پیروی کی مثلث


Dr Shahid M shahid
یہ انسانی فطرت کا خاصا ہے کہ وہ کسی چیز کو قبول یا رد کرے ۔ تاریخی شواہد کے مطابق انسان تین چیزوں سے متاثر ہوا ہے ان میں اخلاق سماج اور مذہب ہے ۔یہ استعداد قبولیت اور اثرپذیری کے وہ بنیادی محرکات ہیں ۔جہاں دل و دماغ انہیں قبول کرکے آفاقی صداقتوں کی لاج رکھتا ہے ۔یوں سمجھ لیجئے یہ نفسیاتی مثلث کے تین زاویے ہیں ۔جنہیں کھینچے بغیر فکر و نظر سے دیکھا نہیں جا سکتا ۔
ہم انہیں اوسط درجہ کے تخیلات میں شامل نہیں کر سکتے ۔کیونکہ یہ آفاقی صداقتوں کی سمتوں کے عکاس ہیں ۔انسان ہمیشہ انہی کا ہاتھ تھام کر چلتا آیا ہے جن کی بدولت جمالیاتی قدروں کو فروغ ملا ہے ۔
اگر ہم آسمانی محبت کی عرفانی جھلکیوں کا نظارہ کریں تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے ۔ان عناصر  کے رنگ و روپ ہر دور میں یکسانیت کا لبادہ اوڑھتے نظر آتے ہیں ۔اس حقیقت کا بنیادی مفروضہ استعداد قبولیت پر محیط ہوتا ہے ۔اگر طبیعت میں کسی چیز کو قبول کرنے کی عادت ہو جائے تو اثرپذیری کا عمل شروع ہو جاتا ہے ۔تاثیر ایک اثر انگیز عمل کا نام ہے جو ذوق اور شوق کے بغیر ظہور پذیر نہیں ہوتا ۔جب کوئی چیز انسانی فطرت کے ساتھ نتھی ہو جائے تو اس میں نظر پسندی کے مطالبات شامل ہو جاتے ہیں ۔جو خوشی اور یک جہتی کا سبب بن کر خلوص و سچائی کا پرچار کرتے ہیں ۔
استعداد قبولیت میں تاثراتی اہمیت کے حامل چیز اخلاق ہے جو عالمگیر کشش رکھتا ہے ۔آپ  دنیا کے کسی کونے میں بھی چلے جائیں اگر آپ کی فطرت میں اخلاق کا رچاؤ ہے تو وہ دنیا کے کسی بھی ماحول اور معاشرے میں آسانی سے جینے کا ڈھنگ سیکھ لیتے ہیں  ۔کیونکہ یہ عالمگیر قوت ہے جس میں مقناطیسی کشش ہے جو دوسروں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے ۔اس کے استعمال سے پتھر دل بھی پگھل کر موم ہو جاتا ہے ۔اس عمل سے انسان قبول  کا ذاتی کرب و گداز  ختم ہو جاتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اس کے معاشرتی شکوے بھی ختم ہو جاتے ہیں ۔
یہ مشاہداتی قوت کا تہلکہ خیز عنصر ہے جو انسان کو تباہی بربادی اور کشت و خون سے بچاتا ہے ۔بہت حد تک انسان نفسیاتی عوارض سے بچنے کا سلیقہ سیکھ جاتا ہے ۔ہجرت کی تلخیاں اس کا پیچھا چھوڑ دیتی ہیں ۔
دوسری چیز سماج ہے جس میں ہماری اقدار و روایات ، تعلقات و روابط ، عقل و شعور کے منصوبے ، تہذیب و ثقافت
اور آثار و کفیات جیسے عناصر شامل ہوتے ہیں ۔جن کی پیروی سے نا انسان اپنا دامن چھڑا سکتا ہے اور نا پیچھے ہٹ سکتا ہے ۔البتہ اس کفیت میں ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے ماضی کو یاد کرتا ہے ، مستقبل کی فکر کرتا ہے ، اور حال کے تجربات و مشاہدات سے آگاہی حاصل کرتا ہے ۔دنیا میں ہر انسان اپنا مستقبل درخشاں دیکھنا چاہتا ہے ۔
وہ اپنے دامن کو خوشیوں سے بھرنا چاہتا ہے ۔روز مرہ کے معمولات کو اوقات و تراکیب کی روشنی میں نمٹانا چاہتا ہے ۔وہ ان الجھنوں اور قباحتوں سے بچنا چاہتا ہے جو اس کی راہ میں کانٹے بچھاتی ہیں ۔
تیسری چیز مذہب ہے جو ہر انسان کا ایک نفسیاتی سہارا ہے ۔وہ اس کی تعلیمات کی روشنی میں آگے بڑھنا اور ترقی کرنا چاہتا ہے ۔وہ اپنے تمام اغراض و مقاصد ایک خاص رویا کے تحت حاصل کرنا چاہتا ہے ۔البتہ یہ ضروری نہیں کہ انسان کی ہر خواہش اور منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے ۔کبھی کامیابی اس کے قدم چومتی ہے اور کبھی وہ ناکامی کے دلدل  میں اتر جاتا ہے ۔کبھی وہ طوفان کے جھونکوں سے لرز جاتا ہے ۔اس دنیا میں انسان کو قدم بہ قدم دکھوں اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔لیکن جو لوگ  آسمانی کمک کا سہارا لیتے ہیں ان کی آڑن  انہیں کامیابی کی سیڑھی پر قدم رکھنے کا موقع فراہم کردیتی ہے ۔بلاشبہ یہ سعادت ایمان و عمل کے نتیجےسے  بنتی ہے اور انسان کو زندگی کے اس موڑ پر لا کر کھڑا کر دیتی ہے جہاں محبت کی گونج فضا میں بہار کی رت میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔
البتہ جو لوگ اپنی دنیا و آخرت سنوارنا چاہتے ہیں ۔ان کے قلب و ذہن میں مذہبی رجحانات کا رچاؤ  ہوتا ہے ۔وہ اپنے اعمال کی بدولت اپنی برکات و فضائل پاتے ہیں ۔وہ اپنے ارادوں ،جذبوں ، تصورات ، منصوبوں ، کو خدا کے ہاتھ میں تھام دیتے ہیں ۔پھر اس کی مرضی کا انتظار کرتے ہیں ۔وہ نتیجتا صابر وشاکر بن جاتے ہیں ۔ایمان ایسی قوت ہے جو ان کی زندگیوں سے علتوں اور ناچاقیوں کو ختم کر دیتا ہے ۔وہ اپنی سوچ و فکر کو مثبت سرگرمیوں سے غسل دینا شروع کر دیتے ہیں ۔ان کی فطرت میں انسانیت بشریت اور آدمیت کا نقشہ بن جاتا ہے جو ان کی نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتا یعنی اس نقشے کی تصویر آنکھوں میں اتر جاتی ہے انسان اسے بھلانا بھی چاہے تو اس کے لئے نا ممکن ہو جاتا ہے ۔یہ ایک فطری عمل ہے جو انسان کی حسی قوتوں کو بیدار رکھتا ہے اور ساتھ میں ا سے ایک سمت بھی عطا کرتا ہے جو اسے منزل کا اشارہ دیتی ہے ۔یہ ایک بھید ہے جو انسان کو طرح طرح کے مکاشفات ودیت کرتا ہے جس کی بدولت اسے اپنی اصل نوعیت کا شعور مل جاتا ہے
   اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنی داخلی اور خارجی تبدیلیوں کا علم بھی ہو جاتا ہے ۔اس کی آنکھوں میں آخرت اور جنت کا نقشہ بننا شروع ہو جاتا ہے ۔اسے اپنے چاروں طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آتی ہے ۔
اگر عصر حاضر میں انسان کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں پیروی کی مثلث ٹیڑھی نظر آتی ہے ۔دنیا میں چاروں طرف خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے ، ناکامیاں اور محرومیاں ہیں ، تنہائی اور اداسی ہے ، ظلم و ستم کے پہاڑ نظر آتے ہیں ، نفرت فرق کی حدود بندی ہے ، اقدار و روایات کا قتل ہے ، دہشتگردی اور تہمتیں ہیں ، لڑائی وجھگڑے ہیں ، بدعتیں اور ناپاک عزائم ہیں ، خوف و موت کی وبا ہے ، سرشت میں حسد و وہم کا گھوڑا ہے ، جدائیاں  و دوریاں ہیں۔الغرض  جب زندگی سے چین اور امن و امان ختم ہو جائے تو گناہ ناسور بن جاتا ہے ۔انسان اپنی ذات سے ان خوبیوں اور مقاصد کو ختم کر لیتا ہے جو اسے جینے کی آکسیجن مہیا کرتے ہیں ۔حالانکہ وہ جن موسموں کی خوشبو سے لطف اندوز ہوتا ہے وہی اسے نفرت کی بدبو محسوس ہونے لگتی ہے ۔
اگر انسان کے ارادوں کو جذبات کی گرمائش مل جائے تو اس کی سرشت سے ہر منفی تحریک ختم ہو سکتی ہے ۔وہ خوش خرم رہ سکتا ہے ۔اس کے ہر کام میں ضابطہ پسندی اور اصلاح و  آراستگی آ سکتی ہے ۔جب تقریر و بیان میں ہم آہنگی اور آفاقی صدا پیدا ہو جائے تو اس کا ماحول اور معاشرہ تغیر وتبدل کے ڈھانچے میں عرفانی صورت اختیار لیتا ہے ۔یہ ایک فطری ڈھال ہے جب انسان میں افکار و نظریات کا جذبہ پیدا ہو جائے تو وہ اپنی منزل پا لیتا ہے ۔ذرا سوچیں آج ہماری آنکھوں کے سامنے پیروی کی مثلث ہے ۔اس کے تینوں زاویوں پر تین نقطے جو اپنی اصلی صورت میں تین نظریات ہیں جن کی روشنی میں ہمارا اخلاقی دامن وسیع ، سماجی شعور پختہ اور مذہب آخرت سنوارتا ہے ۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments