انسان کی فطرت


باغ میں پھول کی کلیوں کو کاٹتے کاٹتے ایک بات کا احساس ہوا جیسے کہ یہ پھول کچھ سمجھانا چاہ رہے ہو۔ کہ جس طرح میں کھلکھلاتا ہوا باغ میں اپنی خوشبو سے ہر طرف شور مچاتا رہا اور تمہارے دل کو بھا گیا تو تم نے پہلے خود کاٹا مجھے، اپنا بنایا پھر کچھ لمحے بعد جب دل بھر آیا تو میری ایک ایک پتے کو توڑ کر پھینک رہے ہو۔ بعد میں پھر پاؤں تلے مسل دو گے۔ کیا بس اتنی تک ہی تھی تمہاری لگن کہ دل بہلانے کے بعد مسل دو۔ تم انسانوں کی یہ فطرت کیوں ہے کہ کھلکھلاتی چیز کو اپنے مطلب کے لئے مسل دیے ہو۔

پھر جیسے میں چونک اٹھی کہ واقعی یہ ہماری فطرت ہے کہ ہم ہر چہکتی ہوئی چیز ہو یا انسان کو، جو اپنی خوشی و مستی کا شور ہر طرف مچاتے ہیں۔ اس سے دل لگا لیتے ہیں۔ اور پھر جب دل بھر جاتا ہے تو اس کی شور کو اس کے جذبات کو مسل دیتے ہیں۔ پھر وہ اگر سوال کریں تو اس کو اسی کی نظروں میں ہم گرا دیتے ہیں۔

پھول کے ایک ایک پتے کی طرح انسانوں کی دل کے ایک ایک ذرے کو ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں کہ جب وہ مرجھا جائے تو بس مسل کر اگے بڑھ جاتے ہیں۔

یہی سوچ رہی تھی میں کہ پھول کے جیسے جب تک ہم رہتے ہیں۔ اس کی طرح تروتازہ ہوتے ہے ہر ایک کہ دل میں سمائے ہوئے ہوتے ہے۔ اس طرح جب تک ہم لوگوں کے ساتھ ہنستے مسکراتے ہیں۔ ہم ان کی زندگی میں رہتے ہیں۔ جیسے ہی پھول کی طرح مرجھا جائے لوگ پاؤں تلے مسل دیتے ہیں۔

کسی نے مجھ سے کہا کہ خود کو پھول کے مانند بناؤ۔ پھول کو حاصل کرنے سے پہلے کانٹوں سے ہو کے گزرنا پڑتا ہے تو تم تک پہنچنے کے لئے پہلے لوگ کانٹوں سے ہو کہ گزرے جو تمہیں واقعی میں زندگی میں شامل کرنا چاہیے تو وہ کر لے گی ورنہ نہیں۔

میں نے جواب دیا کہ جناب لوگ پھولوں کو بھی بعد میں مسل دیتے ہیں مجھے پھول نہیں بننا۔ ذاتی طور پر کسی کا نہیں ہونا۔

لوگ مسل دیتے ہے جذبات کو، کہ جب آپ کی خوشی و خوشبو ہر جانب پھیلی ہوتی ہے لوگ خودبخود آپ سے واسطہ ہر طرح سے رکھے گہ۔ لیکن جیسے ہی سب ختم تو لوگ مسل دے گہ۔

جب تک ہم ان کے ساتھ ہنستے مسکراتے ہیں تو لوگوں کا مجمع ساتھ ہو گا لیکن جیسے ہی آپ ان پر حق جتاؤ گے۔ تو بس تمہیں پاؤں تلے ایسے مسل دے گہ کہ جسے تم سے بد تر کوئی نہیں۔

اس سے یہی سب ہمیں سیکھ لینا چاہیے کی کبھی بھی وقتی دل لگی پر خوش نہیں ہونا چاہیے اور خود کو اتنا نہیں پیش کرنا چاہیے کہ لوگ مسل کہ رکھ دے۔ اپنی خوشبو کو خود تک ہی محدود کرنا چاہیے کہ کوئی ہمارے جذبات کو نہ ٹھیس پہنچائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments