اشر: پشتون قوم کے فلاحی معاشرے کی زوال پذیر رسم


کوہ ہندوکش کے بلند و بالا کہساروں کے دامن میں ہزاروں سال قبل جب پشتون ایک قوم کی صورت میں ابھر رہا تھا۔ تب سے ایک ایسا اجتماعی رسم چلا آ رہی ہے۔ جس میں انسانی ہمدردی، خدمت، مدد، فلاح اور محبت پنہاں ہے۔ جب کوئی گھرانا ایک کام انفرادی طور زیادہ وقت میں نہیں کر پاتا تب آس پاس کے لوگ یکجا ہو کر اس کو کم وقت میں مکمل کر دیتے ہیں۔

وہ اس گھر کو مشکل سے نکال لیتے ہیں۔ پشتون چونکہ ایک پاوندہ (خانہ بدوش) قوم رہا ہے۔ گرمیوں میں وہ ہندوکش کے دامن میں جہاں چراگاہیں ہوتیں اپنا پڑاؤ ڈال دیتا تھا۔ اور جب درختوں پر پتے اپنی عمر پوری کر کے گرنے لگتے اور یہ زرد مردہ پتے جب انسانوں کے پاؤں تلے روندنے لگتے تو ان کی جسموں سے ایک درد کی آواز جنم لیتی ہے۔ یہ آواز انھیں انسانوں کے لئے کوچ کرنے کا اعلان ہوتا تھا۔ اس اعلان کے ساتھ وہ اپنا سامان جانوروں پر لاد کر دریائے اباسین کے کنارے کے لئے اجتماعی طور پر کوچ کرتے تھے، تاکہ راستے میں جب کسی کو کوئی مشکل درپیش ہو تووہ ان کے کام آئیں۔

مذکورہ رسم اشر ہے۔ جس کو ہشر بھی کہتے ہیں۔ ( جو قدیم آریائی لفظ ہے۔ جو صرف ہمارے علاقے میں استعمال ہوتا ہے۔ بعض لوگ اسے عربوں سے ملا دیتے ہیں۔ (ڈاکٹر شاہ محمد مری کے کتاب سے اقتباس ) اشر کا مقصد نہ صرف کام میں مدد فراہم کرنا تھا، بلکہ یہ لوگوں میں امن کی فضا کے فروغ، اتحاد و اتفاق اور لوگوں کو یکجا کرنے کے میں مدد فراہم کرتا تھا۔ اور یہ رسم معاشرے کی ترقی میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔

جب پشتونوں نے وقت کے ساتھ زراعت کو بطور پیشہ اپنایا تب اشر ہی تھا جس کے بدولت ہزاروں ایکڑ کی زمینیں آباد ہوئیں۔ جب فصلوں کی کٹائی کا وقت آ پہنچتا تھا، تو ایک خوشی کا سماں ہوتا تھا۔ لوگ باری باری ایک دوسرے کی فصل کی کٹائی میں مدد کرتے تھے۔ اس دوران نوجوان ڈھول کے تاپ پر روایتی پشتون رقص اتنڑ کیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ خزاں کے ابتدائی دنوں میں گھروں کو برف باری اور بارشوں کے نقصانات سے بچانے کے لئے محلے دار ایک دوسرے کے گھروں کو اجتماعی طور پر لپائی کرتے تھے۔ اس کے ساتھ سخت سردی سے بچنے کے لئے پہاڑوں سے خشک لکڑیاں لانے کے لئے خواتین بھی اشر کر کے پہاڑوں کا رخ کرتی تھیں۔

جب سے جنگ نے افغانستان میں امن کی جگہ لے لی ہے، تب سے یہ روایتی رسم دم توڑنے رہی ہے۔ جنگیں ویسے بھی لوگوں میں دوریاں پیدا کرتی ہے اور ثقافتی اقدار کو پاؤں تلے روند دیتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ لوگوں میں دوریاں پیدا ہوئیں۔ بڑی تعداد میں لوگ مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ یہی وجہ ہے ایک دوسرے کی مدد کے بجائے مدد کے لئے این جی اوز یا حکومت کی طرف دیکھنے لگے۔ اس کے ساتھ بہت سے لوگ شہروں میں آباد ہوئے۔ جہاں ایک گھر کے مکینوں کو ہمسائے کا علم نہیں کہ کون ہیں۔ یہی وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے اشر اپنا مقام اصل صورت میں قائم رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔

لیکن اب بھی امید کی ایک کرن باقی ہے گزشتہ سال ژوب کے نوجوانوں نے اشر کو زندہ رکھنے کے لیے ایک قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اب کی بار انہوں نے روایتی طریقے کی بجائے جدید طریقہ اپنایا ان نوجوانوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اشر کے نام سے ایک تنظیم بنا کر بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں اشر کر کے درخت لگانے شروع کیے۔ اس کے ساتھ انہی نوجوانوں نے ژوب اور شیرانی میں گھر گھر جاکر بلوچستان کے قیمتوں جنگلات کی کٹائی روکنے کے لئے مہم چلائی اسی مناسبت سے اشر کے نوجوانوں نے 20نومبر کو ژوب میں ایک جرگے منعقد کیا جس میں بڑی تعداد میں قبائلی عمائدین، نوجوان، سماجی کارکنوں اور سرکاری حکام نے شرکت کی۔ اشر کے مذکورہ جرگے میں فیصلہ کیا گیا ہے ماحولیاتی تبدیلی سے بچنے اور قیمتی انواع و جانوروں کی شکار اور قیمتی درختوں کی کٹائی اجتماعی طور پر روکا جائے گا۔

اشر ایک بہتر سماجی معاہدہ ہے یہ معاہدہ انسانی معاشرے کو اجتماعی طور پابند بناتا ہے کہ وہ مشکل میں پھنسے انسان کے مدد کو پہنچے۔ موجودہ دور میں اشر کا فروغ ناگزیر ہو چکا ہے۔ مسائل اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ معاشرے کا ایک فرد ان مسائل سے اکیلے نہیں نمٹ سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments