بڑے ناموں والی جامعات کی ناقص کارکردگی


ہمیشہ کی طرح آج بھی وطن عزیز میں سیاست کا بازار گرم ہے۔ اخبارات اٹھائیں، کسی ٹی۔ وی چینل پر حالات حاضرہ کا کوئی ٹاک شو دیکھیں، کسی سیمینار میں جائیں یا محفل میں بیٹھیں، ایک ہی جیسی باتیں سننے میں آتی ہیں۔ ان باتوں کا دائرہ عموماً سیاست ہی کے گرد گھومتا ہے۔ ایک فریق کا کہنا ہے کہ ملک میں بہت بڑی انقلابی تبدیلی آ چکی ہے جس نے ملکی تاریخ کو مکمل طور پر بدل ڈالا ہے۔ معیشت آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کے وقار میں بے انتہا اضافہ ہو گیا ہے۔

عوام ترقی و خوشحالی کے راستے پر چل پڑے ہیں اور ملک تیزی کے ساتھ اوپر کی طرف اٹھ رہا ہے۔ دوسرا فریق کہتا ہے کہ ملک شدید بد حالی، تباہی اور بربادی کے گڑھے میں گر چکا ہے۔ دنیا میں اس کی کرنسی، اس کے پاسپورٹ، اس کے نظام قانون اور انصاف کا گراف گرتا جا رہا ہے۔ معیشت تباہ ہو چکی ہے اور عوام مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان وہ کروڑوں عوام ہیں جن سے کوئی براہ راست نہیں پوچھ رہا کہ وہ کس حال میں ہیں۔

میرا تعلق تعلیم و تدریس کے شعبے سے ہے اس لئے میں عموماً ایسی خبروں کو توجہ سے پڑھتی ہوں جن کا تعلق تعلیم سے ہو۔ ایسی ہی ایک خبر ہفتہ کے روز، ”روزنامہ نئی بات“ میں پڑھنے کو ملی۔ پہلے آپ ذرا یہ خبر ملاحظہ فرمائیں۔ ”سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و فنی تربیت کے اجلاس میں ہائیر ایجوکیشن کے حکام نے انکشاف کیا ہے کہ ملک کی بہترین قرار دی جانے والی جامعات کا معیار تعلیم گر رہا ہے۔ کئی جامعات نے معیار تعلیم سے متعلق ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو ریکارڈ ہی فراہم نہیں کیا۔

کمیٹی کے چیئر مین سینیٹر عرفان صدیقی نے ملک بھر کی پانچ پبلک سیکٹر جامعات کے ریسرچ جرنلز اور ان میں لکھے جانے والے تحقیقی مقالہ جات کو جانچنے کے لئے ایک تین رکنی سب کمیٹی بھی قائم کر دی ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لئے قائم کردہ سیل کی طرف سے ملک کی 91 جامعات کے بارے میں مرتب کردہ جائزے کے مطابق ملک کی 32 لیڈنگ جامعات کے معیار تعلیم میں کمی آئی ہے۔“

معروف انگریزی اخبار ڈان نے کمیٹی کی کارروائی کی تفصیلات میں بتایا ہے کہ غیر تسلی بخش معیار کی حامل 32 یونیورسٹیوں میں سے دس کا تعلق خیبر پختونخوا ، 9 کا پنجاب، 5 کا سندھ، 2 کا آزاد کشمیر اور ایک کا گلگت بلتستان سے ہے۔ ناقص کارکردگی کی حامل جامعات میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، یونیورسٹی آف کراچی، پشاور یونیورسٹی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، قائد اعظم یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کوئٹہ، شاہ عبدالطیف یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان، انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد، گومل یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان، ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ، عبدالولی خان یونیورسٹی پشاور، PIDE، نیشنل کالج آف آرٹس لاہور، صوابی یونیورسٹی، سوات یونیورسٹی، تربت یونیورسٹی، کوٹلی یونیورسٹی آزاد کشمیر، ویمن یونیورسٹی ملتان، باچا خان یونیورسٹی چار سدہ، خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کڑک، انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی پنجاب، غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان، گورنمنٹ صادق کالج ویمن یونیورسٹی بہاولپور، خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ ٹیکنالوجی رحیم یار خان، بلتستان یونیورسٹی اور مردان یونیورسٹی شامل ہیں۔

یونیورسٹیوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ایک باقاعدہ نظام وضع کر رکھا ہے۔ تمام سرکاری جامعات کو ایک سوالنامہ ارسال کیا جاتا ہے جسے پر کر کے وہ کمیشن کو بھیجتی ہیں۔ فراہم کردہ معلومات اور اعداد و شمار کے مطابق ہائیر ایجوکیشن کمیشن ہر یونیورسٹی کا سکور طے کرتا ہے۔ اگر یہ سکور پچاس فی صد سے کم رہے تو اس کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش (unsatisfactory) قرار دیا جاتا ہے۔ میں کوشش کروں گی کی کمیشن کی رپورٹ کی کاپی مل جائے تاکہ قارئین کو آگاہ کیا جا سکے کی پچاس فی صد سے زائد نمبر لینے والی جامعات میں سے کس کا درجہ کیا ہے۔

میں نے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت کو نہایت متحرک کمیٹی خیال کیا جاتا ہے جو جامعات کو درپیش حقیقی مسائل کو اجاگر کر رہی ہے۔ اس کمیٹی کو کریڈٹ دینا چاہیے کہ اس کے ذریعے قوم کو اپنی سرکاری جامعات کی کارگزاری کا پتہ چلا ہے جو دراصل عوام ہی کے خون پسینے کی کمائی سے چل رہی ہیں۔ اسی کمیٹی کے ایک اجلاس میں ملک کی پانچ بڑی جامعات کے وائس چانسلر صاحبان نے شرکت کی تھی اور بتایا تھا کہ انہیں کتنی شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے رئیس الجامعہ نے انکشاف کیا تھا کہ ان کے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ وہ لیبارٹریز کے تجربات کے لئے کیمیکلز خرید سکیں۔

اس صورتحال کو کیا نام دیا جائے؟ درد ناک، افسوسناک، یا شرمناک؟ ہمارے دعوے دیکھیں اور عملی کارکردگی پر نگاہ ڈالیں۔ میں نے گزشتہ کالم میں بتایا تھا کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں جنہیں قوم کا مستقبل کہا جاتا ہے۔ اس وقت اڑھائی سے تین کروڑ تک وہ بچے سکولوں سے باہر ہیں جنہیں سکولوں میں کسی نہ کسی درجے کی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہونا چاہیے تھا۔ مجال ہے کسی کے کان پر جوں بھی رینگے۔ تدریسی عمل سے باہر ان بچوں کی تعداد میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

اب جامعات کی صورتحال سامنے آئی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو کیا تعلیم دے رہے ہیں۔ اول تو بہت کم نوجوان یونیورسٹی سطح کی تعلیم تک پہنچتے ہیں۔ آج بھی کم و بیش 22 لاکھ نوجوان مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔ یہ تعداد ہماری آبادی کی صرف ایک فیصد بنتی ہے۔ اگر اس وقت ان نوجوانوں کو بھی معیاری تعلیم نہیں مل رہی تو اس کے پاکستان کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ہم کس طرح دنیا کی دوسری قوموں کا مقابلہ کریں گے؟

جواز ایک ہی پیش کیا جاتا ہے کہ ہمارے پاس پیسہ نہیں۔ مانا کہ ملک مالی وسائل کے حوالے سے مضبوط نہیں لیکن کہیں نہ کہیں رک کر ہمیں یہ تو سوچنا پڑے گا کہ کن کن مدات کے اخراجات میں کمی کر کے ہم تعلیم و تربیت کو مطلوبہ وسائل فراہم کر سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ یونیورسٹیوں کی ناقص کارکردگی کا محاسبہ کون کرے گا؟ کون بہتری لانے کے اقدامات کرے گا؟ ہم تین سال سے صرف ایک ہی بات کا تذکرہ سن رہے ہیں اور وہ ہے ”یکساں نصاب تعلیم“ کوئی یہ تو دیکھے کہ تعلیمی عمل کس تیزی سے زوال کا شکار ہے۔ کوئی یہ تو سوچے کہ اس زوال کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ کوئی یہ تو بتائے کہ کارکردگی کا یہ عالم ہے اور تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں تو ”یکساں نصاب تعلیم“ کیا کرے گا؟ لیکن چاروں طرف بس سیاست کا ڈنکا بج رہا ہے۔ قوم کے مستقبل کی کس کو پرواہ ہے۔

۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments