جدوجہد کے بائیس سال


29 اکتوبر کو جدوجہد کے بائیس سال مکمل ہوئے۔ شادی شدہ زندگی ایک جہد مسلسل ہی تو ہے۔ اجنبی شخص، اجنبی ماحول، اجنبی عادات میں ڈھلتے، گرتے سنبھلتے، جیسے دلدل میں قدم جما کر آگے بڑھنا، جیسے طوفان باد و بہاراں میں نیا ہار لگانا، ہر دم نیا الٹنے کا دھڑکا، ہر دم ڈوبنے کا ڈر، کوئی آسان ہے سہاگن کا تاج سر پر سجائے رکھنا۔ شادی ایک شخص سے نہیں ایک کنبے سے ہوتی ہے۔ ایک مائنڈ سیٹ سے ہوتی ہے۔ چومکھی لڑنا ہوتی ہے۔

کبھی جھکنا کبھی جھکانا، کبھی انا کو دریا برد کر کے آگے بڑھنا کبھی اپنی شخصیت کا سانچہ ہی بدل دینا، کبھی اپنے نظریات کو لپیٹ کر گٹھڑی بنا کر کونے میں ڈال دینا۔ اڑان کے لئے ہوا کے تیور دیکھنا۔ اللہ کا شکر کہ ہوا کا چلن موافق ہوا اور پر پھیلا کر آسمان میں اڑنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر لبنی مرزا نے اپنے کالم میں معاف کرنے پر مباحثہ چھیڑا تھا۔ ہماری رائے میں معاف کرتے ہوئے یہ پیش نظر ہوتا ہے کہ معافی کا طلبگار کون ہے اور معافی طلب بھی کی ہے یا نہیں۔

معاف کرنے کے لئے جرات رندانہ چاہیے محبوب کو معاف کرنا تو پھر آسان ہے کہ محبت میں دل وسیع ہوتا ہے لیکن وہ جن سے نفرت ہو یا نفرت ہو نہ محبت، ان کی زیادتیوں کو معاف کرنے کے لئے حوصلہ چاہیے۔ تاہم بہت سی دھوپ چھاؤں دیکھنے کے بعد ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ ہر دو صورت میں معاف کرنے کا عمل خود معاف کرنے والے کے لئے سکون اور راحت کا باعث ہوتا ہے۔ کیونکہ تلخ احساسات زخم مندمل نہیں ہونے دیتے۔ ستم کی گھڑیوں کو بھلا دینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ بہت مشکل کام ہے کیونکہ تلخ یادیں کوئی سر پر رکھا ہوا ٹوکرا تو نہیں ہوتیں کہ اتار کر کہیں رکھ دیا جائے یہ تو سر کے اندر بلبلاتے سنپولیے ہوتے ہیں لیکن اکر ہم پولیانہ پرنسپل کے مطابق کوشش کریں تو تلخ یادوں کو پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔

اگرچہ ہم آزادی نسواں کے حامی ہیں لیکن ہر معاملے کو حقوق نسواں کے پیمانے سے نہیں ناپتے، مرد کو عدو نہیں جانتے، بنیادی حقوق سے کنارہ نہیں کرتے لیکن بلاوجہ کی مخاصمت سے پرہیز کرتے ہیں۔ تعلیم جاری رکھنے، اپنی مرضی سے جاب کرنے، حسب منشا سرگرمیوں میں حصہ لینے، من چاہا لباس پہننے اور دوست احباب سے روابط رکھنے کے اختیارات میں کمپرومائز نہیں کیا کچھ پابندیاں برداشت کرنا پڑیں پر حقیقت میں شادی کے بعد کچھ آزادیاں تو مردوں کی بھی سلب ہوتی ہیں۔

رات کو دیر سے آنے پر قدغن تو ہم نے بھی لگائی۔ مہ جبینوں سے لو لگاتے دیکھ کر تماشا تو ہم نے بھی خوب کیا۔ ہماری جان جلائی تو ہم بھی ان کی جان کو آ گئے۔ حق تو یہ ہے کہ صاحب نے کبھی ہم پر پہرے نہ بٹھائے ہم ہی ان پر عقاب کی نگہ رکھتے رہے اور جب انہوں نے جتایا تو کہہ دیا کہ آپ کاہے کو چوکیدارہ کریں گے اپ کو معلوم ہے آپ کا کھونٹا مضبوط ہے۔ کہنے لگے بڑی شاعری کرتی پھرتی ہو وہ شعر نہیں سنا

وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی

ہم۔ نے کہا وہ پروین شاکر کا ظرف تھا ہم تو ایسے ہرجائی کی ٹانگیں توڑ دیں۔ مرد کو کھونٹے سے باندھنے کے لئے جتن تو کرنے پڑتے ہیں۔

ہمارے اور ان کے مشاغل میں زمانے کا بعد تھا۔ صاحب کو کرکٹ کا جنون کی حد تک شوق اور ہمیں کرکٹ اور کرکٹر سے اتنی ہی منافرت۔ کالج کے زمانے میں جب سہیلیاں عمران خان اور جاوید میانداد کی شیدائی تھیں تو ہم اصلاح الدین اور سمیع اللہ کے کھیل کے شائق تھے۔ کرکٹ اور ہاکی کے شائقین میں ایک نمایاں فرق ہے۔ ہاکی کے شائقین کھلاڑی کا کھیل پسند کرتے ہیں جبکہ کرکٹ کے معتقدین کھیل سے بھی بڑھ کر کھلاڑی کے دیوانے ہوتے ہیں۔ ہماری ایک کلاس فیلو عمران خان سے شادی کی خواہشمند تھیں پھر نہ جانے کیا ہوا ان کو میلکم مارشل جیسے چہرے مہرے اور ڈیل ڈول والے سے محبت ہو گئی اور وہ اسٹوڈنٹ لائف میں ہی ان کو پیاری ہو گئیں۔

شادی کے بعد ہم نے میاں جی کا کرکٹ سے لگاؤ دیکھا تو سوچا ہم آہنگی کے لئے کرکٹ سے شغف پیدا کیا جائے۔ ان کے ساتھ میچ دیکھنے بیٹھتے تو ہزار سوال کرتے۔ لمبی چھوٹی ٹانگ ( لانگ لیگ شارٹ لیگ) کیا ہے، وائیڈ بال کیا ہوتی ہے، گیند کو نامناسب مقام پر مسلنے کے پیچھے کیا بھید ہے وغیرہ وغیرہ۔ آخر انہوں نے ہاتھ جوڑ دیے کہنے لگے ایسی ہم آہنگی سے بھر پائے ہم۔ ہم نے بھی رجعت میں عافیت جانی بس جب چھت شگاف نعرہ سنائی دیتا تو اکر جھانک لیتے یا جیت کے حتمی اعلان ہر خوشی منانے میں شریک ہو جاتے۔

شادی کے بعد آنکھوں سے دل کا راستہ تو بند ہوجاتا ہے بس معدے کا پچھلا دروازہ ہی دل تک پہنچنے کے لئے استعمال کرنا پڑتا ہے لیکن اس میں بھی خاتون خانہ کو سننا پڑتا ہے ”امی کے ہاتھ جیسا نہیں“ ، لیکن ہم نے اسے انا کا مسئلہ نہیں بنایا نہ ہی اسے پدر سری معاشرے کا شاخسانہ سمجھا بلکہ یہ جانا کہ بچپن سے جس ذائقے کو برتا ہے اسی کی عادت ہے۔ اس لئے کوشش کی کہ اسی طرح بنا سکوں جیسے وہ بناتی ہیں میکے میں عید کی صبح نماز پر جانے سے پہلے تازہ اور گرم شیر خرمہ اور پوری سے ناشتہ کیا جاتا تھا۔

سسرال میں ایک دن پہلے ہی بنا کر فرج میں رکھ دیا جاتا تھا۔ میکے میں شیر خرمہ گاڑھا بنتا تھا سسرال میں پتلا حریرے کی مانند، پیالی سے منہ لگا کر پی لیا جائے۔ نند کا کہنا تھا شیر اور کھیر میں فرق تو ہونا چاہیے۔ بہرحال وقت کے ساتھ نند اپنے گھر سدھاریں اور اماں سورگ باش تو ہمارے ہاتھ کے ذائقے کے عادی ہو ہی گئے۔ پر کھانے کی تعریف نہیں کرتے کیونکہ یہ تو قانون قدرت ہے کہ گھر والی کے کھانے کی تعریف کرنے سے گلابی طوفان آ جاتا ہے۔

اگر پوچھو کیسا بنا ہے تو فرماتے ہیں ”دوبارہ لیا ہے اس کا مطلب ہے اچھا بنا ہے“ ۔ ہماری سہیلیاں ان کے پھیلتے جثے کو دیکھ کر کہتی ہیں نہ بنایا کرو ایسے مزیدار کھانے کہ دوبارہ، سہ بارہ لیں۔ تاہم فربہی میں آج کے دور کی آرام طلبی کا بھی دخل ہے۔ وزن و حجم بڑھتا دیکھ کر اپنی ڈاکٹری جتاتے رہے ذیابیطس اور دل کے دورے سے ڈراتے رہے لیکن مجال ہے مرد مومن کے پائے استقامت میں لرزش بھی آئی ہو۔ ہم تو سگریٹ نوشی بھی نہ چھڑا سکے۔ جب ہم نے میاں جی سے کہا ”تف ہے ہم پر، ہم سے اچھی تو ہماری درزن رہی جس نے سگریٹ پر پابندی لگائی تو میاں کی مجال نہیں تھی کہ گھر میں دھواں اڑا سکیں۔“

تو کہنے لگے ”اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ سگریٹ سے تائب ہو گیا ہے وہ صرف گھر میں نہیں پیتا۔“

اب جب سال بھر سے ٹانگوں کے پٹھوں میں کھنچاؤ کی شکایت کرتے ہیں تو ہم جانتے ہیں یہ سگریٹ نوشی اور فربہی کا شاخسانہ ہے جس سے خون کی نالیاں تنگ ہوجاتی ہیں اور پٹھوں کو خون کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔ اسے انٹرمٹنت کلاڈیکیشن کہتے ہیں۔ انہیں سمجھاتے ہیں اب بھی ہوش کے ناخن لیں۔ اللہ انہیں صحتمند رکھے عمر دراز عطا فرمائے امین۔ شادی کی ڈائمنڈ جوبلی پر ڈائمنڈ کا سیٹ دینے کا وعدہ کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments