آہنی بارش کا حامل سیارہ ہمارے تصور سے زیادہ پیچیدہ ہے!


زمین سے کئی سو نوری سالوں کے فاصلے پر واقع ایک سلگتے ہوئے سیارے پر ہر رات کو آسمان سے فولاد کے قطروں کی بارش کس وجہ سے ہوتی ہے، اب ماہرین نے اس کا کھوج لگا لیا ہے۔ انہوں نے ریاست ہوائی میں واقع ”جیمنائی نارتھ ٹیلی سکوپ“ نامی دوربین سے اس سیارے کی فضاؤں میں ”سوڈیم“ اور ”آؤنائزڈ کیلشیم“ کو دریافت کیا ہے۔ اس نئی دریافت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سیارہ جسے ”واسپ 76 بی“ کا نام دیا گیا ہے، ماہرین کی توقع سے زیادہ گرم ہے۔

یہ تحقیق کارنیل یونیورسٹی کے ایک بڑے تحقیقی منصوبے کے تحت کی گئی ہے جسے ”ایکسو جیمز“ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ ایسے سائنس دانوں کو ایک ذریعہ مہیا کرتا ہے کہ جو ہمارے نظام شمسی سے باہر واقع مختلف دور دراز سیاروں کی فضاؤں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ تحقیقی نتائج ”آسٹرو فزیکل جرنل لیٹرز“ نامی جریدے میں شائع ہوئے ہیں۔ ”جیسے جیسے ہم دور دراز کی کہکشاؤں میں واقع سیاروں کے حجم اور جغرافیے کا جائزہ لیتے جا رہے ہیں، ویسے ہی ہمیں اجنبی دنیاؤں کی ایک مکمل تصویر مرتب کرنے میں مدد مل رہی ہے۔

جن میں سے بعض اس سیارے جیسے ہیں کہ جہاں فولاد کی بارش ہوتی ہے تو بعض انتہائی سرد ہیں۔ ان میں سے بعض جیوپیٹر سے بھی چھوٹے ہیں تو بعض ہماری زمین کے جیسے ہیں۔ ”یہ کہنا ہے“ رے جیاوردھنا ”کا جو اس تحقیق کے شریک مصنف اور ہیرالڈ ٹینر ڈین کالج آف آرٹس اینڈ سائنسز اور کارنل یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ “ یہ بہت قابل تعریف بات ہے کہ آج کی جدید دوربینوں اور آلات سے ہم دور دراز کی کہکشاؤں میں واقع سیاروں اور ستاروں کے بارے میں اتنا کچھ جاننے لگے ہیں۔ اس سے ہمیں زمین سے کئی سو نوری سالوں کے فاصلے پر واقع سیاروں کے جغرافیہ، محل وقوع، بادلوں اور ہوائی جھکڑوں کے آنے یا نہ آنے کے انداز کے بارے میں بہت اہم معلومات ملی ہیں۔ ”جیاوردھنے نے کہا۔

یہ گرم سیارہ سنہ 2016 میں دریافت ہوا تھا جس کا حجم جیوپیٹر کے برابر ہے اور یہ ہماری زمین سے 640 نوری سالوں کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ ہماری زمین سے روشنی کو وہاں تک پہنچنے میں چھ سو چالیس سال لگتے ہیں۔ یہ ایک ستارے واسپ 76 بی کے گرد چکر لگا ہے جو ہماری زمین کے ایک اشاریہ آٹھ دنوں میں پورا ہوتا ہے۔ اس سے اس پر ہماری زمین کے مقابلے میں کئی ہزار گنا زیادہ تابکاری پڑتی ہے۔

”ہمیں اس سیارے کی فضاؤں میں اتنی زیادہ کیلشیم ملی ہے کہ جو اس سیارے کا امتیازی نشان بن گئی ہے۔“ یہ کہنا ہے ایملی ڈائیبرٹ کا جو اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور ٹورانٹو یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کر رہی ہیں۔ ”آیونائزڈ کیلشیم کی اتنی زیادہ مقدار ظاہر کرتی ہے کہ اس سیارے کی اوپری فضاؤں میں تیز رفتار ہوا کے جھکڑ چل رہے ہیں۔ یا پھر اس سیارے کی فضاؤں کا درجہ حرارت اتنا زیادہ ہے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر پا رہے ہیں۔“

ہمارے چاند کی طرح اس سیارے کی بھی صرف ایک ہی سمت اس کے ستارے یا سورج کی جانب رہتی ہے۔ چنانچہ وہ سطح جہاں ہر وقت سورج کی روشنی پڑتی ہے، وہاں کا درجۂ حرارت چار ہزار چار سو ڈگری فیرن ہائیٹ یا دو ہزار چار سو چھبیس ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہوتا ہے۔ چنانچہ سیارے کے اس جانب درجۂ حرارت اور ہوا کی گرمی سے فولا کے ذرے پگھل کر ایٹموں میں بدل کر ہوا میں بھاپ بن کر گھل مل جاتے ہیں۔ پھر ہوا اس بھاپ کو سیارے کے تاریک حصے کی طرف لے آتی ہے۔ جہاں وہاں کے مقابلے میں قدرے ٹھنڈا ماحول یعنی دو ہزار چار سو ڈگری فیرن ہائیٹ یا ایک ہزار تین سو پندرہ ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ہوتا ہے۔ اس سے یہ فولاد کی بھاپ بادلوں میں بدل جاتی ہے جس سے پگھلے ہوئے فولاد پر مشتمل بارش ہوتی ہے۔ اور یوں ہمیں اس سیارے کی فضاؤں میں فولاد کی بارش ہوتی نظر آتی ہے۔

ایکسو جیمز منصوبے کے تحت تقریباً تیس سیاروں کی فضاؤں کا جائزہ لیا ہے جس کی سربراہی ”جیک ٹرنر“ نے کی ہے جو ناسا کے ”ہبل فیلو شپ منصوبے“ کے ”کارل ساگان فیلو“ اور کارنل یونیورسٹی میں محقق ہیں۔ ”ہماری اور دیگر محققین کی یہ تحقیقات ہمارے نظام شمسی سے باہر کے سیاروں اور ستاروں کی فضاؤں کا جائزہ لینے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔“ انہوں نے بتایا

بعض دوسرے سیاروں پر بھی کچھ ایسے ہی عجیب و غریب مظاہر دیکھنے کو نظر آئے ہیں۔ جیسے کہ ”ایچ ڈی 189733 b پر شیشے کے ذرات کی حامل ہوائیں چلتی ہیں۔ جبکہ نیپچون پر ہیروں کی بارش ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments