمجھ آتی ہے اور میرا “لکھے مو سا پڑھے خود آ” والا معاملہ ہے۔ مجھے ایسی کوئی کلاس یاد نہیں جس میں مجھے اپنی لکھائی کو خوش خط بنانے کا نہ کہا گیا ہو۔ صرف ایک استاد نے قابل عمل مشورہ دیا کہ دیکھو بیٹا خوش خطی تو تمہارے لیے ایک خوش فہمی ہے تم بس لکھائی اتنی بہتر کر لو کہ سمجھ آ سکے کہ لکھا کیا ہے، لیکن یہ نہ ہونا تھا نہ ہو سکا۔ پھر بھی ان تمام نیک لوگوں کا شکریہ جو میرے پیپرز سمجھ نہ آنے کے باوجود مجھے پاس کرتے رہے اور آج میں خود کو پڑھا لکھا کہہ سکتا ہوں۔ میری خراب ہینڈ رائٹنگ کے ساتھ کافی دلچسپ واقعات بھی جڑے ہوئے ہیں۔
ایک دن میں آفس میں بیٹھا تھا کہ سر حسن آئے ان کے پاس کچھ کاغذات تھے جن پر لکھی تفصیلات انہیں ترمیم و اضافے کے ساتھ نئے کاغذات پر نقل کرنا تھیں۔ یہ نیک کام انہوں نے مجھے سونپا کہ وہ بولتے جائیں گے میں لکھتا جاؤں۔ میں مروتاً انکار نہ کر سکا جب کام مکمل ہو گیا اور انہوں نے میرا لکھا دیکھا تو کہا خالد اب یہ پڑھے گا کون؟ میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا سر میری لکھائی ایسی ہی ہے لیکن آپ کو انکار نہیں کر سکا۔ آگے سے کہتے بیٹا اگر تم صاف انکار کر دیتے تو مجھے اتنا برا نہ لگتا۔ اب ایسا ہی کرتا ہوں جب بھی کوئی مجھ سے کچھ لکھوانا چاہے تو پیشگی معذرت کر لیتا ہوں کہ میں آپ پر احسان کر کے آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا۔ بری لکھائی کی وجہ سے اکثر پریشانی تو ہوتی تھی مگر ایک بات ہمیشہ حوصلہ دیتی تھی کہ “نفسیات کے مطابق بری ہینڈ رائٹنگ والے اکثر لوگ تخلیقی ہوتے ہیں”۔ لیکن مجھ میں کون سی تخلیقی صلاحیت ہے یہ مجھے معلوم نہ تھا۔ جب میں نے ایف ایس سی مکمل کر لی تو مزید حوصلہ ملا کہ اگر خراب لکھائی کے ساتھ بارہ جماعتیں پاس کر لی ہیں تو آگے بھی کام چل جائے گا ایک اور بات جو میں اکثر تنقید کرنے والوں سے جان چھڑانے کے لیے کہتا تھا کہ اب ہر چیز ڈیجیٹل ہوتی جا رہی ہے تو ہاتھ کی لکھائی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ جب میں بی اے میں تھا تو ایک دن گاؤں میں ایک  فرنیچر کی دکان پہ بیٹھا تھا۔ فرنیچر والے نے کہا کہ میں تمہیں آرڈر لکھواتا جاتا ہوں تم لکھتے جانا۔ جب میں نے آرڈر لکھنا شروع کیا تو اس نے کہا او ہو ہو اتنی گندی لکھائی، کس کلاس میں ہو تم۔ تیرویں کلاس میں ہوں۔ لیکن تمہاری لکھائی تو نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں۔
مدعا یہ کہ اس دن کافی پشیمانی اٹھانی پڑی۔ اسی وقت تہیہ کیا کہ لکھائی کو بہتر بنانا ہے، ایسے ارادے اور ناکام کوششیں میں پہلے بھی کئی بار کر چکا تھا مگر اس بار کی کوششوں میں مجھے قدرت کی طرف سے ایک انمول تحفہ ملا۔ میں نے کاغذ قلم لے کر پرانی یاد کی ہوئی کہانیاں لکھنا شروع کر دیں مگر لکھتے لکھتے میں ان میں اپنے پاس سے جملے ٹانکنے لگا جو کہ میرے لیے حیران کن تھا۔ اس سے پہلے کچھ بھی لکھنے کےلیے خوب رٹا لگانا پڑتا تھا اور حرف بہ حرف وہی چھاپ آتا تھا۔ مگر اب کی بار آدھی آدھی کہانی اپنے پاس سے لکھ رہا تھا۔ پھر میں پرانی یاد کی ہوئی کہانیاں لکھنے کے بجائے مکمل طور پر نئی کہانیاں تخلیق کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ ان کوششوں میں بھی ہینڈ رائٹنگ تو ٹھیک نہ ہوئی مگر مجھے لکھنے کی صلاحیت سے آشنائی ہو گئی۔ تب سے لکھنے پڑھنے کا سلسلہ جاری ہے اور اللّٰہ نے چاہا تو تا دم آخر جاری رہے گا کیونکہ اچھا لکھنے کےلیے اچھا پڑھنا ضروری ہے۔ میرا یہ لکھنے کا سفر تنقید نگاروں کے مرہون منت ہے اس لیے کہ میں نے تنقید کو مثبت طور پہ استعمال کیا۔ طاہر فراز نے کہا تھا
مجھ کو تنقید بھلی لگتی ہے
آپ تو حد سے گزر جاتے ہیں
تنقید کرنے والوں سے فقط ایک گزارش ہے کہ تنقید کریں مگر ایک حد کے اندر رہ کر، کیونکہ ہر چیز اپنی حد میں اچھی لگتی ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments