’اے سیکشوئلیٹی‘: بے جنسیت کیا ہے اور معاشرے میں اس بارے میں کیا غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں؟

کریم الاسلام - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


’تم میرے ساتھ سیکس کرو۔۔۔ میں تمہیں بتاؤں گا اصل مزا کیا ہوتا ہے۔‘

’مردوں کے بجائے تم عورتوں سے جنسی تعلق قائم کر کے دیکھو۔‘

’تم مختلف مردوں کے ساتھ سیکس کی کوشش کرو۔ اگر صحیح بندہ مل گیا تو تم ٹھیک ہو جاؤ گی۔‘

’تم نے مر تو جانا ہی ہے۔۔۔ جاتے جاتے کسی کے کام ہی آ جاؤ۔‘

یہ اور ایسے ہی بہت سے مشورے پاکستانی نژاد برطانوی بائیو میڈیکل سائنسدان ثنا کاردار کو اپنی تقریباً تمام زندگی سُننے کو ملے ہیں۔

لیکن آخر اِس کی وجہ کیا ہے؟ ثنا کا دعویٰ ہے کہ وہ ’اے سیکشوئل‘ ہیں یعنی اُنھیں جنسی تعلق یا سیکس کی خواہش نہیں ہوتی۔

بے جنسیت کیا ہے، ’اے سیکشوئل‘ افراد کون ہوتے ہیں اور معاشرے میں اِس بارے میں کیا غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، ہم نے جاننے کی کوشش کی ہے۔

’کسی کو چھونا یا دوسروں کا مجھے چھونا پسند نہیں‘

29 سالہ ثنا کاردار کا کہنا ہے کہ وہ مخالف جنس میں دلچسپی تو رکھتی ہیں لیکن صرف رومانوی حد تک۔ وہ سیکس، ایک دوسرے کو چھونے، گلے لگانے یا چومنے سے اجتناب کرتی ہیں۔

’مجھے بچپن ہی سے کسی کو چھونا یا دوسروں کا مجھے چھونا پسند نہیں تھا۔ مجھے کسی کو گلے لگانا یا چومنا بھی بُرا لگتا تھا۔ مجھے چھونے کے احساس سے اِس حد تک پریشانی ہوتی ہے کہ اگر قریبی رشتہ دار جیسے ماں باپ، بہن بھائی یا دوست بھی مجھے چھو لیں تو میں کئی دن تک پریشان رہتی ہوں۔‘

ثنا بتاتی ہیں کہ اُنھیں جنسی تعلق کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ وہ رومانٹک ڈِنر پر یا فلم دیکھنے یا عجائب گھروں اور آرٹ گیلریوں میں تو کسی مرد کے ساتھ جا سکتی ہیں لیکن اِس سے آگے نہیں۔

’لڑکپن میں جب میری فیمیل (خواتین) دوستوں کے بوائے فرینڈز تھے تو مجھے کبھی نہیں لگا کہ میرا بھی بوائے فرینڈ ہو۔ مجھے کسی کی طرف کوئی کشش محسوس نہیں ہوئی کہ فلاں لڑکا پیارا ہے اور مجھے اُس کے ساتھ ڈیٹ پر جانا چاہیے۔‘

’اے سیکشوئلیٹی‘ یا بے جنسیت کیا ہے؟

ماہرین کے مطابق بے جنسیت ایک جنسی رجحان ہے۔ جیسے لوگ دوسری جنس کی جانب جنسی رجحان رکھتے ہیں، ہم جنس پرست ہوتے ہیں بالکل اسی طرح کچھ لوگوں کا جنسی رجحان بے جنسیت ہوتا ہے۔

انڈیا کے شہر لکھنؤ میں مقیم ماہرِ نفسیات سواتی بھاگچندانی کے مطابق ’اے سیکشوئل‘ شخص کو کسی دوسرے مرد، عورت یا خواجہ سرا میں جنسی کشش محسوس نہیں ہوتی اور نہ ہی اُن سے جنسی تعلق یا سیکس کی خواہش ہوتی ہے۔

’اے سیکشوئل افراد پیار و محبت، قربت اور رومانوی تعلقات کی خواہش تو رکھ سکتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ وہ دوسروں کے لیے جنسی میلان بھی رکھتے ہوں۔ بے جنسیت میں بھی کئی طرح کے رجحان پائے جا سکتے ہیں۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جو کبھی کبھار اپنے پارٹنر کے اصرار پر جنسی عمل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ کچھ ’اے سیکشوئل‘ ایسے بھی ہوتے ہیں جو صرف اِس صورت میں سیکس کرتے ہیں جب وہ دوسرے شخص سے ذہنی طور پر ہم آہنگ ہو جائیں۔‘

سواتی کے مطابق بے جنسیت ایک ایسا رجحان ہے جو کسی انسان میں پیدائش کے وقت سے ہی موجود ہوتا ہے لیکن اِس کا احساس ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔ جب کوئی شخص بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد دوسروں کی جانب جنسی رغبت محسوس نہیں کرتا تب اُسے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ‘اے سیکشوئل’ ہے۔

پیار اور سیکس میں فرق

سیکس

ماہرِ نفسیات سواتی بھاگچندانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جیسے ہی کسی شخص کو احساس ہو کہ اُس میں ’اے سیکشوئل‘ افراد کی مخصوص علامات موجود ہیں وہ ماہرِ نفسیات سے رابطہ کرے۔

‘اکثر ’اے سیکشوئل‘ افراد سیکس کی خواہش نہ ہونے کی وجہ سے رومانوی تعلقات میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ معاشرتی دباؤ کے باعث خود کو ’نارمل‘ لوگوں سے مختلف محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اُنھیں ڈر ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنی حقیقت بتائیں گے تو خاندان اور معاشرہ اُنھیں تنہا چھوڑ دے گا۔‘

سواتی کے مطابق ماہرِ نفسیات ایسے لوگوں کو اپنی حقیقت کو تسلیم اور اُسے اپنانے میں مدد دیتے ہیں۔ اِس کے علاوہ اُنھیں پیار و محبت اور سیکس کے بارے میں فرق بھی سمجھایا جاتا ہے۔ اُنھیں بتایا جاتا ہے کہ سب کچھ صرف سیکس ہی نہیں بلکہ رومانوی جذبات بھی انسانی رشتوں کے لیے اہم ہوتے ہیں۔

’لوگوں نے مذاق اُڑایا‘

ثنا کاردار یاد کرتی ہیں کہ جب وہ یونیورسٹی میں تھیں تو اُنھوں نے پہلی بار بے جنسیت کے بارے میں پڑھا تھا۔ پھر جب اِس موضوع پر ریسرچ کی تو اُنھیں احساس ہوا کہ اِس رجحان کی تمام علامات اُن کے اندر موجود تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

سیکس کی خواہش ہی نہ ہو تو زندگی کیسی ہوتی ہے؟

’لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا میں خود لذتی کرتی ہوں‘

کیا جنسی کشش کے بغیر دوستی ممکن ہے؟

کیا عورت کا مرد کے ساتھ جبری سیکس کرنا ریپ ہے؟

’سب سے پہلے تو میں نے اپنی خواتین دوستوں سے بات کی۔ اُن کا ردعمل کافی غیر سنجیدہ تھا۔ اُنھوں نے مذاقاً کہا کہ ہاں ہاں شادی سے پہلے ہم بھی ’اے سیکشوئل‘ ہی تھے۔ پھر میرے مرد دوستوں پر یہ دُھن سوار ہو گئی کہ اِس کو تبدیل کرنا ہے۔ یہ رویہ بہت تکلیف دہ تھا۔‘

اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے پر جب ثنا کی والدہ نے اُن پر شادی کے لیے دباؤ ڈالا تو اُنھوں نے حقیقت بتا دی۔ ثنا کہتی ہیں کہ ’پہلے تو اُنھیں کچھ سمجھ نہیں آیا کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔ کافی عرصہ ہماری ناراضگی رہی اور اُنھوں نے مجھ سے بات چیت بند کر دی۔ بعد میں اُنھیں احساس ہوا اور پھر ہمارے تعلقات ٹھیک ہوئے۔‘

’شادی نہ کریں‘

ثنا کاردار کے خیال میں ’اے سیکشوئل‘ افراد کو شادی ہی نہیں کرنی چاہیے۔

’کیونکہ اگر معاشرتی دباؤ کے باعث کوئی ’اے سیکشوئل‘ لڑکی شادی کر لے تو پھر بات ’میریٹل ریپ‘ یا بیوی کے ساتھ زبردستی ہم بستری تک چلی جاتی ہے۔ اور اگر کوئی ’اے سیکشوئل‘ مرد زبردستی شادی کر لے تو پھر اُس کی بیوی غیر مطمئن رہتی ہے جو ناانصافی ہے۔

’اگر کوئی ’اے سیکشوئل‘ شادی کرنا چاہتا ہے تو کسی ایسے شخص سے کرے جو خود بھی ‘اے سیکشوئل’ ہو۔ یا اگر آپ کا پارٹنر خود ’اے سیکشوئل‘ نہیں ہے لیکن حدود کا احترام کر سکتا ہے اور کسی جسمانی تعلق کی کوشش نہیں کرتا تو ایسی صورت میں شادی کی جا سکتی ہے۔‘

فیس بُک گروپ

ثنا کاردار نے بے جنسیت کے بارے میں غلط فہمیاں دور کرنے اور ‘اے سیکشوئل’ افراد کے آپس میں روابط قائم کرنے کے لیے ایک فیس بُک گروپ بھی تشکیل دیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ اِس قسم کے سپورٹ گروپس سے لوگ ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ جذباتی مدد بھی فراہم کرتے ہیں۔

’کیونکہ میں سوشل میڈیا پر اعلانیہ بتاتی ہوں کہ میں ’اے سیکشوئل‘ ہوں تو گذشتہ سال کسی نے مجھے میسج کیا اور اپنی ایک دوست کے بارے میں بتایا کہ وہ ’اے سیکشوئل‘ ہیں۔ اُنھیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کس سے بات کریں کیونکہ پاکستان میں اب بھی بہت سے ’اے سیکشوئل‘ بدنامی کے ڈر سے حقیقت چُھپاتے ہیں۔‘

’تو میں نے اُس لڑکی سے بات کی اور اُسے مشورے دیے۔ اِس تجربے کے بعد میں نے یہ فیس بُک گروپ بنایا۔ اِس وقت ہمارے ساٹھ سے ستر ممبرز ہیں جنھیں مکمل جانچ پڑتال کے بعد گروپ میں شامل کیا جاتا ہے۔‘

’انگور کھٹے ہیں‘

ماہرِ نفسیات سواتی بھاگچندانی کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا کے قدامت پسند معاشرے میں اب بھی لوگ بے جنسیت کو سمجھ نہیں پائے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک دور ہے جو ہر کسی پر آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔ کچھ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی بیماری ہے جس کا علاج کروانا چاہیے۔

’میرے خیال میں معاشرے کو بے جنسیت کو کُھلے دل سے تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ ‘اے سیکشوئل’ افراد کے لیے برابری، عزت اور رواداری کے جذبات رکھیں۔ بے جنسیت کے بارے میں لاعلمی بھی اکثر متعصبانہ رویوں کا باعث بنتی ہے۔ ‘اے سیکشوئل’ افراد کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بے جنسیت کے بارے میں لوگوں کی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کریں تاکہ غلط تصورات کو ختم کیا جا سکے۔‘

ثنا کاردار کے تجربے میں لوگ پاکستان کے ہوں یا برطانیہ کے اُن کے لیے بے جنسیت کو سمجھنا اور قبول کرنا اب بھی بہت مشکل ہے۔

’کچھ لوگوں نے مجھے یہاں تک کہا کہ ’اے سیکشوئل‘ وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں کوئی شریکِ زندگی نہیں ملتا اور پھر ’انگور کَھٹے ہیں‘ کے مصداق وہ بے جنسیت کی طرف آ جاتے ہیں۔ بے جنسیت کے بارے میں ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے سیکس یا جنسی تعلق سے اجتناب کر رہا ہے۔ حالانکہ یہ ایسی چیز ہے جس پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں۔ اگر کوئی سیکس کرنے کی طرف مائل ہی نہیں ہو رہا تو وہ کیسے سیکس کرے۔‘

’مذاق نہ اُڑائیں‘

ثنا کاردار کے بقول کیونکہ معاشرہ یہ امید کرتا ہے کہ انسانی فطرت پر عمل کرتے ہوئے ایک مرد اور عورت آپس میں جسمانی تعلق قائم کریں گے اور بچے پیدا کریں گے اِس لیے لوگوں کے لیے یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ آخر ایک شخص سیکس کیے بغیر اپنی زندگی ہنسی خوشی کیسے گزار سکتا ہے۔

’میں کسی کے ساتھ سیکس کروں نہ کروں اِس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ لوگوں کو بس مزے لینے کا شوق ہے۔‘

’اگر کوئی کہہ رہا ہے کہ وہ ’اے سیکشوئل‘ ہے تو اُس کا مذاق نہ اُڑائیں بلکہ اُسے قبول کرنے کی کوشش کریں۔ اُسے تبدیل کرنے کی کوششش بھی نہ کریں اِس سے وہ کئی ذہنی مسائل کا شکار ہو سکتا ہے۔ اگر کسی کا بچہ ’اے سیکشوئل‘ ہے تو اُسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ اُس پر باتیں تھوپنے کے بجائے اُسے اِس قابل بنائیں کہ وہ خود تحقیق کرے اور اپنی آزاد رائے قائم کرے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments