سرخ لکیر والے موضوعات – مکمل کالم


آج بھی وہی معاملہ درپیش ہے کہ کیا لکھا جائے۔ بعض اوقات موضوع کا انتخاب کرنے میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ جتنے وقت میں یار لوگ ہفتے بھر کے کالم تیار کر لیتے ہیں۔ بظاہر چاروں طرف موضوعات کی بہار ہے مگر ان میں سے آدھے موضوعات ایسے ہیں جن پر روزانہ اڑھائی سو کے لگ بھگ مضامین مختلف اخبارات میں شائع ہوتے ہیں، سو اس قسم کے کسی موضوع پر لکھنا ایسے ہی جیسے انارکلی میں کپڑوں کی قطار اندر قطار دکانوں کے سامنے اپنا مفلر بیچنے کا ٹھیلا لگانا۔ جو موضوعات باقی بچتے ہیں ان پر لکھتے ہوئے پر جلتے ہیں کیونکہ ان پرایک اندیکھی ”سرخ لکیر“ کھنچی ہے۔

یہ سرخ لکیر کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، بس اٹکل پچو سے ہی اپنی تحریر کو خود ہی سنسر کر لیتے ہیں، اگر کبھی کوئی کمی کوتاہی رہ جائے تو مدیر مسئول بتا دیتے ہیں کہ ’گہرے پانیوں میں سفر کر رہے ہیں ہم‘ ۔ (نہ جانے مدیر کے ساتھ مسئول لکھنا کیوں ضروری ہے، میرے لئے تو فقط مدیر ہی کافی ہے ) ۔ یہ سرخ لکیر والے موضوعات کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ کم زیادہ ہوتی رہتی ہے تاہم آج کل یہ تعداد کافی بڑھ چکی ہے۔

مثلاً میری خواہش تھی کہ آج میں اس کانسٹیبل کی شہادت پر لکھوں جو گزشتہ دنوں ایک سابقہ کالعدم اور حالیہ جائز (مستقبل کا پتا نہیں ) مذہبی تنظیم کے احتجاج کے دوران ہلاک ہو گیا۔ یہ غریب کانسٹیبل ایک کرائے کے مکان میں رہتا تھا، اس کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا، اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا، جب اس کے سترہ برس کے بیٹے کو باپ کی شہادت کی اطلاع ملی تو اسے پہلے تو یقین ہی نہیں آیا اور جب اسے یقین دلایا گیا تو اس کی حالت غیر ہو گئی۔ ان بچوں کی کفالت کی ذمہ داری اب ان کے چچا پر آن پڑی ہے جو کھیتی باڑی کرنے والا ایک غریب شخص ہے۔ پولیس کے شہدا فنڈ سے شاید ان کی کچھ امداد بھی ہو جائے مگر اس امداد سے نہ تو ان کا والد واپس آئے گا اور نہ ہی یہ غم زندگی بھر ساتھ چھوڑے گا۔ انہیں البتہ یہ دلاسا ضرور دیا گیا ہے کہ کانسٹیبل خالد جاوید کی ’شہادت کی اچھی موت ہوئی ہے۔ ‘ یہ صرف ایک کانسٹیبل کے خاندان کی کہانی ہے، ایسے کم از کم نو پولیس اہلکار ان ہنگاموں میں شہید ہوئے اور ان سب کو بد ترین تشدد کر کے ہلاک کیا گیا۔

اب آپ پوچھیں گے کہ بھلا اس موضوع پر لکھتے ہوئے کیا مسئلہ ہے، یہ تو بہت نیکی کا کام ہے، شاید حکومت ان پولیس والوں کے لیے ایسے امدادی پیکج کا اعلان کر دے جس میں ان نو پولیس والوں کے لیے پانچ پانچ مرلے کے نو مکان، بچوں کی مفت تعلیم، بچیوں کی شادی کے تمام اخراجات کا ذمہ اور فی خاندان کم از کم ایک کروڑ روپے نقد دیے جائیں۔ کل ملا کر بھی یہ رقم پچیس تیس کروڑ روپے سے زیادہ نہیں بنتی، ایک فلائی اوور کی لاگت غالباً اس سے زیادہ ہوتی ہے۔ حکومت کو بھی چھوڑیں، دو چار سرمایہ دار اگر فقط اپنی جیبیں ہی جھاڑ دیں تو اتنے پیسے گر پڑیں۔ اور اگر کوئی سرمایہ دار بھی یہ نیکی کمانے کے لیے تیار نہ ہو تو پھر سعد رضوی صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنی رہائی کی خوشی میں ہی ان پولیس والوں کے لیے اس امدادی پیکج کا بندو بست کروا دیں، ان کے تو ایک اشارے پر یہ کام ہو جائے گا۔

سوال پھر وہی کہ اس موضوع پر لکھنے میں تامل کیسا، بظاہر تو یہ موضوع ایسا نہیں لگتا جس پر سرخ لکیر پھیری جائے۔ جی ہاں، یہ موضوع صرف اس وقت تک سرخ لکیر سے دور ہے جب تک اسے صرف کانسٹیبل خالد جاوید کے نوحے تک محدود رکھا جائے، اور یہ بھی میرا حسن ظن ہے، انجانے میں سرخ لکیر میں نے اب بھی عبور کی ہے، لیکن اس طرح جیسے فاسٹ بولر غلطی سے نو بال پھینک دیتا ہے یا جیسے کبڈی میں کھلاڑی اپنے مخالف کو ہاتھ لگا کر فوراً واپس بھاگ جاتا ہے۔ اس موضوع کی پڑتال کرنے کی مجھے اجازت نہیں، ذہن میں کلبلاتے ہوئے مختلف سوال اٹھانے کا حوصلہ نہیں اور یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کہ کانسٹیبل خالد جاوید بھی کلمہ گو مسلمان تھا تو پھر۔ ۔ ۔ خیر چھوڑیں۔

اسی طرح کچھ موضوعات ایسے ہیں جن پر کم ازکم مین سٹریم اخبارات میں اشارتاً بھی بات نہیں کی جا سکتی۔ فقط سوشل میڈیا پر کچھ مجاہدین ان موضوعات پر بات کرتے ہیں مگر ان میں سے بھی زیادہ تر بیرون ملک مقیم ہیں جہاں سے بیٹھ کروہ ٹویٹس کرتے ہیں۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اپنی انہی حرکتوں کی وجہ سے وہ ملک بدر ہوئے ہیں۔ یہ وہ موضوعات ہیں جنہیں حساس کہا جاتا ہے اور قومی سلامتی کے با رعب لفظ کے ساتھ نتھی کر کے نہایت آسانی کے ساتھ سرخ لکیر والی حدود میں رکھ دیا جاتا ہے تاکہ کوئی ان پر بات کرنے کا خیال دل میں نہ لا سکے۔ یہ موضوعات عرصہ دراز سے ہماری پہنچ سے باہر ہیں اس لیے ہم ان پر بات نہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔

مصیبت مگر یہ ہے کہ پہلے سرخ لکیر والے معاملات کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہوتا تھا کہ کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور کہاں ختم ہوتے ہیں مگر اب تو یوں لگتا ہے جیسے بلوچستان اور لاپتا افراد کی ترکیب ایک ساتھ استعمال کرنا بھی ملکی مفاد کے خلاف ہے۔ اسی طرح ایک زمانے میں یار لوگوں نے اپنی بات سمجھانے کے لیے انگریزی کی ایک اصطلاح رکھی ہوئی تھی مگر اب وہ اصطلاح استعمال نہیں کی جاتی بلکہ اب ’ادارے‘ کا لفظ کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ادارے سے مراد واٹر اینڈ سینی ٹیشن کا ادارہ ہے۔

کچھ لوگ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ آپ نے ضرور ان موضوعات پر لکھنا ہے جن پر سرخ لکیر کھنچی ہے، دنیا جہان کے مسائل ہیں پاکستان میں، آپ ان پر کیوں نہیں لکھتے۔ اس پر میں سوچتا ہوں کہ وہ دنیا جہان کے مسائل کیا ہیں۔ اور جب ان مسائل کا ’کھرا‘ تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو سرخ لکیر عبور کر بیٹھتا ہوں۔ میری ایک خیر خواہ خاتون نے، جنہیں میں اپنی بڑی بہنوں کی طرح سمجھتا ہوں، مجھے سمجھایا ہے کہ میں کیوں لبرل ازم کا جھنڈا اٹھائے پھرتا ہوں، کیا ضرورت ہے ایسے مسائل پر لکھنے کی جو مذہبی طبقات پر تنقید کا سبب بنیں، بس سماجی مسائل پر لکھا کرو، وہ کافی ہیں۔

میں نے ان کے مشورے پر کافی غور کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ بالکل درست کہتی ہیں۔ سو، آئندہ میں سرخ تو کیا سفید لکیر سے بھی پرے رہوں گا اور کسی ایسے موضوع پر نہیں لکھوں گا جو اشارتاً بھی شرارتی نوعیت کاہو۔ نو غریب پولیس والے مرتے ہیں تو مرتے رہیں، لا پتا افراد نہیں ملتے تو نہ ملیں، شدت پسندوں سے مذاکرات ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں۔ مجھے کیا۔ میں نے مستقبل کے لیے موضوعات کی ایک فہرست بنا لی ہے، آپ بھی دیکھیں اور مشورہ دیں کہ اس قسم کے مزید کیا موضوعات ہو سکتے ہیں : ’سردیوں میں پہلے سویٹر کون پہنے گا۔ نارتھ ناظم آباد میں گندگی کے ڈھیر۔ بھینسیں جگالی کیوں کرتی ہیں۔ مائی بیسٹ فرینڈ۔ پاکستان بمقابلہ بنگلہ دیش (صرف کرکٹ میچ کی حد تک) ۔ وغیرہ وغیرہ۔‘

ہو سکتا ہے کہ آپ احباب کہیں کہ میں کچھ زیادہ ہی احتیاط سے کام لے رہا ہوں، کیونکہ ایسے بھی لوگ ہیں جو ڈنکے کی چوٹ پر اپنی بات کرتے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے داد ’بھی‘ سمیٹتے ہیں۔ جی ہاں، میں بھی اسی راہ پر چلنے کا سوچ رہا ہوں، اس میں ستے ہی خیراں ہیں، نہ کسی سرخ لکیر کا خوف ہے اور نہ معاشرے کے دیگر طبقات کی نفرت ملتی ہے۔ کرنا صرف یہ ہے کہ طاقتور کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا ہے، اس کی ہر بات پر لبیک کہنا ہے، اس کی دی ہوئی لائن ’ٹو‘ کرنی ہے، اس کے بتائے ہوئے بیانیے کی ترویج کرنی ہے اور بس۔ پھر آپ کو لوگ بھی سر آنکھوں پر بٹھائیں گے اور موضوعات کی کمی بھی نہیں رہے گی۔ پھر جسے چاہو طاقتور کے کہنے پر لتاڑ دو، کھلی اجازت ہوگی۔ میں نے یہ راستہ اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ صبح کا بھولا ہوں، دوپہر کو ہی واپس آ گیا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments