آڈیو لیکس کی کہانی


پاکستان کو آزادی حاصل کیے تقریباً ́ پون صدی گزر چکی ہے۔ اگلے سال 14 اگست کو پاکستانی پلاٹینم جوبلی منانے کے اہل ہو جائیں گے۔ مگر سوچیے کیا ہم اپنی آزادی کا جشن شان و شوکت سے منانے کے اہل ہیں۔ کیا من حیث القوم ہم نے اپنے وطن کے وقار اور سربلندی کے لیے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ کیا ہم نے زبوں حال قومی اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے محنت کی ہے۔ کیا ہم لوگوں کو سستا اور فوری انصاف مہیا کر رہے ہیں۔ کیا عام آدمی کو ریلیف دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ یہ وہ سنجیدہ سوالات ہیں۔ جو ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔

وطن عزیز میں آج کل وڈیو اور آڈیو لیکس کا بہت چرچا ہے۔ ایک صحافی احمد نورانی نے ایک آڈیو ٹیپ جاری کی ہے۔ اس آڈیو ٹیپ کے مطابق میاں ثاقب نثار مبینہ طور پر کسی ماتحت عدالت کے جج کو ہدایات جاری کرتے ہیں کہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو ہر حال میں سزا سنانی ہے۔

سابق چیف جسٹس نے حسب توقع آڈیو ٹیپ کو جھوٹ پر مبنی قرار دیا ہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر کے نجی ٹی وی چینل نے آڈیو ٹیپ کو جعلسازی سے تعبیر کرتے ہوئے اسے سابق چیف جسٹس کی 2018 میں کی گئی ایک تقریر کا چربہ قرار دے دیا ہے۔

اگر اس آڈیو ٹیپ کی حقیقت کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ کہ کوئی چیف جسٹس اتنا بے وقوف بھی ہو سکتا ہے۔ کہ وہ اپنے کسی ماتحت جج کو براہ راست فون کر کے اس طرح کی ہدایت دے۔ وہ کوئی اور طریقہ بھی اختیار کر سکتا تھا۔ اس جج کو چیمبر میں بھی بلایا جا سکتا تھا۔ یا کسی ادارے کا کوئی فرد اس جج کو ڈکٹیٹ کر دیتا۔ بہرحال کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ اس کا پتہ آنے والے کچھ عرصے کے دوران ہو گا۔

مگر افسوس اس بات کا ہے۔ کہ ہماری سیاست کا یہ رخ انتہائی شرمناک ہے۔ اس طرح کی بلیک میلنگ جمہوری اقدار بالخصوص شرافت کی سیاست کے لئے نیک شگون بالکل نہیں ہے۔ آڈیوز اور وڈیوز کو سہارا بنا کر اپنے آپ کو پارسا اور فریق مخالف کو جھوٹا ثابت کرنے کا یہ کھیل ٹیکنالوجی کے جدید دور میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ البتہ اس قیامت خیز مہنگائی میں لوگوں کو چند دن اس تماشے سے لطف اٹھانے کا موقع ضرور مل جائے گا۔

البتہ ماضی میں سیاست دانوں کو سزا دینے کے لئے ججز کو استعمال کیا جاتا رہا۔ آج کے زیرعتاب شریف خاندان نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو سزا دلوانے کے لئے جسٹس قیوم کو اپروچ کیا تھا۔ اس حوالے سے سیف الرحمن اور جج ملک قیوم کی آڈیو ٹیپ تاریخ کے اوراق میں بطور ثبوت درج ہے۔

اگر ہم اور پیچھے چلے جائیں تو جناب بھٹو کے عدالتی قتل نے عدلیہ کے منہ پر سیاہی مل رکھی ہے۔ جسے مٹانا بہت ہی مشکل ہے۔

وڈیو کلپ میں سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے مرحوم سسر جسٹس نسیم حسن شاہ فرما رہے تھے۔ اگر جج پر دباؤ ہو تو اسے اپنی نوکری بچا لینی چاہیے۔ ان کی اس بات کا مطلب تھا۔ اگر انصاف پر مبنی فیصلہ کرتے وقت کسی طرف سے جبر اور دباؤ آ جائے۔ تو فیصلہ تبدیل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ بس اپنی کرسی بچا لینی چاہیے۔ خواہ کسی بے گناہ کو پھانسی کی سزا ہی کیوں نہ دینا پڑے۔ جناب بھٹو کو جس گھناؤنے طریقے سے موت کی سزا سنائی گئی۔ وہ بھی ہماری عدالتی تاریخ کا ایک سیاہ واقعہ ہے۔

دوسری طرف جمہوریت کا جو حال ہے۔ وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ چند سیاسی جماعتوں اور غیر جمہوری قوتوں کے گٹھ جوڑ نے جمہوریت کے پودے کو تناور درخت بننے ہی نہیں دیا۔ کہا جاتا تھا کہ بدترین جمہوریت آمرانہ نظام حکومت سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔ مگر اس وقت ملک میں جو جمہوری ڈھانچہ قائم ہے۔ اس نے آمریت کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

پارلیمنٹ اپنی آزادی اور خود مختاری بڑی حد تک کھو چکی ہے۔ پچھلے دنوں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں 33 بل صرف 33 منٹ میں منظور کرا لیے گئے۔ نہ اراکین پارلیمنٹ کو ان بلوں پر اظہار خیال کی اجازت ملی۔ اور نہ ہی اپوزیشن کو اس اہم ترین قانون سازی پر اعتماد میں لیا گیا۔ شاید حکمران 19 نومبر سے پہلے ان بلوں کو پاس کرانا چاہتے تھے۔ جب قانون سازی کا عمل مکمل ہوا۔ تو حکومتی بنچوں پر جشن کا سا سماں تھا۔ جیسے انہوں نے دشمن کا کوئی قلعہ فتح کر لیا ہو۔

کسی ان دیکھی قوت کی مدد سے کی گئی قانون سازی پر کسی حکومتی رکن اور وفاقی وزیر کے چہرے پر شرمندگی کا ہلکا سا تاثر بھی نہیں پایا جاتا تھا۔ جب پارلیمان کو ربر سٹیمپ کی طرز پر چلایا جائے گا۔ اور قانون سازی کو بلڈوز کیا جائے گا۔ تو کیا جمہوری اقدار کا جنازہ نہیں نکلے گا۔ پارلیمان کے سپریمیسی پر حرف نہیں آئے گا۔ اس سے بہتر ہے آپ پارلیمان میں انسانوں کے بجائے روبوٹ بٹھا دیں۔ اس طرح اخراجات میں بھی بڑی کمی آئے گی۔

تحریک انصاف کی موجودہ حکومت بلند و بانگ نعروں کے ساتھ اقتدار کی مسند پر براجمان ہوئی تھی۔ مگر تین سال گزرنے کے باوجود بھی وہ اپنی سمت واضح نہ کر سکی۔ اور نہ ہی عوام کی امیدوں پر پورا اتر سکی۔

مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہے۔ کہ لوگ واقعی گھبرانا شروع ہوچکے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے۔ کہ ریاست مدینہ کی دعوے دار حکومت آئی ایم ایف کے تمام مطالبات مانتے ہوئے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کرنے جا رہی ہے۔ خزانے اور توانائی کے وزراء نے ایک پریس ٹاک میں بتایا ہے۔ کہ بجلی اگلے چند ماہ کے دوران مزید مہنگی ہوگی۔ اس کے علاوہ پٹرولیم کی مد میں لیوی میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا جائے گا۔ کاش حکومت عوام کا کچومر نکالنے کے بجائے اپنے شاہانہ اخراجات کم کرتی۔ اس کے علاوہ بڑے مگر مچھوں سے ٹیکس وصول کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کیے جاتے۔

تحریک انصاف کی حکومت کرپشن ختم کرنے کا نعرہ بلند کر کے اقتدار میں آئی تھی۔ مگر تین سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود وہ کسی کرپٹ سیاستدان یا کسی دوسرے شعبے سے تعلق رکھنے والی کرپٹ شخصیت کو پکڑ نہیں سکی۔ نیب جس کو گرفتار کرتا ہے۔ وہ کچھ عرصے بعد ضمانت پر چھوٹ جاتا ہے۔ اگر نیب کرپٹ لوگوں سے لوٹی ہوئی دولت نکلوا لیتا تو عوام پر مہنگائی کا بوجھ قدرے کم ہو سکتا تھا۔

نیب جیسا ادارہ جسے بلا امتیاز ہر شخص جس کے ہاتھ کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں کا کڑا احتساب کرنا چاہیے۔ مگر موجودہ حکومت اسے اپوزیشن راہنماؤں کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ تین سالوں کے درمیان چینی، گندم، پٹرولیم اور دیگر شعبوں میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی۔ اور سونے پر سہاگہ کرپشن کی بہتی ہوئی گنگا میں حکومتی ارکان نے ہاتھ رنگے۔ مگر نیب نے بوجوہ ان سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔ بدقسمتی سے نیب کے متنازعہ کردار نے احتساب کے بیانیے کو بہت ٹھیس پہنچائی ہے۔

اگر آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانا مقصود ہے۔ اگر ہم ملک کا وقار بحال کرنا چاہتے ہیں۔ تو تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہنا ہو گا۔ غیر جمہوری قوتوں کو کندھا فراہم کرنے سے اجتناب برتنا ہو گا۔ پارلیمنٹ کو سپریم بنانا ہو گا۔ یعنی تمام فیصلے پارلیمنٹ کے ذریعے طے کرنا پڑیں گے۔ اور ذاتی مفادات اور عناد کو پس پشت ڈال کر صرف ملک کی ترقی کے لئے کام کرنا ہو گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے بڑے عہدوں پر فائز شخصیات کے اختیارات کا ازسر نو جائزہ لے کر ان میں توازن پیدا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ تاکہ ان میں سے کوئی اپنے جامے سے باہر نہ نکل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments