عزم عشق اور محرومی کی لازوال داستان



ایک ایسا شخص جو سادہ اتنا ہے کہ کرسی پر بیٹھنے کا طریقہ نہیں آتا مگر دلیر اور بلند حوصلہ اتنا کہ بائیس سال تک پہاڑ توڑتا رہا اور بالآخر دور حاضر کے مجنوں، جدید دور کے فرہاد نے پہاڑ توڑ دیا اور راستہ بنا ڈالا۔

نام ہے دشرت مانجھی جن کو ”دی ماؤنٹین مین“ کہا جاتا ہے۔

دشرت مانجھی برٹش انڈیا میں گلہور کے مقام پر پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک نچلی ذات والے خاندان سے تھا جو وسائل کی قلت اور غربت کے وافر ہونے کے سبب چوہے مار کر کھاتا تھا۔ مانجھی کے والد نے گاؤں کے چوہدری کا قرضہ دینا تھا سو بیٹے کو گروی رکھوانے پہنچ گیا مگر مانجھی وہاں سے فرار ہوا اور کسی شہر میں پہنچ گیا۔ سات آٹھ سال شہر میں گزارنے کے بعد جب انڈیا میں ذات پات کی تفریق کے خلاف قانون پاس ہوا تو مانجھی واپس لوٹے لیکن ان کے گاؤں میں وہی ذات پات اور تفریق جاری تھی۔ بڑی ذات والے نیچی ذات والوں سے حقارت سے پیش آتے اور انتہائی ظلم و ستم روا رکھتے۔

دشرت مانجھی کی شادی بچپن میں ہی ایک ہم عمر لڑکی سے کر دی گئی تھی، شہر سے لوٹنے کے بعد مانجھی اپنی بیوی کو اپنے گھر لے گئے اور ساتھ رہنے لگے۔ مانجھی کے دو بچے ہوئے، پہلا بیٹا تھا جبکہ دوسری بیٹی۔ مانجھی مزدوری کی خاطر گھر سے دور، دوسرے گاؤں جاتے تھے جہاں جانے کے لیے ایک پہاڑ کو عبور کرنا پڑتا تھا۔ ان کی بیوی گربھ وتی (حاملہ) تھیں اور مانجھی کو روٹی دینے کے لیے دوسرے گاؤں جانے کو پہاڑ عبور کر رہی تھیں کہ پاؤں پھسلا اور پہاڑ سے نیچے گر گئیں۔ مانجھی نے ساتھیوں کی مدد سے بیوی کو ہسپتال تو پہنچایا مگر بہت دیر ہو چکی تھی سو بیٹی پیدا ہوئی، بچ گئی مگر دشرت مانجھی کی بیوی نہ بچ سکیں اور پھر یہیں سے دشرت مانجھی کی اس کہانی کا آغاز ہوا جس کو آج آپ پڑھ رہے ہیں۔

دشرت مانجھی نے سوچا کہ اگر اس کے گاؤں اور ہسپتال کے بیچ پہاڑ نہ ہوتا یا اگر پہاڑ کے بیچ راستہ ہوتا تو آج اس کی بیوی زندہ ہوتی سو اس نے پہاڑ توڑنا شروع کر دیا۔ بہت سی تکالیف، بہت سے مسائل سے لڑتے ہوئے، تنہائی کا کرب جھیلتے ہوئے، بہت سے دھوکے کھاتے ہوئے بالآخر مانجھی نے بائیس سال بعد پہاڑ توڑ کر اپنے گاؤں سے شہر تک راستہ بنا ڈالا۔ گو کہ بعد میں لوگ مانجھی کے ساتھ جڑتے گئے مگر کئی سال مانجھی نے اکیلے محنت کی حتی کہ تیرہ سو کلومیٹر کا پیدل راستہ طے کر کے دلی بھی پہنچے تا کہ سرکار سے سڑک بنانے کی خاطر فنڈز لے سکیں مگر بیہودہ سسٹم نے ان کو وزیر اعظم تک نہ جانے دیا۔

حالانکہ اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے گلہور کے جلسہ کے موقع پر دشرت مانجھی سے مختصر ملاقات بھی کی تھی اور اخبارات میں ایک تصویر بھی شائع ہوئی تھی جس میں دونوں ایک مجمع کے بیچ ساتھ کھڑے تھے۔

انہوں نے اپنی محنت اور عزم و ہمت کے بل پر پہاڑ چیر کر راستہ تو بنا دیا مگر ان کی حکومت کو پھر بھی کئی سال تک اس راستے پر پختہ سڑک بنانے کا خیال نہیں آیا۔

پہاڑ توڑنے کے آغاز کے باون سال بعد ، پہاڑ توڑ کر راستہ بنا لینے کے تیس سال بعد ، اور عزم و ہمت کے کوہ گراں دشرت مانجھی کی وفات کے چار سال بعد انڈین حکومت نے اسی جگہ سے جہاں مانجھی نے پہاڑ توڑ کر راستہ بنایا تھا، ایک سڑک بنا دی اور بورڈ لگا دیا گیا (دی ماؤنٹین مین ”) گویا اس دور حاضر کے فرہاد پر احسان کیا گیا ہو۔ حالانکہ دشرت مانجھی کا خاندان اس وقت بھی غربت و عسرت کی زندگی گزار رہا ہے، دشرت مانجھی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے خاندان کی امداد بھی کی جا سکتی تھی۔

بالی ووڈ نے اس موضوع پر فلم بھی بنائی ہے جس کا نام ”مانجھی، دی ماؤنٹین مین“ ہے۔ نواز الدین صدیقی دشرت مانجھی اور رادھیکا آ پٹے ان کی بیوی کے کردار میں دکھائی دیتی ہیں۔ ممکن ہے فلم میں کچھ فکشن بھی شامل کیا گیا ہو مگر مجموعی طور پر فلم کی کہانی حقیقت پر مبنی ہے۔

ہندوستان کی تقسیم کے بعد دو ملک وجود میں آئے، ایک انڈیا، ایک پاکستان۔ صدی ہونے کو ہے کہ ملک تو دونوں آزاد ہو گئے مگر ان ملکوں کے عوام آج بھی محکوم ہیں، غلام ہیں اور نجانے آنے والے وقتوں میں کب تک اسی طرح محکوم و غلام رہیں گے۔ ذات پات، چھوت چھات دونوں ملکوں میں ایسی طاقتور ہے کہ الامان و الحفیظ، سسٹم ایسا بے ایمان، ناکارہ، فرسودہ، بے حس، بے ضمیر ہے کہ دونوں ملکوں میں عام آدمی کو سکون کی زندگی تو کجا سکون کی موت بھی نصیب نہیں ہوتی۔ ذات پات، چھوت چھات کی ہی مہربانی ہے کہ امان اللہ جیسا لیجنڈری کامیڈین مرنے کے بعد تدفین کے مسئلے کا شکار ہو جاتا ہے جسے میراثی یا بھانڈ کہہ کر معززین اور مہذبین اپنے قبرستان میں دفن کرنے دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔

متحدہ ہندوستانی معاشرے (انڈیا پاکستان) میں چائلڈ میرج (بچوں کی بلوغت سے پہلے شادی) کے خلاف قانون بڑی دیر سے پاس ہوئے ہیں لیکن قانون پاس ہونے کے باوجود آج بھی چائلڈ میرج ہوتی ہیں اور بڑے دھڑلے سے ہوتی ہیں۔ ہاں اگر کوئی کمزور یہ کام کر رہا ہو تو قانون دہاڑتا ہوا چنگھاڑتا ہوا اس کی سرکوبی کرنے کے لیے پہنچ جاتا ہے البتہ طاقتوروں کے سامنے ہمیشہ کی طرح قانون کی ایک نہیں چلتی۔ نجانے کب یہ سسٹم بدلے گا، کب ایک عام آدمی کی مشکلات و تکالیف کا احساس کیا جائے گا اور کب دشرت مانجھی جیسے، آپ جیسے، مجھ جیسے، عام لوگوں کو بنیادی حقوق و سہولیات ملیں گی۔

رشوت ستانی، کرپشن، بدعنوانی، جھوٹے مقدمات، جھوٹی گواہیاں، جھوٹے ثبوت، افسروں کی شاہانہ ٹھاٹ باٹ وغیرہ اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ سسٹم دشرت مانجھی جیسے، مجھ جیسے، آپ جیسے ایک عام آدمی کا استحصال تو کر سکتا ہے مگر اسے اس کے بنیادی حقوق مہیا نہیں کر سکتا۔

دشرت مانجھی کے دل کو چھو لینے والے اس ایک جملے سے تحریر کا اختتام کروں گا کہ۔
”ہمیں بھگوان کے بھروسے نہیں بیٹھنا چاہیے، کیا پتہ بھگوان خود انسان کے آسرے پہ بیٹھا ہو۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments