انڈیا کی بڑی کاروباری کمپنیاں مہنگے ملکی ڈیزائنر برانڈز پر سرمایہ کیوں لگا رہی ہیں؟

نکھل انعام دار - بی بی سی بزنس نامہ نگار، ممبئی


منیشن ملہوترا
انڈین ڈیزائنر منیش ملہوترا ایک فیشن شو میں اداکارہ کرینہ کپور کے ہمراہ
انڈیا کی بڑی تجارتی کمپنیاں ملک کے مہنگے ڈیزائنر برانڈز میں بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہیں اور ایسا کرنے کا بظاہر مقصد ان انڈین برانڈز کی تشہیر کرنا اور انھیں بین الاقوامی سطح پر لا کھڑا کرنا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ رحجان اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ ملک کی لگثرری ریٹیل مارکیٹ اب پختگی کی جانب بڑھ رہی ہے۔

رواں برس اکتوبر میں انڈیا کے ایک بڑے کاروباری گروپ ’ریلائنس‘ کی ایک ذیلی کمپنی ’ریلائنس برانڈز لمیٹڈ‘ نے اعلان کیا تھا۔ ’ریلائنس برانڈز لمیٹڈ‘ کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ کمپنی انڈیا کے مشہور فیشن ڈیزائنر منیش ملہوترا کے اپنے نام سے مقبول برانڈ کی 40 فیصد شیئر خرید رہی ہے۔ اس کے ایک ہفتے بعد اسی کمپنی نے انڈیا کے ایک اور پرانے فیشن ہاؤس ’رتو کمار‘ کے 50 فیصد حصص بھی خرید لیے۔

منیش ملہوترا، جو گذشتہ 30 برسوں سے بالی وڈ کے بڑے بڑے ستاروں کے لباس تیار کر رہے ہیں، نے تقریباً 15 برس قبل اپنا برانڈ متعارف کروایا تھا۔ اور فوربز کے مطابق ان کی سالانہ آمدنی تین کروڑ ڈالرز ہے۔

ملہوترا نے ریلائنس جیسے کارپوریٹ گروپ کے ساتھ شراکت داری کرنے کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کے پیچھے جزوی طور پر یہ وجہ ہے کہ وہ بالی وڈ میں بطور ڈائریکٹر داخل ہونے پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کی دوسری وجہ بین الاقوامی سطح پر برانڈ کو پھیلانے کی خواہش ہے۔

ممبئی کے مضافاتی علاقے ’سینٹاکروز‘ میں اپنے برانڈ کی ایک ڈیزائن ورکشاپ میں بات کرتے ہوئے انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے پاس عملی علم ہے، لیکن کسی ایسے شخص کے لیے جس نے فیشن کے کاروبار کا مطالعہ نہیں کیا ہے ایسے میں میرے خوابوں اور کہانیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے اس شراکت داری کی ضرورت ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس برانڈ کو مزید منظم ہونے کی ضرورت ہے۔۔۔‘

ٹیکنو پارک رٹیل کنسلٹینسی کے سینیئر پارٹنر انکر بائسن کہتے ہیں کہ یہ ایک منطقی فیصلہ ہے اور بین الاقوامی رحجانات کی عکاسی کرتا ہے۔

رتو کمار

ریتو کمار نے انڈیا کے سب سے پرانے فیشن ہاؤس کی بنیاد رکھی تھی

انھوں نے متعدد ایسے فیشن برانڈز جن میں ڈائور، شینل، ہوگو باس، سیینٹ لارنٹ (وائی ایس ایل) کا حوالہ دیا جنھوں نے اسی طرح ان بانی افراد سے آگے بڑھ کر ’ادارہ سازی‘ کی۔

بائسن کا کہنا تھا کہ ’انڈیا میں اب بہت سے ڈیزائنر اپنی عمر کے 50 یا ساٹھ کی دہائی میں ہیں اور اب انھیں یہ فیصلہ کرنا ہی تھا۔‘

ریلائنس ملہوترا کے مزید فلیگ شپ سٹورز قائم کرنے کی خواہاں ہے اور ای کامرس کی دنیا میں بھی کمپنی کو جلد از جلد لانا چاہتی ہے۔ ریلائنس برانڈز لمیٹڈ کے موجودہ برانڈز کی شراکت داریوں میں متعدد عالمی برانڈز بھی شامل ہیں جیسا کہ ارمانی ایکسچینج، بوتیگا ونیٹا، جمی کوہ، کیٹ سپیڈ نیویارک، مائیکل کورز، ٹیفینی اینڈ کو اور دیگر شامل ہیں۔

مگر ریلائنس برانڈز لمیٹڈ نہ تو پہلی یا صرف ایک انڈین کمپنی ہے جس نے ملک کے بڑے فیشن برانڈز میں سرمایہ کاری کی ہو۔ ادتیا برلا فیشن کی ملکیت انڈیا کی ملٹی نیشنل کمپنی ادتیا برلا گروپ کی ہے۔ اس گروپ نے بھی حالیہ برسوں میں ایسا ہی کیا ہے اور ملک کے چند نامور فیشن ہاؤسز یا برانڈز جیسا کہ سبیاساچی، تارن تاہیلینی، اور شانتانو اینڈ نکھل کے حصص خریدے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گھریلو ڈیزائنر برانڈز کی طرف تبدیلی طویل عرصے سے زیر التوا تھی۔

ٹاٹا کلک لگثری کی ایڈیٹر ان چیف نونیٹا کالرہ کا کہنا تھا کہ ’بین الاقوامی برانڈ انڈین صارفین کو زیادہ نہیں بھائے، انھوں نے اپنی کوشش کر کے دیکھ لی ہے۔‘

’انڈیا میں کپڑوں کی پسند بڑی محضوص ہے اور اپنے میں ایک خاص انڈین طرز رکھتی ہے، اگر آپ فیشن مارکیٹ میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے کپڑوں میں اس خاص انڈین طرز کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ انڈیا میں لباس کی خریداری زیادہ تر مذہبی تہواروں یا شادی بیاہ کے موقعوں پر کی جاتی ہے۔ ملک کے برانڈز کے کپڑوں کی جانب رغبت کا راز ان کا عروسی ملبوسات اور مخصوص ثقافتی فیشن پر زور کے باعث ہوتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اب ان برانڈز کی جانب سے کاروباری کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری سے ڈیزائنرز اپنی مصنوعات کو ’مزید نکھار اور بہتر‘ بنا سکتے ہیں تاکہ وہ ایک سستے لگثرری لباس کے طور پر زیادہ بڑی مارکیٹ تک رسائی حاصل کر سکیں۔

درحقیقت اس سال کے شروع میں سبیاساچی وہ پہلے انڈین ڈیزائنر بنے تھے جنھوں نے سویڈن کے بڑے فیشن برانڈ ایچ اینڈ ایم کے ساتھ مل کر ایک لباس کی کلیکشن متعارف کروائی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

سبیاساچی مکھرجی: مشہور فیشن ڈیزائنر کو ’منگل سوتر‘ کا اشتہار کیوں واپس لینا پڑا؟

’پاکستانی اٹائر‘: دکان کا نام جس نے انڈین خاتون کے کپڑوں کے بزنس کو چار چاند لگا دیے

کیٹ واک کے دوران پھندے والا نیکلس پہنانے پر ژیوانچی پر تنقید

اور راہل مشرا جو انڈیا کے ایک مہنگے کپڑوں کے ڈیزائنر ہیں، نے تہواروں کے سیزن سے قبل انڈیا کے ایک مشہور سستے برانڈ ‘ڈبلیو’ کے ساتھ مل کر کپڑوں کی ایک کلیکشن لانچ کی ہے۔

میکنسے کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2022 تک انڈیا میں کپڑوں اور لباس کی مارکیٹ کی کل مالیت 60 ارب ڈالرز ہو جائے گی۔ جو جرمنی اور برطانیہ کے مقابلے میں دنیا کی چھٹی بڑی مارکیٹ بنے گی۔

دیپکا پاڈوکون اور رنویر سنگھ

بالی ووڈ سٹارز دیپکا پاڈوکون اور رنویر سنگھ نے سنہ 2019 میں گولڈن ٹپمل کے دورے کے دوران انڈین ڈیزائنر سبیاساچی کے تیار کردہ ملبوسات پہنے تھے

اس سب میں لباس کے برانڈز بہت کم حصہ لیتے ہیں اور اب بھی بین الاقوامی برانڈز کے مقابلے میں اپنے کام میں محدود ہیں۔ اکنامکس ٹائمز کے مطابق انڈیا کے دس بڑے کپڑوں کے برانڈ کی سالانہ آمدنی 25 سے 100 ملین ڈالرز کے درمیان ہے۔

بائسن کا کہنا ہے کہ ان برانڈز میں دلچسپی ’اس لیے نہیں ہے کہ وہ آج کیا ہیں مگر اس لیے ہیں کہ وہ کل کو کیا بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریٹیلرز کے لیے برانڈ کو تیار کرنا، اس کے اپنے مخصوص ڈیزائن بنانا، اس برانڈ کی صارفین میں پہچان اور یاد بٹھانا ایک بہت مہنگا اور وقت طلب کام ہے۔‘

اس کے مقابلے میں یہ آسان ہے کہ ایک ایسے برانڈ میں سرمایہ کاری کی جائے جس کے پاس پہلے ہی یہ سب کچھ موجود ہے۔ لیکن عالمی سطح پر ثقافتی کپڑوں کے ساتھ کامیاب ہونا شاید کافی مشکل ہو کیونکہ اس پیمانے میں طلب اور رسد ایک بڑا مسئلہ ہو گا۔

ایک ایسی دنیا میں جہاں فیشن ٹرینڈز ہمیشہ یورپ اور امریکہ سے شروع ہوتے ہیں اور اس کی مارکیٹ کو چینی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے صارفین زیادہ بڑھاوا دیتے ہیں ایسے میں خاص انڈین طرز لباس کا جگہ بنانا کافی مشکل ہو گا۔ ایسے میں ایک ایسی سپلائی چین کو متعارف کروانا بھی مشکل ہو گا جو عالمی منڈی کے ماڈل کے لیے مناسب ہو۔ کیونکہ انڈیا کا فیشن اب بھی زیادہ تر کھڈی کی بنائی، ہاتھ کے کام اور غیر روائتی ٹیلنٹ پر انحصار کرتا ہے۔

اگرچہ کووڈ کی وبا سے اس شعبے کو ایک عارضی جھٹکا لگا ہے لیکن اس صنعت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ای کامرس کی مدد سے اس کی بحالی بہت تیزی سے ہو رہی ہے۔ اس نے مقامی ڈیزائنرز کے لیے انڈیا کے امیر اور 18 ملین تارکین وطن تک رسائی کرنا بھی آسان بنا دیا ہے۔

ریلائنس برانڈز لمیٹیڈ کے صدر اور چیف ایگزیکٹیو درشن مہتا کا کہنا ہے ’دنیا بھر سے تیزی سے بڑھتے ہوئے گاہکوں نے ہمیں ان گاہکوں کو جغرافیائی انداز میں سمجھنے کے ہمارے نقطہ نظر کو نئی شکل دی ہے۔‘

کورونا وبا کے بعد جیسے جیسے دنیا کھل رہی ہے ویسے ویسے انڈیا ڈیزائنرز اپنے برانڈز کو سمندر پار متعارف کروانے کے خواہشمند ہیں۔ ایسے میں سرمایہ ان کے لیے ایک بڑی مشکل تھا لیکن جو اب بڑے کاروباری گروپوں کی شراکت داری سے مسئلہ نہیں رہا۔

انڈیا فیشن

آدتیہ برلا گروپ نے شانتانو مہرا اور نکھل مہرا نامی برانڈ میں سرمایہ کاری کی ہے

ادتیا برلا فیشن کی سرمایہ کاری کے بعد سبیاساچی نے اعلان کیا ہے کہ وہ سنہ 2022 میں 60 ہزار مربع فٹ کا شاندار سٹور نیویارک میں کھولیں گے۔ اور اس برس فروری میں انھوں نے نیویارک کے ایک مہنگے ڈیپارٹمنل سٹور برگدرف گڈمین میں اپنے کپڑوں اور دیگر اشیا کی نمائش کی تھی۔

ان اچھے اور بڑے بڑے اعلان کب دیکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کے فیشن برانڈز کا شعبہ پرامید ہے۔ مس کالرہ کا کہنا ہے کہ ’لگثرری کو مدد کی ضرورت ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ‘میرے خیال میں ہم بہت تیزی سے تبدیلی اور ترقی کا دور دیکھنے والے ہیں۔ یہ سفر آسان نہیں ہو گا اور اس میں ڈرامائی بریک اپس بھی ہوں گے اور خوش آئیند جوڑ توڑ بھی۔ لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ فیشن انڈسٹری ہمیشہ کے لیے تبدیل ہونے جا رہی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32541 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments