طالبان کا افغانستان ( 1 )


افغانستان جو جنوبی ایشیاء اور وسطی ایشیاء کے بیچ میں گھرا ہو ایک ملک ہے یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کی یہ جنوبی ایشیاء اور وسطی ایشیاء کو آپس میں ملانے ولا ملک ہے جس کی سرحد مشرق اور جنوب میں پاکستان سے ملتی ہے جبکہ اس کی مغرب سرحد ایران سے اور شمالی سرحد ترکمانستان اور ازبکستان سے ملتی ہے اور شمال مشرقی سرحد تاجکستان اور چین سے ملتی ہے۔ افغانستان کو کہیں سے بھی سمندر نہیں ملتا اس لیے غیر ملکی تجارت پاکستان سے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت ہوتی ہے۔

652,864 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہو یہ ایک ملک ہے جہاں لسانی طور پر پٹھان، تاجک، ہزارہ اور ازبک النسل کے لوگ رہتے ہیں۔ پشتو اور فارسی یہاں پر بولی جانے والی بڑی زبانیں ہیں اور سرکاری طور پر کابل یہاں کا دارالحکومت ہے اور کابل، قندھار، ہرات، مزار شریف اور غزنی یہاں کے بڑے شہر ہیں جو کہ اپنے دیگر ہمسایہ ممالک کے بڑے شہروں کے برعکس چھوٹے اور سہولیات اور انتظام کے لحاظ سے پسماندہ ہیں۔ 2020 ء کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی تقریباً تین کروڑ چودہ لاکھ ہے۔

تاریخی طور پر سکندر اعظم، میموری، عرب، منگول، برطانوی، سوویت نیز امریکیوں اور اس کے اتحادیوں نے یہاں پر حکومت کی لیکن کسی کے بھی پیر یہاں پر جم نہیں سکے۔ اسی طرح یہاں کے حاکموں نے ہندوستان وغیرہ میں کافی حملے کیے لیکن مستقل طور پر وہاں آباد نہیں ہوئے بلکہ لوٹ مار کر کے واپس چلے جاتے تھے۔ ہندوستان میں کمیونسٹ انقلاب کے خطرہ کے باعث انگریزوں نے بفر اسٹیٹ کے طور پر اس جگہ کو استعمال کیا۔ 1919 ء کی تیسری اینگلو افغان جنگ میں یہ ملک غیر ملکی تسلط سے آزاد ہوا اور جون 1926 ء میں امان اللہ نے سلطنت افغانستان کا اعلان کیا اور یہ سلطنت آخر کار بادشاہ ظاہر شاہ کی حکومت الٹنے کے ساتھ ختم ہو گئی اور 1973 ء میں افغانستان کو جمہوریہ بنانے کا اعلان کیا گیا۔

1978 ء میں بغاوت کے ذریعہ حکومت کو ختم کر کے سوشلسٹ حکومت کا اعلان کیا گیا اور سوویت یونین کو امداد کی درخواست کی گئی کہ وہ آ کر افغانستان میں سوشلسٹ اسٹرکچر بنانے میں افغان حکومت کی مدد کریں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ نے اپنے اتحادی پاکستان کی مدد سے افغانستان میں مجاہدین کے نام سے وہاں کے قبائلیوں کو اسلحہ اور ڈالر دے کر ان کو بظاہر اسلام کے نام پر اور سوویت یونین کی جارحیت کے خلاف جنگ پر اکسایا بلکہ دنیا بھر سے اسلام کے نام پر لوگوں کو افغانستان میں جہاد کے نام پر بھیجا گیا یہ امریکہ کی افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف پراکسی جنگ تھی۔

تقریباً دس برس کی یہ جنگ آخر کار سویت یونین کے انخلاء پر ختم ہوئی۔ اس کے کچھ عرصے بعد افغان مجاہدین کی باہمی چپقلش شروع ہوئی اور وہ آپس میں برسرپیکار ہو گئے جس کے نتیجہ میں ملک انتشار اور خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ اس تمام عرصے میں افغان لوگ گولہ بارود سے تنگ آ کر ایران اور پاکستان میں آ کر پناہ گزین ہوتے رہے۔ پاکستان نے بالخصوص ان سب کو اپنے ملک میں پناہ دی اور دنیا بھر سے ان کے نام پر خوب مالی امداد حاصل بھی کی اور سوویت یونین کے خلاف امریکہ کے اتحادی کے طور پر خوب پراپیگنڈہ بھی کیا۔

مجاہدین کو اسلحہ کی سپلائی پاکستان سے ہوتی تھی اس لئے خود پاکستان میں ناجائز اسلحہ کی بھرمار بھی ہوئی اور افغانستان میں ہیروئن کی بھرپور کاشت کی وجہ سے پاکستان اس کی اسمگلنگ میں سرفہرست ہوا اور جب اس ناجائز کاروبار کا پیسہ پاکستان کی معیشت میں شامل ہوا تو اس نے تو نہ صرف معیشت کے بخیے ادھیڑ دیے بلکہ پاکستانی معاشرے کے صدیوں پرانے سماجی تانے بانے کو بھی ادھیڑ کر رکھ دیا۔

بہرحال جب افغانستان میں طوائف الملوکی کا دور شروع ہوا تو پاکستان کے اکوڑہ خٹک اور دیگر مدرسوں کے پٹھان طلباء جو ایک مخصوص مذہبی فرقے سے تعلق رکھتے تھے وہ ان باہم لڑتی ہوئی افغان قوتیں جو اب اس لڑائی سے کافی کمزور ہو گئیں تھیں ان کے خلاف صف آراء ہوئے اور ان کو شکست دے کر تقریباً 80 فیصد افغانستان پر اپنا قبضہ قائم کر لیا اور جو کچھ انہوں نے مدرسوں میں پڑھا تھا اور جس قبائلی ماحول میں وہ پروان چڑھے تھے اس کو اسلام کے نام پر وہاں نافذ کر دیا۔

جس میں اسلامی سزاؤں کو شریعت کے طور پر انتہائی بھیانک انداز میں لاگو کیا گیا اور دیگر فرقوں سے کافر کے طور پر پیش آنے کے علاوہ عورتوں کی تعلیم کو خلاف شرع قرار دے کر گھروں میں قید کر دیا گیا اور حد تو یہ ہے کہ حجاموں پر پابندی لگادی گئی کہ وہ لوگوں کی شیو نہیں کر سکتے یہ بھی تعزیری جرم قرار دیا گیا اور ان سب کے خلاف آواز اٹھانے والے کو تو کافر اور واجب القتل قرار دیا گیا۔ اس سب سے گھبرا کر اور خوف زدہ ہو کر وہاں کے پرامن شہری پھر دیگر ممالک میں ہجرت پر مجبور ہوئے۔

9/ 11 کے واقع کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو گئے۔ امریکہ نے اس واقع کے ملزم کے طور پر اسامہ بن لادن کو گرفتاری کے لیے طلب کیا جس کو ماننے سے طالبان نے انکار کیا اور یہاں سے افغانستان کے ایک اور سیاہ باب کا اضافہ ہوا۔ امریکہ نے اپنے اتحادی نیٹو ممالک کے ساتھ حملہ آور ہوا اور اب طالبان پہاڑوں میں چھپ گئے جہاں پر بہت بڑے پیمانے پر انتہائی خطرناک کلسٹر بم اور دیگر کیمیکل بم پھینکے گئے۔ یاد رہے جب افغان حکومت کی درخواست پر روس آیا تھا تو مجاہدین پہاڑوں پر تھے اور حکومتی ارکان اپنے روسی ساتھیوں کے ساتھ شہروں میں تھے پھر جب طالبان آئے تو شمالی اتحاد کے مجاہدین پہاڑوں پر تھے اور شہروں میں طالبانی راج تھا۔ اب طالبان پہاڑوں پر تھے اور مجاہدین اور ان کے امریکی حواری شہروں میں تھے۔

امریکہ نے وہاں پر تقریباً 20 سال قیام کیا جبکہ کابل سمیت چند بڑے شہروں کی حد تو انتہائی ترقی یافتہ اور حساس سیکیورٹی کے ساتھ اور اپنی جدید ترین فوج اور ہتھیاروں کے ساتھ تو امریکہ نے اپنے آپ کو محفوظ بنا لیا لیکن یہاں ایک بات انتہائی غور طلب ہے اور وہ یہ کہ افغانستان صرف چند ایک شہروں کا نام نہیں ہے بلکہ یہاں کی ایک بہت کثیر آبادی شہروں سے دور ایک انتہائی پسماندہ قبائلی ماحول میں رہتی ہے۔ افغانستان میں جب بھی کبھی سوشلسٹ تبدیلی کی کوششیں ہوئیں وہ تمام کی تمام جس کو کہتے ہیں ناں کہ بزور شمشیر ہوئیں اور اس کو وہاں کے عوام پر تھوپا گیا۔

یہ کوششیں مارکس ازم سے قطعی مختلف تھیں جو تمام محنت کش عوام کو ساتھ ملا کر ان کی مرضی سے سوشلسٹ انقلاب لاتا ہے اور یہی حرکتیں وہاں ہر کسی نے کیں چاہے وہ سوشلسٹ ہوں یا غیر سوشلسٹ ہوں۔ ظاہر شاہ کے دور میں عورتوں اور مردوں کی کابل میں پتلونیں پہن کر آزادانہ پھرتے ہوئے تصاویر سوشل میڈیا پر جب ہمارے لبرل حضرات پوسٹ کرتے ہیں تو بڑی حسرت سے لکھتے ہیں کہ کبھی افغانستان اتنا ماڈرن تھا تو وہ دراصل ماڈرن ازم اور مغربیت کے مفہوم کو آپس میں گڈمڈ کر دیتے ہیں۔

مغربیت کا تعلق محض مغرب کی ثقافت اور کلچر کی اندھا دھند تقلید کا نام ہے جبکہ ماڈرن ازم اس سوچ کا نام ہے جس کو استعمال کر کے مادی طور پر معاشرے کے افراد کو بہتر زندگی اور خوشحالی کے لئے استعمال کیا جا سکے اور یہ کام وہاں پر کسی نے بھی نہیں کیا۔ کابل و دیگر شہروں کی زندگی اور وہاں کے دیہات کی زندگی میں ایک بہت واضح فرق تھا جس سے دیہات کے رہنے والے شدید محرومی کا شکار ہوئے اور یہ ویسے بھی ایک سرمایہ دار اور آزاد معیشت کا اور بالخصوص جب وہ خود سے ارتقاء پذیر نہیں ہوا ہو بلکہ جب اسے کسی معاشرے یا ملک پر تھوپا یا نافذ کیا جائے تو یہی ہوتا ہے اور اس کا ہم تیسری دنیا میں خاص طور پر مشاہدہ کر سکتے ہیں اور یہی سب کچھ امریکہ نے بھی کیا اس تمام عرصے میں اس نے اپنے عالمگیری سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کو بھی وہاں کے عوام پر نافذ کیا۔

پہلے حامد کرزئی اور پھر اشرف غنی کی جمہوری حکومتیں اور پھر وہاں کا انتظامی ڈھانچہ بھی اسی طور پر تشکیل دیا گیا جس میں عوام کی کوئی منشاء شامل ہی نہیں تھی بلکہ وہ وہاں کی اشرافیہ کی طرف سے نافذ کی گئی۔ ان نام نہاد جمہوری حکومتوں نے صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی خدمت کی یا پھر مال مفت دل بے رحم کے اصول پر کاربند ہوتے ہوئے خوب خوب کرپشن کی اور رشوت اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا ان کی دیکھا دیکھی نچلے انتظامی اہلکاروں نے بھی یہی راہ اپنائی جس سے لوگ اس نظام سے شدید متنفر ہو گئے اور طالبان کا تو تعلق ہی محروم علاقوں سے تھا اس لئے انہوں نے ان محروم طبقات کو اپنے تشریح کردہ اسلام کے نام پر ساتھ ملایا۔ اس تمام عرصے میں طالبان اور نیٹو فورسز کے حملے ایک دوسرے پر جاری رہے لیکن طالبان شہروں پر قابض نہیں ہو سکے۔

اس تمام عرصے میں دنیا بھر میں سرمایہ داریت عالمگیر طور پر شدید بحران کا شکار ہو گئی۔ بہت سے ممالک شدید مالی بحران میں پھنس گئے ان حالات میں کچھ نئی طاقتوں نے سر اٹھانے شروع کر دیے جن میں چین اور روس بھی شامل تھے۔ اپنی اس کامیاب افغان پالیسی سے متاثر ہو کر امریکہ نے پہلے عراق پر کیمیائی ہتھیاروں کو بنانے کا الزام لگا کر وہاں پر صدام حکومت جس کی امریکہ سے ان بن ہو گئی تھی نہ صرف اس کی حکومت کا خاتمہ کیا بلکہ عراق کو تاراج بھی کیا اور وہاں کی عوام کے لیے سانس لینا بھی دوبھر ہو گیا پھر اسی طرح کی کارروائی لیبیا میں کی گئی اور قذافی کی موت کے بعد ملک میں وار لارڈز کی حکمرانی ہوئی جنہوں نے آپس کی خانہ جنگی سے وہاں کے عوام کو برباد کر دیا اس کے بعد شام لیکن وہاں بھی شاید بشرالاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو جاتا لیکن روس نے بشر حکومت کا ساتھ دیا اور اس میں شام کے شہر کے شہر کھنڈر ہو گئے (گو کے شام کے حالات عراق اور لیبیا سے بہت مختلف تھے جن پر تفصیل سے پھر کسی مضمون میں بات ہو گی) اور لوگوں کے پاس ماسوائے ہجرت کے اور کوئی صورت ہی نہیں رہ گئی تھی۔

اس وسیع پیمانے پر تباہی کے بعد جب لوگ ترکی اور یورپ پہنچے تو ایک قطعی مختلف ماحول اور کلچر سے یورپین لوگوں میں شدید بے چینی پھیلی جو ایک نسلی اور مذہبی ٹکراؤ کی صورت اختیار کر گئی اور اتنے وسیع پیمانے پر مہاجرین کی آمد خود ان ممالک کے اوپر ایک شدید مالی بوجھ بن گئی۔ ایک تو پہلے ہی سرمایہ داری کا بحران اور اب مہاجرین کی آمد گو کہ اس کی وجہ ان ممالک کے توسیع عزائم تھے جس سے تباہ حال ممالک کے لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے لیکن اب ان ممالک پر تین طرح کے شدید مالی بوجھ پڑ گئے ایک سرمایہ داری کے بحران کا مالی دباؤ دوسرا جنگوں اور فوج کی تعیناتی کا خرچ اور اب یہ مہاجرین کی آمد کے ساتھ پھر مالیاتی دباؤ۔ ان سب سے بچنے کے لیے ان ممالک اور امریکہ نے افغانستان سے مکمل فوجی انخلاء کا ارادہ کر لیا۔

اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قطر کے شہر دوحہ میں طالبان کے ساتھ طویل مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جس میں زلمے خلیل زاد نے امریکہ کی طرف سے مذاکراتی ٹیم کے ساتھ حصہ لیا ان مذاکرات میں ایک سال سے بھی زیادہ کا وقت گزرا اور آخر کار مذاکرات فیصلہ کن ہو گئے کہ امریکہ 31 اگست 2021 ء تک افغانستان سے اپنی فوجیں مکمل طور پر نکال لے گا۔ اس دوران الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ ہار گئے لیکن نئے آنے والے صدر جو بائیڈن نے پچھلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بہت سے کیے گئے فیصلوں کو یکسر تبدیل کیا لیکن انہوں نے بھی افغانستان سے فوجوں کے واپس بلانے کے فیصلے کو جوں کا توں ہی برقرار رکھا۔

اس تمام وقت میں اور امریکی افواج کے مکمل انخلاء تک ایک بات قابل غور ہے اور وہ یہ کہ دوحہ کانفرنس سے لے کر مکمل فوجی انخلاء تک کے تمام وقت میں ایک گولی بھی امریکی افواج کی طالبان کے خلاف نہیں چلی اور نہ ہی طالبان کی ایک گولی امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف چلی جب کہ اشرف غنی کی حکومت کے خلاف اور افغانستان میں خودکش حملے اور بم دھماکے ہوتے رہے لیکن نیٹو افواج ان سب سے محفوظ رہیں۔ جوں جوں انخلاء کی تاریخ قریب آتی گئی طالبان کا حکومت پر دباؤ بڑھنے لگا اور انہوں نے ایک کے بعد ایک علاقہ اپنے قبضے میں کرنا شروع کر دیا اور وہاں سے ان کو کسی بھی قسم کی کوئی قابل ذکر مزاحمت نہیں ملی جبکہ امریکہ کا یہ کہنا تھا کہ طالبان کو افغانستان میں مکمل قبضے کے لئے کم از کم چھ ماہ لگیں گے لیکن پچھلے بیس برس سے تیار ہونے والی افغان فوج ہلکی سی مزاحمت بھی نہیں دے سکی اور اس سلسلے میں افغان فوج کے اس وقت کے جنرل کا بیان بھی بہت اہم ہے جس میں انہوں نے امریکی فوج اور امریکی حکومت کو بہت رگیدا کہ انہوں نے ہر قسم کا تعاون، لاجسٹک سپورٹ اور سپلائی مکمل طور پر بند کر دی اس کے علاوہ انہوں نے کسی بھی قسم کی انٹیلی جنس کی خبریں بھی دینی بند کر دیں یعنی وہ کیہہ رہے ہیں کہ امریکی افواج درپردہ طالبان کو سپورٹ کر رہے تھے خیر اس کے علاوہ انہوں نے ملکی داخلی صورتحال کے متعلق بھی بہت کچھ کہا کہ ملک کے اندر پھیلی ہوئی کرپشن میں افغان فوج بھی ملوث تھی۔

بہرحال 31 اگست سے پہلے ہی طالبان کابل میں ایک گولی چلائے بغیر داخل ہو گئے۔ اشرف غنی ملک سے فرار ہو گئے جبکہ حامد کرزئی اور دیگر راہنماء ملک کے اندر ہی رہے اب ما سوائے پنج شیر وادی کے پورا افغانستان طالبان کے کنٹرول میں تھا اس وادی پر بھی بعد میں انہوں نے قبضہ کر لیا۔

31 اگست سے چند دن پہلے ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ائرپورٹ پر فوجوں کے انخلاء کا جہاز اڑنے لگا تو بہت سے افغان شہری طالبان کے خوف سے جہاز کو چمٹ گئے اور جب جہاز اڑا تو وہ گر کر دم توڑ گئے۔ اس ویڈیو سے تو پوری دنیا اور خود امریکہ میں شدید ردعمل آیا جس سے امریکی حکومت بہت دباؤ میں آئی اور بائیڈن حکومت نے امریکہ میں اپنی مقبولیت بری طرح سے کھوئی اور خود جو بائیڈن نے اپنی تقریر میں افغان حکومت اور فوج کو اس کا ذمہ دار قرار دیا کہ وہ اپنے لوگوں کی حفاظت نہیں کر سکے جس کے جواب میں افغان جنرل جس کا اوپر تذکرہ آ چکا ہے اس نے کھل کر بیان دیا۔

طالبان کی کامیابی کے اسباب: اگر ہم اس تمام واقعے کا ایک غیر جانب دار تجزیہ کریں تو ہمیں بہت سے پہلووں کو مدنظر رکھنا پڑے گا۔ سب سے پہلے تو ہمیں آبادی کے لحاظ سے دیکھنا پڑے گا کہ ماسوائے چند پانچ شہروں کے اور وہاں بھی کابل اور قندھار کے باقی شہروں میں انتہائی ناکافی شہری سہولیات ہیں اور اس کے علاوہ عوام کی ایک بڑی تعداد شہروں سے دور گاؤں میں آباد ہے جو وقت کی رفتار سے بہت پچھڑے ہوئے لوگ ہیں جہاں تعلیم، صحت اور روزگار کی کسی بھی قسم کی کوئی سہولیات نہیں ہیں اور اس خلاء کو وہاں کے ملاء پورا کرتے ہیں۔

اکثر سوشل میڈیا میں ظاہر شاہ دور کی تصاویر اپ لوڈ پوتی ہیں جس میں کابل میں خواتین مغربی لباس میں نظر آتی ہیں۔ یہ تصاویر دیکھ کر ہمارے لبرل حضرات سر دھنتے ہیں کہ افغانستان اس دور میں کتنا ماڈرن تھا۔ درحقیقت یہ لبرل لوگ ماڈرن ازم اور مغربیت کی نقالی میں فرق ہی نہیں کر سکتے۔ ماڈرن ازم کا تعلق سوچ سے ہے کہ وہ کتنی جدید اور حقیقی مادی نقطہ نظر سے سوچنے کی کتنی صلاحیت رکھتی ہے اس کا کوئی تعلق لباس، کھانے پینے یا رہن سہن سے نہیں ہے۔

ماڈرن یا جدیدیت پورے معاشرے کو بلند کرتی ہے اور یہ مکمل پردے اور شلوار قمیض کے ساتھ پشاوری چپل پہن کر بھی ہو سکتی ہے جبکہ مغربیت صرف کپڑوں اور رہن سہن تک ہی محدود ہوتی ہے بلکہ یہ مغرب کی نقالی کرنے والے تو باقی معاشرے سے کٹ کر رہ جاتے ہیں اور پورے معاشرے سے بیگانگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کبھی آپ خود اس بات کا مشاہدہ کر کے دیکھ لیں کہ یہ اپنے طبقے کے علاوہ باقی سب کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں اور خود کو عقل کل اس سے معاشرے میں ایک تو طبقاتیت پھیلتی ہے اور دوسرا اس سے معاشرے میں محرومیت اور نفرت پروان چڑھتی ہے اور حکومت با اختیار ہوتے ہوئے بھی عام آدمی کی چونکہ مشکلات سے لاتعلق ہوتی ہے اور ان کو جاہل اور گھٹیا تصور کرتے اس لیے یہ ان کے لئے تو کچھ بھی نہیں کر سکتے اور ان کا واحد کام صرف اپنی مادی ترقی ہی ہوتا جس سے ملک میں کرپشن کو فروغ ملتا ہے۔

یہ ان لبرل لوگوں کا سب سے بڑا المیہ ہوتا ہے اور اسی ضمن میں اب جبکہ افغانستان سے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ملک سے باہر جا چکی ہے تو ہمارے لبرل حضرات یہاں بھی بہت افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ اب ملک کو کون چلائے گا۔ پہلے تو ایک بات کہ میں یہاں تعلیم کی مخالفت نہیں کر رہا بلکہ جس کا ابھی اوپر ذکر کیا گیا ہے اس کا اظہار کر رہا ہوں اور وہ یہ کہ ان نام نہاد ڈگری ہولڈر حضرات جو آ کر ملک کو چلانے کے دعویدار تھے انہوں نے اس اعلی پیمانے پر کرپشن کی کہ عام آدمی کی شنوائی ہی نہیں رہی اور ان لوگوں کے ہی وہ وائیٹ کالر کرائمز تھے جس نے معاشرے میں اتنی بیزاری پھیلائی کہ طالبان کو پھر پورے ملک میں کوئی مزاحمت ہی نہیں ملی۔

اب یہی مسئلہ یہاں کے سوشلسٹوں کے ساتھ رہا جو اسٹالن ازم کے زیر اثر رہے۔ جنہوں نے کبھی بھی وہاں کہ محنت کشوں کو متحرک نہیں کیا بلکہ ان کا تمام تر انحصار یہ رہا کہ بزور طاقت اقتدار میں آ کر سوشلزم لوگوں پر تھوپا جائے اور زبردستی نافذ کیا جائے۔ اس سے افغانستان کے دور افتادہ علاقوں میں رہنے والا افغان بالکل کٹ جاتا تھا اور محض شہروں پر قبضہ کر کے حکومت بنانے کا نام ہی سوشلسٹ افغانستان سمجھا گیا۔ اب یہ مسئلہ طالبان کے ساتھ نہیں تھا۔

غربت کی وجہ سے افغانستان کے دورافتادہ علاقوں کے لوگ اپنے بچوں کو مدرسوں میں بھیجتے ہیں تاکہ ان کی رہائش اور خوراک کا انتظام ہو سکے اور اس کے ساتھ ان کو اس بات کا بھی اطمینان رہتا ہے کہ اس طرح وہ پکے مسلمان بھی بن جائیں گے اور کم از کم مرنے کے بعد تو ان کی زندگی اچھی گزرے گی۔ ان مدرسوں نے ہی جہادی مسلمان پیدا کیے جو ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی ملک کی مالی مدد سے ہی ممکن تھا اور پھر انہوں نے اسلام کے نام پر ان کے مفادات پورے کیے ۔

یہاں یہ سب کہنے کا مقصد ہے کہ افغان قوم کی پس ماندہ پرتیں تو اسلام اور جہاد کے نام پر آپس میں جڑیں جبکہ اس معاملے میں لبرل اور اسٹالنسٹ جو اپنے آپ کو سرمایہ دار اور سوشلسٹ کہتے ہیں مکمل طور پر ناکام رہے بلکہ عوام میں جا کر وہاں کے محنت کشوں میں کام کرنا ان کا مطمح نظر بالکل بھی نہیں تھا جس سے افغانستان میں طالبان کا راستہ ہموار ہوا۔ یہی مسئلہ یہاں کے قوم پرستوں کا رہا جن کا تمام تر موقف اس بات کے ارد گرد گھومتا تھا کہ یہ غیر قوم کے لوگ ہیں جو ہم پر مسلط ہیں اگر یہ چلے جائیں تو ہم ایک قوم کے لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھتے ہوئے اچھے طریقے سے رہ سکیں گے لیکن جب طالبان جو کہ باقی پشتونوں کی طرح کے ہیں لیکن جب وہ اقتدار میں آئے تو پشتون ہی ملک چھوڑ کر بھاگے اور ان سب کی امیدیں پنج شیر وادی میں احمد شاہ مسعود کے بیٹے سے وابستہ ہو گئیں جو کہ تاجک النسل تھے۔ انہوں نے بھی عوام کے مسائل کو پہچاننے کی کوئی کوشش نہیں کی اور آزادی کے لئے صرف قوم کا نعرہ لگایا نہ کہ قوم کو آزادی کس بنیاد پر ہو نی چاہیے اس پر نہ تو کبھی کام اور نہ ہی اس پر سوچا جس کا بالآخر یہ نتیجہ نکلا۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments