کیا واقعی نیویارک کا مین ہٹن جزیرہ 24 ڈالر میں فروخت کیا گیا تھا؟


دی ہیگ میں ڈچ نیشنل آرکائیوز میں رکھے گئے ایک خط کے مطابق نومبر 1626 میں امریکی مقامی آبادی نے انڈینز نے امریکی شہر نیویارک میں واقع آج دنیا کے اہم ترین علاقوں میں شمار کیے جانے والے مین ہٹن جزیرے کو اُس وقت صرف 24 ڈالر میں فروخت کر دیا تھا۔

ڈچ ویسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکار پیٹر شیگن نے اپنے ملک کی حکومت کو مطلع کیا کہ ہالینڈ کے گورنر پیٹر مینوئٹ نے مقامی لوگوں سے ایک معاہدہ کر لیا ہے، جس کے تحت انھوں نے اس جزیرے کو 24 ڈالر کے برابر اشیا کے تبادلے کے بعد ہالینڈ کے لیے خرید لیا ہے۔

نیویارک کے مین ہٹن کی کہانی کیا ہے؟

مین ہٹن کو اکثر غلطی سے نیو یارک سٹی کا متبادل نام سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دو صدیوں سے زیادہ عرصے تک نیویارک شہر صرف مین ہٹن کے جزیرے پر مشتمل تھا۔

مین ہٹن کا لفظ امریکہ میں ایک مقامی بولی لینیپ سے آیا ہے اور اس کا ترجمہ ’جنگل جہاں کمان بنانے کے لیے لکڑی تلاش کی جا سکتی ہے‘ کے طور پر کیا جا سکتا ہے، جہاں کمان اور تیر شکار کا ایک بڑا ذریعہ تھے۔

اس جزیرے کا پہلا نام مین ہیٹا ہینری ہڈسن کے بحری بیڑے پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے محقق ہڈسن نے سنہ 1609 میں اس جزیرے کا دورہ کیا تھا۔

خريطة لمدينة نيو أمستردام

ہڈسن کے سفر کے نتیجے میں 1624 میں مین ہٹن کے کنارے پر پہلی ڈچ بستی قائم ہوئی اور یہاں ایک قلعے کی بنیاد رکھی گئی۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق دی ہیگ میں ڈچ نیشنل آرکائیوز میں محفوظ ایک خط میں کہا گیا ہے کہ پیٹر منوئٹ نیو نیدرلینڈ کے پہلے ڈائریکٹر جنرل نے غالباً یہ جزیرہ سنہ 1626 میں مقامی آبادی سے 24 ڈالر کے برابر سامان کے تبادلے میں خریدا تھا۔ ان مقامی لوگوں کے متعلق مؤرخین اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ آیا ان کا تعلق مقامی لیونیپ، دیلوئیر، میونسی یا الگون کوئن قبائل سے تھا۔

یہ علاقہ پھر ایک شہر میں بدل گیا جس کا نام ’نیو ایمسٹرڈیم‘ پڑ گیا۔

پیٹر مینوٹ

پیٹر مینوئٹ سنہ 1580 میں جرمنی کے شہر ویسل کلف میں پیدا ہوئے اور جون 1638 میں کیریبین میں فوت ہو گئے۔ وہ ہالینڈ کے ایک نو آبادیاتی علاقے کے گورنر تھے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے یہاں مقامی لوگوں سے صرف 24 ڈالر مالیت کے برابر یہ جزیرہ خریدا تھا۔

ممکن ہے کہ پیٹر مینوٹ فرانسیسی نژاد ہوں مگر وہ جرمنی میں اپنے آبائی شہر میں مقامی چرچ میں ڈیکن کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔

سنہ 1625 میں انھوں نے اپنے شہر کو چھوڑ دیا۔ شاید شہر پر قابض ہسپانویوں سے بچنے کے لیے اور ہالینڈ سے وہ نیوہالینڈ کی طرف روانہ ہوا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ اسی سال ہالینڈ واپس آئے کیونکہ جنوری 1626 میں وہ دوبارہ مغرب کی طرف روانہ ہوئے اور 4 مئی 1626 کو دریائے ہڈسن کے کنارے پہنچے۔

اسی سال 23 ستمبر کو ڈچ ویسٹ انڈیا کمپنی نے انھیں مین ہٹن میں اس بستی کا جنرل منیجر مقرر کیا۔

اس علاقے پر یورپی قبضے کو قانونی حیثیت دینے کے لیے انھوں نے مقامی امریکیوں سے ملاقات کی اور انھیں ’جائیداد‘ منتقلی (ایک تصور جو کہ مقامی امریکیوں کے لیے اجنبی تھا) کے ذریعے پورے جزیرے کو آباد کاروں کو منتقل کرنے پر آمادہ کیا۔

تاریخی ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ یہ جزیرہ 60 گلڈرز یعنی 24 ڈالر مالیت کے سامان کے بدلے خریدا گیا تھا، اس مالیت کی اشیا میں کپڑے اور شیشے کی موتیوں کی مالا بھی شامل تھی۔

نیو ایمسٹرڈیم کے جنوبی سرے پر ایک قلعہ بنایا گیا تھا تاکہ یہ اولیس ڈچ آباد کار یہاں اپنے گھر تعمیر کر سکیں۔

غالباً ڈچ ویسٹ انڈیا کمپنی کے خرچ پر انھیں نوازنے کے لیے سنہ 1631 میں گورنر پیٹر مینوٹ کو ہالینڈ واپس بلایا گیا۔

چند برسوں کے بعد انھوں نے سویڈن کی فوج میں شمولیت اختیار کر لی اور انھیں سویڈن کے آباد کاروں سے لدے دو بحری جہازوں کی کمانڈ دے دی گئی، جنھوں نے مارچ 1638 میں نیو سویڈن کی بنیاد رکھی، جو دریائے ڈیلاویئر پر پہلی آبادکاری تھی۔

وہاں پیٹر مینوٹ نے دوبارہ دریائے ڈیلاویئر سے بمبئی ہک اور دریائے شوئیل کِل کے منھ کے درمیان مغرب کی طرف پھیلی ہوئی زمین مقامی آبادی سے خریدی، جہاں انھوں نے فورٹ کرسٹینا (بعد میں ولیمنگٹن) بنایا، جسے سویڈن کی ملکہ کرسٹینا کے نام سے منسوب کیا گیا۔

ویسٹ انڈیز میں سینٹ کرسٹوفر جزیرے (اب سینٹ کٹس اینڈ نیوس) کے فوراً بعد تجارتی مہم پر، مینوٹ سمندری طوفان کی زد میں آ کر لاپتہ ہو گئے۔

ثار المستوطنون الأوروبيون في امريكا الشمالية على الحكم البريطاني في عام 1775

نیویارک شہر

انگریزوں نے سنہ 1664 میں مین ہٹن جزیرے اور نیو ایمسٹرڈیم کے پورے شہر پر قبضہ کر لیا، جہاں اس کا نام بدل کر برطانیہ کے چارلس دوم کے نام پر نیویارک رکھ دیا گیا۔ چارلس دوم نے یہ زمین اپنے بھائی ڈیوک آف یارک کو دی اور بڑی تعداد میں تارکین وطن اس کے بعد برطانوی شہر یارک سے تھے۔

اس شہر نے ملک کی ابتدائی تاریخ میں عسکری اور سیاسی دونوں لحاظ سے نمایاں کردار ادا کیا۔

کانگریس کا اجلاس وہاں ہوا، کیونکہ یہ شہر 1785 اور 1790 کے درمیان ملک کا دارالحکومت تھا، اور جارج واشنگٹن نے سنہ 1789 میں پہلے امریکی صدر کے طور پر اس کا افتتاح کیا تھا۔

وصول مهاجرين من أوروبا إلى نيويورك في عام 1900

مین ہٹن نے 19 ویں صدی میں ترقی کی جب خاص طور پر وہاں 1825 میں ایری کینال کھول دی گئی، جس سے یہ ایک پرجوش اور پھیلتے شہر کا مرکز بن گیا۔

سنہ 1898 میں گریٹر نیویارک کا قیام اس وقت ہوا جب مین ہٹن کے ساتھ بروکلین، کوئنز، رچمنڈ اور برونکس کے نئے ضلعے بنائے گئے۔

مین ہٹن کو دنیا کے اہم ترین تجارتی، مالیاتی اور ثقافتی مراکز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور یہ اپنے بہت سے سیاحتی مقامات کے لیے مشہور ہے۔

رٹگریز یونیورسٹی کے ماہرین اقتصادیات کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس وقت جزیرے پر زمین کی قیمت تقریباً دو ٹریلین ڈالر ہے۔

مین ہٹن کے پرکشش مقامات میں براڈ وے، دنیا کی سب سے مشہور گلیوں میں سے ایک، وال سٹریٹ کا مالیاتی ضلع، فلک بوس عمارتیں جیسے ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ، گرین وچ ولیج، ہارلیم اور سینٹرل پارک، اقوام متحدہ کا صدر دفتر اور بہت سے ثقافتی اور تعلیمی ادارے شامل ہیں۔

ان مقامات میں مین ہٹن کا میوزیم، اوپرا ہاؤس، میوزیم آف ماڈرن آرٹ، کولمبیا یونیورسٹی، نیویارک کی سٹی یونیورسٹی کے دو کیمپس اور نیویارک یونیورسٹی شامل ہیں۔ سیونتھ ایونیو، 42 ویں سٹریٹ، اور براڈ وے کے چوراہے سے بنا، ٹائمز سکوائر، مین ہٹن کے وسط میں واقع ایک چوک، شہر کے تھیٹر ڈسٹرکٹ کا مرکز ہے۔

یہ پہلے لانگ ایکر کے نام سے جانا جاتا تھا، سنہ 1890 کی دہائی میں یہ علاقہ غیر قانونی سرگرمیوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا اور اس وجہ سے اس علاقے کی ساکھ اچھی نہیں تھی۔

اس چوک کا نام سنہ 1904 میں انگریزی اخبار نیویارک ٹائمز کے نام پر رکھا گیا، جس نے یہاں ٹائمز ٹاور میں اپنے نئے دفاتر کھولے۔

تقریباً اس کے فوراً بعد یہ پلازہ وہ جگہ بن گیا جہاں نیویارک کے لوگ نئے سال کی آمد کا جشن منانے کے لیے جمع ہوتے تھے۔

سنہ 1907 میں، ٹائمز نے اس خاص موقعے پر جشن کے لیے نئے سال کی شام آدھی رات کو پرچم کے کھمبے سے نیچے شیشے کے ایک بڑے گلوب کو اتارنے کی روایت شروع کی۔

سنہ 1930 کی کساد بازاری (گریٹ ڈپریشن) کے دوران جب ٹائمز سکوائر کے تھیٹر بند ہونا شروع ہو گئے تو اکثر موشن پکچر تھیٹرز میں تبدیل ہو گئے۔

سنہ 1960 اور 1970 کی دہائیوں تک ٹائم سکوائر فحش تفریح ​​کا مرکز بن چکا تھا اور یہ دوبارہ جرائم کی آماجگاہ بن گیا۔

سنہ 1990 کی دہائی میں ٹائم سکوائر میں بڑی تعداد میں سیاحوں کے لیے موافق سٹورز، تھیٹر اور ریستوران قائم ہوئے، یہ سب میئر روڈی گیولیانی اور ڈزنی کی جانب سے علاقے میں سرمایہ کاری کے فیصلوں کے باعث ہوا۔

نیویارک کی آبادی بہت متنوع ہے، جس میں تل ابیب سے زیادہ یہودی، ڈبلن سے زیادہ آئرش، نیپلس سے زیادہ اطالوی، اور سان جوآن سے زیادہ پورٹو ریکن رہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

نیویارک کی اشرافیہ کو لُوٹنے والی جعلی دولت مند

نیو یارک میں جوڑے اب زوم پر ’ورچوئل شادی‘ کر سکیں گے

نیویارک کی انتہائی پرتعیش عمارت میں ’1500 نقائص‘ اور 25 کروڑ ڈالر ہرجانے کا مقدمہ

سٹیچیو آف لیبرٹی (آزادی کا مجسمہ) شہر کی علامت ہے، لیکن یہ شہر بذات خود ایک علامت ہے۔ شہر میں ایک چوک ہے جہاں ہر قوم کے لوگ امریکی بن جاتے ہیں اور اگر وہ شہر میں رہیں تو نیویارک کے شہری بن جاتے ہیں۔

پچھلی دو صدیوں کے دوران نیویارک امریکہ کا سب سے بڑا اور امیر ترین شہر رہا ہے، جہاں سے آدھے سے زیادہ لوگ اور سامان امریکہ میں اس کی بندرگاہ کے ذریعے آتے ہیں، اور اس تجارتی سرگرمیوں نے شہر کی زندگی کو مسلسل بدل کر رکھ دیا ہے۔

نیویارک شہر کبھی ایک ریاست اور ملک کا دارالحکومت تھا، لیکن یہ اس سے آگے بڑھ کر ایک کاسموپولیٹن شہر بن گیا ہے۔

80 لاکھ کی آبادی کے ساتھ نیویارک ایسے ناموں سے مشہور تھا جیسے کہ دنیا کا دارالحکومت، وہ شہر جسے نیند کا پتہ نہیں، بڑا سیب اور شاہی شہر۔

نیویارک کی علامت

مجسمہ آزادی نیویارک شہر کی علامت ہے، اور یہ ایک عورت ہے جو یونانی سکارف پہنے ہوئے ہے اور ایک ہاتھ میں مشعل پکڑی ہوئی ہے اور دوسرے ہاتھ میں کتاب ہے، اور لاکھوں لوگ اس کے نام کے گن گاتے ہیں۔

یہ لیڈی آزادی ہے جیسا کہ فرانسیسی مصور فریڈرک آگستے بارتھولڈی نے تصور کیا تھا، جس نے نیویارک شہر کے داخلی دروازے پر مشہور مجسمہ آزادی کو ڈیزائن کیا تھا، جو دنیا کے مشہور ترین مجسموں میں سے ایک بن چکا ہے اور آزادی کی عالمی علامت ہے۔

فریڈرک آگستے بارتھولڈی نے، جو 1834 میں شمال مغربی فرانس کے علاقے الساس میں پیدا ہوئے تھے، مجسمے کے پاؤں میں ڈھیلی زنجیروں کو ظلم سے نجات کے اظہار کے لیے استعمال کیا۔ انھوں نے دنیا کے سات براعظموں اور سمندروں کے اظہار کے لیے سات کالموں کے ساتھ ایک تاج استعمال کیا۔

جیسا کہ یونانی افسانوں میں اس کے بارے میں تفصیلات دستیاب ہیں اور مجسمے کے پاس ایک کتاب ہے جس میں لاطینی میں ایک جملہ لکھا ہے یہ 4 جولائی 1776 ہے، جو کہ ریاست ہائے متحدہ میں یوم آزادی ہے۔

مجسمہ کسی ایسے شخص کی تصویر میں ظاہر ہوتا ہے جو آزادی کی طرف پیش رفت کا اظہار کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے اور اس بات کا اظہار کرنے کے لیے ایک مشعل اٹھاتا ہے کہ آزادی روشن خیالی کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے، اس لیے مجسمے کا سرکاری نام ہے، ’آزادی جو دنیا کو روشن کرتی ہے‘۔

فرانس کے دارالحکومت پیرس کی ورکشاپس میں اس کی تیاری مکمل ہونے کے بعد 28 اکتوبر 1884 کو اس کی باضابطہ نقاب کشائی کی گئی۔

اس کے بعد امریکی صدر گروور کلیولینڈ نے دونوں ملکوں کی عوام میں پائی جانے والی محبت کے اظہار کے لیے مجسمہ آزادی کو فرانس کی جانب سے تحفے کے طور پر قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔

پیڈسٹل پر امریکی شاعر ایما لازارس کی ایک نظم ہے۔

نظم کے الفاظ اس کی موت کے 16 سال بعد مجسمہ آزادی کی بنیاد پر کانسی کی تختی پر کندہ کیے گئے۔

اگست 2019 میں اس نظم کی ایک نئی تشریح کی گئی جب امریکہ میں ایک امیگریشن اہلکار نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تارکین وطن کے لیے خوراک کی امداد کو روکنے کی پالیسیوں کا دفاع کیا۔

سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز کے سربراہ کین کوسینیلی نے پچھلی آیت میں درج ذیل جملے کا اضافہ کیا: ’وہ لوگ جو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہیں، اور جو عوام پر بوجھ نہیں بنتے ہیں‘۔

اس نے بعد میں کہا کہ جس نظم سے یہ جملہ لیا گیا ہے وہ ’یورپ سے آنے والے تارکین وطن‘ کی ہے۔

این پی آر کے میزبان ریچل مارٹن نے جب دوران انٹرویو ان سے پوچھا، ’کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مجسمہ آزادی پر کندہ ایما لازارس (نظم کی مصنفہ) کے الفاظ امریکی چارٹر آف ویلیوز کا حصہ ہیں؟‘

اس نے جواب دیا یقیناً۔

ان کے مطابق ’پینٹنگ کو پیڈسٹل پر اسی وقت رکھا گیا تھا جب پبلک فیس کا پہلا قانون پاس ہوا تھا۔ یہ ایک دلچسپ وقت ہے۔‘

کین کوسینیلی نے بعد میں سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں اپنے بیانات کو دہرایا، لیکن نظم کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کرنے کے الزام کی تردید کی۔ انھوں نے اصرار کیا کہ وہ اس سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دے رہے ہیں، اور بائیں بازو پر الزام لگایا کہ وہ ان کے تبصروں کو ’مسخ‘ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سی این این کی اینکر ایرن برنیٹ سے جب یہ پوچھا کہ امریکہ کن اقدار کی نمائندگی کرتا ہے، تو انھوں نے کہا کہ ’یہ نظم یقینی طور پر یورپ سے آنے والے لوگوں کی طرف اشارہ کرتی ہے، جہاں معاشرے طبقاتی تفریق پر مبنی ہوتے ہیں اور اگر لوگوں کا تعلق کسی خاص ذات سے نہ ہوتا تو ان کا مستقبل تاریک ہوتا‘۔

القصيدة المحفورة على تمثال الحرية هي للشاعرة إيما لازاروس، التي وُلدت في نيويورك عام 1883

دی نیو کولوسز نظم کے الفاظ:

یہاں ہمارے سمندری سیلاب والے دروازوں پر

ایک طاقتور عورت اپنی مشعل کے ساتھ کھڑی ہوگی

اس کا نام جلاوطنوں کی ماں ہے، اور اس کے ہاتھ میں ایک مینار ہے جو آنے والوں کو خوش آمدید کہتا ہے

اور وہ اپنے خاموش ہونٹوں سے کہتی ہے، تھکے ہوئے اور غریبوں کو لے آؤ

اور ہجوم آزادی کی ہوا کے لیے تڑپ رہا ہے

ان بے گھر لوگوں کو میرے پاس بھیج دو

میں سنہری دروازے کے پاس اپنا چراغ بلند کرتی ہوں

ایک اندازے کے مطابق 3.5 ملین لوگ سالانہ مجسمے کا دورہ کرتے ہیں، اور اسے امریکی قومی ورثے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور یہ سنہ 1984 سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل ہے۔

فیری سیاحوں کو لبرٹی جزیرے پر لے جاتی ہے، جہاں یہ مجسمہ نصب ہے اور وہاں وہ سیڑھیوں سے اس تک پہنچ سکتے ہیں اور پھر یہاں سے وہ نیویارک بے اور اس کے گردونواح کو دیکھ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments