بنگلہ دیش کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز پاکستان کے نام: ’وہ ایک ٹیم بن چکے ہیں‘، سمیع چوہدری کا کالم

سمیع چوہدری - کرکٹ تجزیہ کار


کرکٹ ٹیم
بابر اعظم کو اب پورا حق حاصل ہے کہ وہ کسی ساحل پر آرام کرسی میں نیم دراز لیٹ کر سکھ کے سانس لیں۔ جو اُنھوں نے حاصل کیا ہے اور جس محنت سے حاصل کیا ہے، وہ ایسے آرام کے مستحق بھی ہیں۔

جب اُنھیں ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی کپتانی دی گئی تھی تو پاکستان یکے بعد دیگرے جنوبی افریقہ اور سری لنکا سے سیریز ہار کر آ رہا تھا۔ سرفراز کی چیمپیئن ٹیم مرجھاتی جا رہی تھی اور شاداب خان و حسن علی جیسے میچ ونر انجریز اور فارم کی بھول بھلیوں میں کھوئے جا رہے تھے۔

اور بابر کے لیے پہلا دورہ ہی مشکل ترین تھا۔ دنیائے کرکٹ میں اگر کوئی ایک گوشہ بچا ہے جہاں سے آج تک پاکستان مایوس ہی لوٹا ہے، تو وہ آسٹریلیا ہے۔ بابر اعظم کا بطور کپتان ڈیبیو ہی آسٹریلیا میں ہونا تھا۔

اُس دورے پر جو ٹیم تسمانیائی ساحلوں پر عجیب گومگو کا شکار نظر آ رہی تھی، وہ اس ٹیم سے بہت مختلف تھی جو سیریز کلین سویپ کرنے کے بعد شیرِ بنگلہ سٹیڈیم میں ٹیم فوٹو کے لیے کندھے جوڑے کھڑی ہے۔

بنگلہ دیش کی ٹیم اور کنڈیشنز کا اگرچہ آسٹریلیا سے کوئی مقابلہ نہیں اور پاکستان کی اس جیت سے یہ بھی اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بالکل ایک ناقابلِ شکست ٹیم بن چکے ہیں، مگر یہ اخذ کرنا کُلی طور پر بجا ہے کہ وہ ایک ’ٹیم‘ بن چکے ہیں۔

جس طرح سے محمد وسیم نے بولنگ کی، جیسے شاہنواز دھانی کا ڈیبیو ہوا، جس طرح سے محمد نواز نے دو الگ الگ میچ ’فنش‘ کیے، جو فیلڈنگ کا معیار دیکھنے کو ملا، اس سے یہ عیاں ہے کہ ٹیم سپرٹ اور ڈسپلن کے ساتھ ساتھ پاکستان نے اپنا ’بینچ‘ بھی مضبوط کر لیا ہے۔ اور پھر درجنوں ناکامیوں کے بعد، اب ان کا مڈل آرڈر بھی میچ جتوانے لگا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

یہ شاداب خان کا ’دوسرا جنم‘ ہو سکتا ہے

’یقین کریں ایسا لگ رہا ہے کہ میچ پاکستان میں ہو رہا ہے‘

کبھی کبھار آٹھ بولرز بھی کم پڑ جاتے ہیں: سمیع چوہدری کا تجزیہ

اگر محمد وسیم اور شاہنواز دھانی پر یوں ہی توجہ دی گئی تو آئندہ برس آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ خاصا دلچسپ ہو سکتا ہے۔

بنگلہ دیش کی کنڈیشنز عرب امارات سے کہیں مختلف تھیں۔ بولرز کا کام آسان تھا اور بلے بازوں کا فقط امتحان تھا۔ اور ایسے مقابلے بھلے بے جوڑ ٹیموں کے درمیان ہوں، مارجن کے باعث اکثر ہیجان خیز ہوتے ہیں۔ اور اس پر پھر اطہر علی خان کی کمنٹری کا تڑکا بھی ہو تو سنسنی گویا پھٹ پڑنے کو بے تاب نظر آتی ہے۔

محموداللہ نے جب آخری اوور پھینکنے کا فیصلہ کیا تو یہ سبھی کے لیے حیرت کا باعث تھا۔ بیٹنگ کے لیے دشوار وکٹ پر آخری اوور میں آٹھ رنز کا ہدف بھی پہاڑ ثابت ہو سکتا ہے اگر مدِمقابل کوئی جی دار بولر ہو۔ اور محموداللہ نے بھی پاکستان سے وہ کروا چھوڑا کہ جو ان کا ریگولر اٹیک نہیں کروا پایا تھا۔

کرکٹ ٹیم

رضوان کی وکٹ گرنے کے بعد بھی پاکستان پُر اعتماد تھا کہ ہدف بآسانی حاصل ہو جائے گا، لیکن جہاں سرفراز احمد پر دباؤ بڑھ رہا تھا، وہاں محموداللہ بخوبی آگاہ تھے کہ اُنھیں کیا کرنا ہے۔

محموداللہ نے سرفراز کو وہی لینتھ آفر کی جو وہ پسند کرتے ہیں مگر سرفراز چھ گیندوں میں اس وکٹ کی پیس کیا سمجھ پاتے جو بابر اعظم بھی تین اننگز کے باوجود نہیں سمجھ پائے۔ سرفراز کے فوراً ہی بعد جب حیدر علی بھی اسی چال کا شکار ہو گئے تو بنگلہ دیش میں پھر زندگی کی امید جاگی۔

ویسے بھی جتنی سست اور بورنگ کرکٹ اس سیریز میں دیکھنے کو ملی، اس کا تقاضا یہی تھا کہ انجام ایسا ہی ہنگامہ خیز ہو۔

اور پاکستان نے بھی اپنے ہی روایتی انداز میں اس سیریز کو وہ کلائمیکس فراہم کیا۔ محموداللہ ہیٹ ٹرک چانس پر تھے اور افتخار نے آتے ہی پہلی گیند زناٹے سے باؤنڈری کے پار پھینک دی۔ اگلی چال محموداللہ کی تھی اور افتخار چلتے بنے۔

اگر بنگلہ دیش کی بیٹنگ نے یہاں تھوڑی ہمت اور دکھائی ہوتی تو شاید کلین سویپ کی خفت سے بچ جاتی مگر جب بات میچ ’فنش‘ کرنے کی ہو تو پھر محمد نواز بھلا کب پیچھے رہتے ہیں۔

سو، بابر اعظم یکسر مطمئن ہو سکتے ہیں کہ ان کی ٹیم نے بھی وہ مومینٹم حاصل کر لیا ہے جو تین سال پہلے کی ریکارڈ شکن ٹی ٹوئنٹی ٹیم نے حاصل کیا تھا۔ تب وہ اس مومینٹم کے مرکزی کردار تھے مگر اب وہ کپتان بھی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments