بوجھ


”غیرت مند ہوتی تو اپنا جنازہ بھی شوہر کے ساتھ اٹھوا لیتی اور کچھ نہیں تو بچیوں کو تو سسرال میں چھوڑ کر آتی یہاں اپنے خرچے پورے نہیں ہو رہے کہ اب ان کی بچیوں کو بھی پالو“ ۔ رانیہ اپنی عدت پوری ہونے کے بعد میکے لوٹی تو نازیہ بھابھی کا پارہ سوا نیزے پر پہنچ گیا اور اب وہ اس کا اظہار کھلے عام کر رہی تھیں۔

٭ ٭ ٭

”امی آپ کو میری شادی کی اتنی جلدی کیوں ہے؟ مجھے ماسٹرز کرنا ہے“ ۔ رانیہ نے ماں کے آگے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ ”مجھے ایک بات بتاؤ تمھاری فیسیں کون بھرے گا تمھارے باپ کی پینشن سے پہلے ہی خرچے مشکل سے پورے ہوتے ہیں اور رہا تمھارا بھائی اس سے کچھ کہو تو جواب ہوتا ہے اماں میرے اپنے بیوی بچے ہیں“ ۔ ”امی میں سرکاری یونیورسٹی میں داخلہ لوں گی اور ٹیوشن پڑھا کر فیس ادا کردوں گی“ ۔

”نہیں بھئی نہیں! میری بوڑھی ہڈیوں میں اتنی جان نہیں کہ میں تمھارے یہ چونچلے برداشت کر سکوں کماؤ پوت لڑکا ہے، خاندان بھی اچھا ہے، شادی کرو گھر بساؤ میری جان چھوڑو“ ۔ ”امی نہیں کرتی ماسٹرز کم از کم بیوٹیشن کا کورس ہی کرنے دیں ڈگری یافتہ نہیں ہنر یافتہ تو ہوں گی“ ۔

”یہ ساری باتیں فالتو اور فضول ہیں گھرداری سیکھو اور شادی کے لیے ہی خود کو تیار کرو“ ۔
٭ ٭ ٭

رانیہ کے ساتھ بھی وہی ہوا جو پاکستان کی اسی فیصد لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے محض انٹر کے بعد ہی صرف لڑکے کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے پیا دیس سدھار دیا گیا رانیہ کو اپنے خواب ٹوٹ جانے کا بے حد افسوس تھا مگر پھر گھر، شوہر میں مصروف ہو کر وہ سب بھول گئیں اور اوپر تلے ہونے والی دو بیٹیوں نے بھی اس کی ذمہ داریوں میں اضافہ کر دیا مگر پھر وہ ہوا جو کسی کی بھی سوچ میں نہیں تھا۔

٭ ٭ ٭

فاروق کی بائیک کو ٹرک نے ایسی ٹکر ماری کہ فاروق موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا اور رانیہ کی دنیا بچیوں سمیت اندھیر ہو گئی اور اب عدت کے بعد جب وہ میکے آئی تو بھابھی کے ناروا رویے نے اسے کو اندر تک جھنجوڑ کر رکھ دیا۔

٭ ٭ ٭

”اماں آپ اس بوجھ کا کوئی حل نکالے میرے لیے اس بوجھ کو اٹھانا ممکن نہیں رافع صبح ناشتہ کے بعد رانیہ اور اس کی بچیوں کو بوجھ کہہ کر اماں سے مخاطب ہوا“ ۔ اس سے پہلے اماں کچھ کہتی رانیہ سامنے آ گئی ”بھائی، امی مجھے بوجھ بنایا کس نے ہے؟ مجھے اس سوال کا جواب دیجیے میں شادی سے پہلے کہتی رہ گئی کہ مجھے میرے پاؤں پر کھڑا ہونے دیں پھر شادی کروا دیجیے گا مگر آپ لوگوں نے میری نہیں سنی میں مانتی ہوں شوہر کی کمائی کا مقابلہ بیوی کبھی بھی نہیں کر سکتی مگر اپنے شوہر کے دنیا سے جانے کے بعد آج میں اس قابل تو ہوتی کہ فوری طور پر اپنی بچیوں کے لیے کچھ کر سکتی مگر ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ نہ میں ڈگری یافتہ ہوں اور نہ ہی ہنر یافتہ مگر آپ فکر نہ کریں میں اپنا اور اپنی بچیوں کا خرچہ اٹھانے کے لیے کچھ نہ کچھ کر لوں گی ہاتھ، پاؤں سلامت ہیں چاہے جھاڑ پونچھ کرنی پڑے یا پھر کھانا پکانے کا کام کرنا پڑے کچھ بھی کروں گی مگر خود پر اور

اپنی بچیوں پر بوجھ کا دھبہ نہیں لگنے دوں گی یہ کہتے ہوئے رانیہ اپنے کمرے کی طرف چلی گئی مگر ایک بات اماں اور بھائی کو سمجھا گئی تھی کہ جب بیٹیوں کو خود بوجھ بنایا جائے، ڈگری اور ہنر سے محروم رکھا جائے، تو پھر بیٹی کو بوجھ کہنے کا بھی حق حاصل نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments