تریپورہ فرقہ وارانہ فسادات: مدرسے میں پانچ بچے وہ بھی خوفزدہ

نتن سریواستو - نمائندہ بی بی سی ہندی


ایک چھوٹے سے سرکاری مدرسے میں کل پانچ بچے پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کے چہروں پر خوف طاری ہے۔

تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ کھڑکی سے باہر جھانکتے ہیں اور پھر ایک بزرگ استاد ہماری طرف دیکھنے لگتے ہیں۔

بوڑھے استاد نے ہم سے پوچھا، سب ٹھیک ہے ناں، جناب، کچھ گڑبڑ تو نہیں ہے؟’

مدرسے سے ملحق ایک چھوٹی سی مسجد ہے جو اب ویران نظر آتی ہے۔

اس کی تین تین فیٹ لمبی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے پڑے ہیں، چھت سے لٹکے پنکھوں کی پنکھیاں ہر سمت میں جھکی ہوئی ہیں اور تقریباً نصف درجن روشندان پتھروں کے لگنے سے ٹوٹ چکے ہیں۔

مسجد کے عقب میں ایک مسلمان خاندان آباد ہے اور سامنے ہندو خاندان کا گھر ہے۔

بی بی سی کی ٹیم کی کوریج کے دوران پیچھے پیچھے پہنچنے والے تریپورہ پولیس کے ایک ہیڈ کانسٹیبل کی وجہ سے شاید دونوں گھروں کے دروازے بھی نہیں کھلے۔

یہ انڈیا کی شمال مشرقی ریاست تریپورہ کے دھرم نگر ضلع کا چامتیلا علاقہ ہے، جہاں حال ہی میں پہلی بار فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ہوئے ہیں۔

کیا ہوا، کیوں ہوا؟

اکتوبر سنہ 2021 میں ہندوؤں کے تہوار درگا پوجا کے دوران ہندوستان کے پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے کئی حصوں میں ہندوؤں کے خلاف تشدد پھوٹ پڑا۔

اس کی شروعات چٹگاؤں ضلع کے کمیلا قصبے سے ہوئی تھی۔ اس کے فوراً بعد بنگلہ دیش کی حکومت نے انڈیا کو خبردار کرتے ہوئے اقلیتی ہندوؤں کو اعتماد اور تسلی دی۔

وزیر اعظم شیخ حسینہ نے کہا کہ ‘انڈیا نے ہمارے لیے بہت کچھ کیا ہے اور ہم اس کے لیے شکر گزار ہیں، ایسی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے جس سے ہمارے ملک پر اثر پڑے اور ہمارے ملک کی ہندو برادری کو نقصان پہنچے۔’

لیکن اس تشدد کا اثر ہندوستان کی ریاست تریپورہ میں فوری طور پر نظر آیا جو تین طرف سے بنگلہ دیش کی سرحد سے گھری ہوی ہے۔

تقریباً دس دنوں کے اندر، گومتی ضلع سے یہ خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ ‘کچھ نامعلوم افراد نے ایک مسجد کو آگ لگا دی ہے’ جس کے بعد سپاہی جالا ضلع سے ‘مساجد پر حملے کی ناکام کوششوں’ کی خبریں آنے لگیں۔

دریں اثنا، ریاست میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم جمیعت علمائے ہند نے وزیر اعلیٰ بپلب کمار دیب سے ملاقات کی اور آگاہ کیا کہ ریاست میں ہندو اور مسلم برادریوں کے درمیان امن کو خطرہ ہے۔ حکومت کی طرف سے یقین دہانیاں بھی کی گئیں۔

پانیساگر میں تشدد

ایک واقعہ 26 اکتوبر کو اس وقت رونما ہوا جب بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف تشدد کے خلاف شمالی تریپورہ کے پانیساگر میں ایک بہت بڑی ‘احتجاجی ریلی’ نکالی گئی۔

تقریباً دس ہزار لوگوں نے اس ریلی میں شرکت کی جس میں وشو ہندو پریشد کے علاوہ کچھ ديگر ہندو تنظیمیں اور مقامی گروپ بھی شامل تھے۔

علاقے کے اقلیتی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ریلی شروع میں پرامن تھی، لیکن بعد میں پرتشدد ہو گئی۔

ریلی کے منتظمین میں سے ایک بیجیت رائے تھے۔ وہ جو پانیساگر وشو ہندو پریشد یونٹ کے صدر ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ‘ہم نے پرامن ریلی کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہاں سے چامتیلا تک ماحول پرسکون تھا، ہم جا رہے تھے، اچانک وہاں ہلکی سی ہلچل ہونے لگی، تو ہم بھاگے، سوچا کہ کہیں سے پتھراؤ ہو رہا ہے۔ وہاں یہ سن کر ہجوم کچھ بے قابو ہو گیا، قریب ہی ایک مسجد تھی، ہم نے جیسے تیسے اس مسجد کو بچایا۔’

میں نے سوال کیا کہ ‘اگر ریلی بنگلہ دیش میں ہونے والے تشدد کے خلاف تھی، تو پھر اس کا رخ انڈیا کے مسلمانوں پر کیسے ہوا۔’ اس کے جواب بجیت نے کہا: ‘انڈین مسلم کے خلاف تو کوئی نہیں، انڈین مسلمان تو ہمارے آدمی ہیں۔ ہمارے جتنے ان کے بھی حقوق ہیں۔’

ویسے چامتیلا کی جس مسجد کو بچانے کا دعوی کیا گیا ہے بھیڑ نے اس پر اپنا نشان چھوڑا تھا۔

حملے کے دوران اور بعد کا فرق آج بھی نظر آتا ہے۔

اس واقعے سے چند روز قبل ایک اور ٹین کی چھت والی مسجد پر بھی نامعلوم افراد نے حملہ کیا تھا۔

تریپورہ میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور اکثریت آبادی ہندوؤں پر مشتمل ہے جو 83 فیصد ہیں۔ ان میں بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں کی بھی بڑی تعداد ہے۔

تریپورہ میں اب لوگ خوفزدہ ہیں۔

رووا میں پر تشدد واقعات

چامتیلا مسجد سے ڈیڑھ کلومیٹر آگے رووا قصبہ ہے، جہاں ہجوم نے کم از کم پانچ دکانوں کو آگ لگا دی۔

اگرچہ ‘احتجاجی ریلی’ اور انتظامیہ نے ابتدائی طور پر صرف دو دکانوں کو نقصان پہنچنے کی بات تسلیم کی ہے لیکن بی بی سی نے ان پانچوں دکانوں کا دورہ کرکے اس کی تصدیق کی ہے۔

جن کی دکانیں مکمل یا آدھی جل گئی ہیں ان کے نام امیر حسین، محمد علی تالکدار، سنوہر علی، نظام الدین اور امیر الدین ہیں۔

امیر الدین نے کہا کہ ‘ہمارے سامنے توڑ پھوڑ اور لوٹ مار ہوئی، پھر آگ لگا دی گئی، ہم یہیں مسجد کے سامنے کھڑے تھے، ہم آ سکتے تھے لیکن پولیس نے کہا رک جاؤ، رک جاؤ۔’

امیرالدین کی دکان جل کر خاکستر ہوگئی ہے، اندر ایک جلا ہوا فریج بھی پڑا ہے۔

سنوہر علی بھی رووا کے رہنے والے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جب تشدد ہوا ہم قریب ہی ایک اور مسجد کے پیچھے کھڑے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ‘جب ہجوم وہاں جا نہیں پا رہی تو انھوں نے غصے میں آکر دکان پر حملہ کر دیا، پہلے اس دکان کو آگ لگائی اور پھر اس سے ملحق دکان کو آگ لگائی جس سے یہاں آگ لگ گئی۔ یہ جوتے ہیں، کپڑے ہیں، تھیلے اور چھتریاں جو مکمل طور پر جل چکی ہیں۔’

عینی شاہدین کے مطابق ضلعی انتظامیہ نے پہلے ہی علاقے میں سات سے آٹھ پولیس اہلکار تعینات کر رکھے تھے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے لیکن ‘شاید اتنا کافی نہیں تھا۔’

کدم تلہ میں کیا ہوا؟

دھرم نگر ضلع کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پانیساگر میں چامتیلا مسجد اور اقلیتی دکانوں میں آتشزدگی کے واقعہ کی خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔

اور پھر انتظامیہ اور فائر بریگیڈ کی گاڑیاں حرکت میں آئیں لیکن پڑوسی کدم تلہ اسمبلی حلقے میں مسلم برادری کے لوگ جمع ہوکر احتجاج کرنے لگے۔

اسی رات تقریباً 10 بجے کدم تلہ کے نزدیک چوڑائی باڑی قصبہ میں بھی ہجوم جمع ہوا اور چند ہندو خاندانوں کے گھروں پر پتھراؤ کیا گیا۔

ان میں سے ایک سونالی ساہا کا گھر تھا اور ان کی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

’جب یہ لوگ مساجد جلا کر چلے جاتے ہیں، تب دفعہ 144 لگائی جاتی ہے’

‘آج انڈیا میں ہر سال 500 فسادات ہوتے ہیں’

دلی فسادات کا ایک سال: سب جانتے ہیں کہ ’مسلمانوں کو فلیٹ کرائے پر نہیں ملیں گے‘

سونالی نے کہا کہ میں پڑھ رہی تھی کہ اچانک کچھ لوگ آگئے اور حملہ کر دیا، ہم باہر نکلنے کے قابل بھی نہیں تھے، اتنا شور تھا، ماں نے دروازہ بند کر دیا اور پانچ دس منٹ میں سب کچھ پرسکون ہو گیا۔ ہم قدم بھی نہیں رکھ سکتے تھے۔ شیشے کے بہت سارے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔ بہت خوفزدہ تھی کیونکہ میں نے پہلی بار اس کا سامنا کیا تھا اور اب بھی بہت خوفزدہ ہوں۔’

کدم تلہ کے ایم ایل اے اسلام الدین کا تعلق سی پی ایم پارٹی سے ہے اور انھوں نے کہا کہ ‘یہ سچ ہے کہ پانیساگر کے واقعہ کے بعد علاقے کی مسلم کمیونٹی میں غصہ تھا اور ہم پوری کوشش کر رہے تھے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔’

انھوں نے بتایا: ‘شروع میں پولیس-انتظامیہ فعال نہیں تھی اور پانیساگر تشدد کے بعد ہی انتظامیہ متحرک ہوئی تھی۔ پانیساگر کی ریلی کے بعد، ہماری طرف سے کدم تلہ، اناکوٹی ضلع کے کیلاش شہر، دھرم نگر اور یوراج نگر میں احتجاج شروع ہوا تھا۔ تب سے پولیس انتظامیہ متحرک ہوگئی۔

تریپورہ کے تین اضلاع میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات کے بعد انتظامیہ کے کردار پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔

الزامات ہیں کہ تقریباً ہر معاملے میں کارروائی میں سستی ہوئی اور ملزمان کی گرفتاری میں تاخیر ہوئی۔

تریپورہ (نارتھ) کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس بھانوپدا چکرورتی نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ‘یہ درست ہے کہ دھرم نگر ریلی میں 10 ہزار لوگ شامل تھے لیکن مسجد کو جلایا گیا یا نہیں یہ ابھی بھی تحقیقات کا معاملہ ہے اور معاملہ ابھی تک زیر تفتیش ہے۔ جہاں تک کارروائی کا سوال ہے، ہم نے شک کے دائرے میں ملوث لوگوں کو بغیر کسی امتیاز کے گرفتار کیا ہے۔’

کشیدگی

تریپورہ سے ملحقہ بنگلہ دیش کی 856 کلومیٹر لمبی سرحد ہے لیکن بنگلہ دیش میں اکثریتی مسلمانوں کے تشدد کا یہاں چند مظاہروں کے علاوہ زیادہ اثر نہیں ہوا۔

تریپورہ میں سنہ 1980 میں بنگالیوں اور قبائلیوں کے درمیان پر تشدد جھڑپ ہوئی تھی جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔

سنہ 2018 کے اسمبلی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے سی پی ایم کی قیادت والی بائیں بازو کی حکومت کو شکست دی تھی۔ اس سے قبل ریاست میں 25 سال تک بائیں بازو کی حکومت تھی۔

اپوزیشن پارٹیوں کا الزام ہے کہ جب سے ریاست میں بی جے پی کی حکومت آئی ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی ‘کمزور’ ہوئی ہے۔

بی بی سی نے یہی سوال تریپورہ اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر اور دھرم نگر کے ایم ایل اے بسوا بندھو سین سے پوچھا اور جاننا چاہا کہ کیا مسلم کمیونٹی خوفزدہ ہے۔

بسوا بندھو سین نے کہا: ‘نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد، مسلمانوں کو احساس ہوا کہ انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ ہم ان لوگوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو مودی کے خلاف ہیں، بی جے پی کے خلاف ہیں، بپلب دیب جی کے خلاف ہیں، ان کی وجہ سے فرقہ وارانہ تقسیم شروع ہو گئی ہے۔‘

پانیساگر تشدد کے دو ہفتے بعد، تریپورہ حکومت نے دو خواتین صحافیوں کو مبینہ طور پر اشتعال انگیز مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔

لیکن دو دن کے اندر تریپورہ کی ایک عدالت نے ان دونوں صحافیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا جو وہاں فرقہ وارانہ تشدد کی رپورٹنگ کرنے پہنچی تھیں۔

ہم نے بی جے پی کے سینیئر لیڈر بسوا بندھو سین سے پوچھا کہ صحافت کب سے جرم بن گئی؟ اگر صحافی اپنا فرض ادا کر رہے ہیں، تصویریں اور شہادتیں لے رہے ہیں، تو انھیں بغیر کسی الزام کے حراست میں لینا، کیا یہ جمہوریت ہے؟

بسوا بندھو سین نے اس سوال کا سیدھا جواب دیئے بغیر کہا: ‘جمہوریت کا مکمل فائدہ انصاف پسند صحافی لے رہے ہیں نہ کہ سیاسی پارٹیاں۔ بہت سے لوگ فیک نیوز چلا رہے ہیں، کیا یہ جمہوریت ہے؟ کچھ اخبارات ہیں، مصنف ہیں، وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ پھیلاتے رہتے ہیں۔

لیکن زمینی سطح پر جو کچھ نظر آرہا ہے وہ دعووں سے بہت مختلف ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ان واقعات نے تریپورہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جنھوں نے تشدد کو قریب سے دیکھا اور وہ بھی جو اس حقیقت پر پر فخر کیا کرتے ہیں کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ریاست تریپورہ میں کبھی فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہوا تھا وہ بھی ہل گئے ہیں۔

ہم نے وشو ہندو پریشد کی پانیساگر یونٹ کے صدر اور ‘پرتیواد ریلی’ کے منتظمین میں سے ایک بجیت رائے سے پوچھا: ‘کیا وہ اس کے لیے معذرت خواہ ہیں؟

تقریباً دس سیکنڈ توقف کے بعد انھوں نے کہا: ‘بہت افسوس، بہت بہت۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آئندہ سو سالوں میں ایسا دوبارہ نہ ہو۔’

ایک چھوٹے سے سرکاری مدرسے میں کل پانچ بچے پڑھنے کی کوشش تو کر رہے ہیں لیکن ان کے چہروں پر خوف طاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments