خدا کے ساتھ ایک دلچسپ مکالمہ


خوشونت سنگھ انگریزی لکھاریوں میں ایک اہم اور اچھوتا مقام رکھتے تھے۔ نواسی کتب کے مصنف خوشونت دلچسپ لہجے میں برہنہ سچ بولنے اور اپنی بر جستہ ظرافت کی وجہ دنیا بھر میں جانے جاتے تھے۔ وہ اپنے اوپر ہنسنے کا فن جاتے تھے۔ یہ افسانچہ ان کی کتاب: ”گاڈ اینڈ گاڈ مین آف انڈیا“ سے لیا گیا ہے، جو ”ہیلو گاڈ“ کے عنوان سے کتاب میں موجود ہے۔ راقم نے اس سٹوری کو دلچسپ جان کر اردو میں ترجمہ کیا ہے :

کلکتہ کی عرونہ کپور نے مجھے خوشگوار انداز تحریر بھیجی ہے۔ یہ ان کا خدا کے ساتھ ایک تصوراتی انٹرویو ہے۔ میں اس کو اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔

میں نے خواب میں اپنے آپ کو خدا سے انٹرویو کرتے دیکھا ”
عرونہ : جی مگر آپ کے پاس وقت ہو تو۔

خدا : (مسکراتے ہوئے ) میرا وقت جاودانی ہے جو کوئی بھی کام کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ آپ کے پاس میرے لیے کیا سوالات ہیں؟

عرونہ : آپ کو انسانوں کی کون سی بات سب سے زیادہ حیران کرتی ہے؟

خدا: جب انسان بچہ ہوتا ہے تو بے چین رہتا ہے کہ جلد از جلد بڑا کیوں نہیں ہوجاتا۔ لیکن جب بڑا ہو جاتا ہے تو دوبارہ بچہ بننا چاہتا ہے۔

انسان پیسے کمانے کی دوڑ میں اپنی صحت کھو بیٹھتا ہے اور پھر صحت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے اپنی کمائی ہوئی دولت لٹاتا پھرتا ہے۔

انسان اپنے مستقبل کے بارے میں خدشات کا شکار رہتا ہے۔ وہ اتنا بے چین ہوتا ہے کہ اپنے حال کو بھول جاتا ہے۔ اب وہ نہ تو حال کے لئے زندہ ہوتا ہے اور نہ مستقبل کے لئے۔ گویا انسان دنیا میں ایسے جیتا ہے جیسے اس نے کبھی مرنا ہی نہیں اور ایسے مرتا ہے جیسے کبھی جیا ہی نہیں۔

(خدا نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے اور ہم کچھ دیر کے لیے بالکل خاموش ہو گئے۔ )

عرونہ : والد کے طور پر آپ ہم بچوں ( انسانوں ) کو ایک خوشگوار زندگی بسر کرنے کے لئے کیا بتانا پسند کریں گے؟

خدا: ( مسکراتے ہوئے ) انسان یہ باور کر لے کے وہ کسی کو اپنے ساتھ پیار کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ البتہ وہ یہ ضرور کر سکتا ہے کہ اپنے آپ کو محبت کے لائق بنائے۔ اور یہ کہ آپ کے پاس کیا ہے یہ ہرگز ہم نہیں بلکہ یہ اہم ہے کہ آپ کے پاس کون ہے؟

کبھی اپنا موازنہ دوسروں سے نہ کریں۔ اور یہ کہ امیر انسان وہ نہیں ہوتا جس کے پاس بہت ساری دولت ہوں بلکہ امیر آدمی وہ ہوتا ہے جس کی ضروریات کم سے کم ہوں۔

ان لوگوں کو جن سے ہم پیار کرتے ہیں ان کو ہم سے زخم چند لمحوں میں لگ جاتے ہیں مگر ان زخموں کو مندمل ہونے میں عمریں بیت جاتی ہیں۔

یہ بھی کہ اس دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو آپ سے پیار کرتے ہیں مگر ان کو اس کا اظہار کرنا نہیں آتا اور وہ اپنے جذبات ظاہر نہیں کر پاتے۔

دولت سے ہر چیز خریدی جا سکتی ہے ماسوائے خوشی کے۔
اور یہ کہ دو افراد ایک ہی شے کو دیکھتے ہوئے ایک دوسرے سے یکسر مختلف رائے رکھ سکتے ہیں۔
اور یہ کہ سچا اور کھرا دوست وہ ہوتا ہے جو آپ کے بارے میں سب کچھ جاننے کے باوجود آپ کو پسند کرتا ہے۔

اور یہ کافی نہیں کہ لوگ آپ کی خطائیں معاف کرتے ہیں بلکہ آپ خود بھی اپنے آپ کو معاف کرنا سیکھیں۔ ”“ ”

”میں کچھ دیر خدا کے ساتھ خاموش بیٹھی رہی مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔ میں نے خدا کا شکریہ ادا کیا۔
پھر خدا نے مجھے ایک چھوٹی سی نظم سنائی:
” آپ نے کیا کہا۔ لوگ بھول جاتے ہیں
آپ نے کیا کیا۔ لوگ بھول جاتے ہیں۔
مگر آپ نے ان کو کیا محسوس کروایا۔
لوگ یہ کبھی نہیں بھولتے ”

خوشونت سنگھ 6 فروری 1915 کو ( ہڈالی) خوشاب (پاکستان ) میں پیدا ہوئے۔ اکثر تخلیق کاروں کی طرح خوشونت سنگھ کو بھی 35 سال کی عمر تک اپنا اصلی شوق یا عشق یا پیشن معلوم نہ ہو سکا۔ لہذا انہوں نے بھی مختلف شعبوں میں طبع آزمائی کی۔ جن میں وکالت، سفارت، سیاست اور صحافت شامل ہیں۔ 1950 میں ان کو ادراک ہوا کہ ان کے اندر ایک ہونہار لکھاری پرورش پا رہا ہے۔ اس کے بعد ان کی پہلی کتاب ”دی مارک آف وشنو اینڈ ادر سٹوریز“ لندن میں شائع ہوئی۔

اس کے بعد انہوں نے لکھنا نہیں چھوڑا۔ (ناول) ”ٹرین ٹو پاکستان“ (تحقیقی ادب) ہسٹری آف سکھ ”۔“ آئی شیل ناٹ ہیری دی نائٹ انگیل ”دھلی“ (ناول) ۔ سچ محبت اور ذرا سا کینہ (سوانح عمری) ”بریل ایٹ سی“ ( ناول) بہت مشہور ہوئی۔ ان کے ناول کمپنی آف وومن کو فحش نگاری کے الزام کا سامنا کرنا پڑا، پاکستان میں روایتی سوچ کی حامل اشرافیہ و اہل اقتدار نے اس کتاب کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی۔ جس کے نتیجے میں اہل شوق نے یہ کتاب باہر سے منگوا کر پڑھنی شروع کردی اب یہ کتاب ایماذان پر بھی موجود ہے۔

خوش ونت سنگھ، ہندوستان ٹائمز، السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا اور نیو یارک ٹائمز میں سال ہا سال کالم نگار اور مدیر رہے۔ وہ ایک منجھے ہوئے صحافی، مستند ادیب اور جدید کالم نگار تھے۔ مگر ان کی وجہ شہرت ان کے ناول اور افسانے ہیں۔

خوشونت سنگھ 2004 میں 99 سال کی عمر میں دہلی میں وفات پا گئے۔ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments