عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے مشاہدات


جب میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے آواری ہوٹل پہنچا تو ایک لمحے کے لیے یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ جس طریقے سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات پوری آزادی کے ساتھ اپنے پیغامات لوگوں تک پہنچا رہی ہیں ؛ کاش! ایسی ہی آزادی پوری قوم کو مہیا ہو جائے۔ ہر شخص قائد اعظم کے فرمودات پر عمل پیرا ہو کر اپنی آزادی کو حقیقت میں ڈھال لے، ہر طبقہ لوگوں کے ذہنوں کی اچھی طرح تربیت کرے، ہر وڈیرہ اپنے قبیلے کو نا انصافی کی بجائے عدل و انصاف اور بھائی چارے کا درس دے، ہر سیاسی جماعت کا سربراہ اپنے مخالفین کی تنقید کو کھلے دل سے تسلیم کرے، ہر ادارہ آئین و قانون پر عمل درآمد کرتے ہوئے لوگوں کو انصاف مہیا کرے۔ جب میں نے یہ ساری باتیں وکلاء، سیاستدانوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں سے سنی تو مجھے یہ یقین ہو گیا کہ عاصمہ جہانگیر واقع ہی انسانی حقوق کی علمبردار تھیں اور ان کی خدمات کو اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

اس کانفرنس میں میرے سمیت دوسری شخصیات نے بھی سنتے کانوں اور دیکھتی آنکھوں سے اس بات کا مشاہدہ کیا ہو گا کہ ہر شخص ظلم و ستم کا شکار ہے اور وہ ظالم کے ظلم سے چھٹکارا پانے کے لیے اداروں کی طرف دیکھتا ہے اور جب ادارے اس کی داد رسی نہیں کرتے تو وہ ”ہم کیا چاہتے؟ آزادی“ جیسے نعروں کو گلی گلی، کوچے کوچے بآواز بلند لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ہر شخص اپنے سینے میں نا انصافی کی ایک طویل داستان سموئے ہوئے ہے، ہر شخص اپنے سینے میں اداروں کی طرف سے کی گئی ظلم و زیادتی کی داستان دفن کیے ہوئے ہے۔ آخر کب تک یہ نا انصافی اور ظلم و ستم کی داستان سینوں میں دفن رہے گی؟

جس ملک میں تین دفعہ کے منتخب وزیراعظم کو کرپشن کی بجائے اقامہ پر تاحیات نا اہل کر دیا جائے اور اس کی نا اہلی کے پیچھے بڑے بڑے کردار چھپے ہوں تو اس عدالت عالیہ سے ہم انصاف کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟ جس ملک کے وزیراعظم کو اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کو ثابت کرنے کے لیے عدالت عالیہ کے معزز ججوں کی ویڈیوز اور آڈیو ٹیپ کو منظر عام پر لانا پڑے تو اپنے ذہن میں تصور کیجئے کہ اسی عدالت سے عام شہری کو کیسا انصاف ملتا ہو گا؟ جس عدلیہ کے معزز ججز اتنے بڑے لیول پر ایک منتخب وزیراعظم کے خلاف سازشوں میں ملوث ہوں تو سوچئیے میرے جیسا عام پاکستانی شہری کیسے ان عدالتوں پر اعتماد کا اظہار کرے گا؟ جس ملک کے ادارے صحافیوں پر قاتلانہ حملے کرنے والوں کی گرفتاری میں ناکام ہو جائیں تو اس ادارے کی کارکردگی پر ہم کیسے اعتماد کریں؟

کیا اس ملک کے حقیقی وارث صحیح معنوں میں اس مملکت کو قائد اعظم اور علامہ اقبال کی فکری و نظریاتی سوچ پر عمل پیرا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں؟ کیا قائد اعظم اور علامہ اقبال نے ان حالات کے لیے اتنی جدوجہد اور قربانیاں پیش کی تھیں جو حالات ہر پاکستانی کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے؟ کیا قائد اعظم اور علامہ اقبال نے اس نا انصافی اور عدم برداشت کو تقویت بخشنے کے لیے جدوجہد کی تھی جو نا انصافی اور عدم برداشت آج ہر شخص کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے؟

یقیناً! ہم لوگ آج اپنی اصل سمت سے ہٹ گئے ہیں۔ آج ہم نے عدل کی بجائے نا انصافی کو اپنی اصل سمت بنا لیا ہے۔ آج ہم نے امن و امان کی بجائے ظلم و تشدد کو اپنی اصل سمت بنا لیا ہے۔ آج ہم نے ظالم اور جابر حکمرانوں کا احتساب کرنے کی بجائے ایک عام مزدور کی عزت کو پامال کرنا شروع کر دیا ہے۔ آج ہم نے اپنے دشمنوں کو غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹتے کی بجائے اپنی ہی رعایا کو ملک دشمنی اور غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنا شروع کر دیے ہیں۔

آخر یہ سب کچھ کس وقت تک چلتا رہے گا؟ کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کے حوالے ایسا پاکستان کر کے جائیں گے؟ کیا ہم یہ چاہیں گے کہ ہماری نسلیں مظلوموں کی بجائے ظالم اور جابر لوگوں کا ساتھ دے؟ کیا ہم یہ چاہیں گے کہ ہماری آنے والی نسلیں عدم برداشت کی کیفیت سے گزرتے ہوئے تشدد کا راستہ اختیار کریں؟

کوئی بھی شخص ایسا نہیں چاہتا کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کو ظلم و ستم اور نا انصافی والا پاکستان حوالے کر کے جائے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم قائد اعظم اور علامہ اقبال کے روشن کیے ہوئے چراغ پر عمل پیرا ہو کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنا قبلہ درست کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہم سب کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ورنہ چراغ تلے اندھیرا ہی رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments