سوال گندم جواب چنا


امریکہ کے افغانستان سے انخلاء اور وزیراعظم عمران خان کو ٹیلی فون کال نہ کرنے کے شور کے بیچ میرے دماغ میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے وائٹ پریس سیکریٹری سے رابطہ کرنے کا سوچا۔ اس مقصد کے لئے افغانستان سے انخلاء کے اقدام، امریکہ کی مستقبل کی پالیسی اور پاکستان کو مستقل پر نظر انداز کرنے سمیت دیگر امور پر ایک تفصیلی سوالنامہ ای میل کیا۔ اس ای میل کا جواب کوئی دو ماہ کے بعد موصول ہوا۔ یہ جواب پڑھ کر مجھے عمران خان صاحب کی یاد آ گئی۔ جس طرح ہمارے وزیراعظم عمران خان کو ہر سوال کے جواب میں تقریر کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ویسا ہی اس جوابی ای میل نما تقریر سے تاثر ملا۔

لیکن ایک بات کی تو داد دینی پڑے گی، امریکی انخلاء اور اس کے بعد کی صورتحال کی پوری طرح سے ذمہ داری لی گئی تھی۔ افسوسناک یا مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان صاحب کو فون کال نہ کرنے کا جواب ایک بار پھر گول کر دیا گیا۔ جس پر مجھے ہنسی بھی آئی اور افسوس اس بات کا ہوا کہ میرے اندر کے صحافی کے اس ارمان پر اوس پڑ گئی کہ شاید اس موضوع پر تھوڑی بہت بات کر کے میری نیوز بن جانے کا موقع مل جائے گا۔ میرے اس سوال پر کہ افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کے بجائے ٹارگٹڈ کارروائی کی جاتی تو کیا بہتر نہ ہوتا۔ یہ جواب ملا کہ نائن الیون کے بعد چونکہ افغانستان القاعدہ کا لانچنگ بیس تھا۔

ایسی صورتحال میں امریکہ کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا تھا کہ وہ وہاں پر اس وقت کی حکومت اور القاعدہ کے بیس کیمپ کو تباہ کرنے کے لئے جنگ مسلط کرے۔ اس بیس سالہ جنگ کا مرکزی ٹارگٹ اسامہ بن لادن کو قرار دیتے ہوئے بیس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد لاحاصل جنگ قرار دیا گیا۔ جواب کے مطابق صدر بائیڈن کی جانب سے صدارت سنبھالنے کے بعد یہی آپشن ہی بچا تھا کہ وہ مزید فوجی ایک لاحاصل جنگ میں جھونک دیتے۔ یا پھر دوسرا راستہ یہ تھا کہ سابقہ انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے فوجیوں کو واپس بلانے کا مناسب مگر کڑوا گھونٹ پی لیتے۔

افغانی عوام کا مستقبل کیا ہو گا اور کیا پاکستانی سرزمین کو وہاں پر کاروائیوں کے لئے استعمال کیا جائے گا کے سوال کے جواب میں اس بات کو دہرایا گیا کہ امریکہ افغان عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔ امریکی حکام عالمی دنیا کے ساتھ مل کر افغانی لوگوں کی مدد اور ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتے رہیں گے۔ جبکہ افغانستان میں کسی بھی ایسے ٹارگٹ کو جو کہ امریکہ کے لئے خطرہ ہو گا کے خلاف نہ صرف ایکشن لیا جائے گا۔ بلکہ ایسی کسی تنظیم کو پنپنے سے پہلے ہی ختم کرنے کے لئے ہر ممکن سخت کارروائی ہوگی۔ جس کی مثال امریکہ کی ”اوور دی ہورائزن“ پالیسی کی صورت میں دی گئی۔ اس پالیسی کے تحت امریکہ دنیا بھر میں کہیں بھی زمینی، فضائی کارروائی کرتا ہے۔ اسی ہی پالیسی کے تحت پاکستان میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔

یہاں افسوسناک امر یہ ہے کہ امریکی صدر نہ تو عمران خان سے رابطہ کرنے کو تیار ہیں، نہ ہی اس کو مسئلہ سمجھا گیا ہے۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ آخر ایسی کون سی وجوہات ہیں کہ امریکہ پاکستان کو مکمل طور پر نظر انداز کر رہا ہے۔ جب سے نئی انتظامیہ نے چارج سنبھالا ہے تب سے بس امریکی وزیرخارجہ کے ایک دفعہ کے دورے کے علاوہ کوئی قابل ذکر امریکی عہدیدار نے نہ تو پاکستان سے کوئی رابطہ کیا نہ ہی دورہ کیا گیا ہے۔

یہ دراصل ہماری پراکسیز بنانے اور ان کی ببانگ دہل حمایت کرنے کا یہ نتیجہ ہے کہ پاکستان اس وقت عملی طور پر تنہائی کا شکار ہے۔ نہ صرف ایف اے ٹی ایف کی جانب سے گرے لسٹ سے نکالنے کے لئے لیت و لعل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ بلکہ افغانستان میں ہمارے کردار کے باوجود بھی اس کی تحسین کے بجائے سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس وقت ہمیں اندرونی سیاست اور اداروں کے خلاف مہم جوئی کے بجائے ایک بیانیہ کی ضرورت ہے۔ وگرنہ ہم ایسے ہی تنہائی کا شکار رہ کر معاشی اور سفارتی طور پر کمزور سے کمزور ہوتے جائیں گے۔ ویسے مجھے وائٹ ہاؤس انتظامیہ سے بھی گلہ ہے کہ جنہوں نے رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت بھیجی جانے والی سوالنامہ پر مشتمل ای میل پر ایک تقریر اٹھا کر بھیج دی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments