اوکاڑا، فن صحافت اور ریلوے اسٹیشن


لڑکپن کی خواہشات اتنی سادہ، معصوم اور بھولی کیوں ہوتی ہیں۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے لڑکپن کے معنی تلاش کیے تو جواب بہت آسانی سے بلکہ یوں سمجھیں، خود بہ خود واضح ہوتا چلا گیا۔ ترکیب کارگر تھی، کہ دیکھا جائے کہ یہ لفظ اپنے اندر، کیا مفہوم چھپائے پھرتا ہے۔ جب لفظ کے معنی ہی، کم فہمی، نا سمجھی اور نادانی ہو، تو بھلا اس سے دوچار، عقل و فہم، سمجھ داری اور دانائی کے دائرے میں خود کو کیسے قید کرے۔

سو، کم فہمی ملاحظہ ہو، ساتویں یا آٹھویں جماعت کا زمانہ، اور سودا سمایا کہ سب لوگ، کاغذ اور قلم کی مدد سے تحریر کے کیسے کیسے کمال دکھاتے ہیں، کیا مضائقہ ہے اگر طبع آزمائی کی جائے، بس ایک قلم اور کچھ صفحات ہی تو درکار ہیں۔ قلم اور صفحات کب کسی کی رسائی سے دور ہوئے ہیں، وہ تو ہمیشہ سے طلب گاروں کی راہ تکتے ہیں۔ سو ان کے لئے کون سی کوہ پیمائی کی کٹھن مشقت کرنی ہے۔ ادھر صفحہ پکڑا اور ادھر قلم رواں ہوا۔ پھر چل سو چل، ایک کے بعد دوسرا صفحہ اور دوسرے کے بعد ۔ اور ایک نہ رکنے والی قلم آزمائی کی کہانی در کہانی!

مگر یہ کہانی، ویسی کہانی نہ نکلی جیسا سوچا تھا۔ قلم اور صفحات ایک دوسرے کو گھورتے رہے، قلم اس انتظار میں کہ کب اسے متحرک کیا جائے اور صفحات اس بے چینی میں کہ کب ان کے سینے پر الفاظ کی رم جھم ہو۔ گویا جو سہل لگتا تھا، وہ اتنا سہل نہ نکلا۔ ابھی یہ عقدہ، عقدہ یہ رہا کہ لکھنے کے لئے صرف قلم اور کاغذ ہی درکار نہیں۔ اس کے سوا بھی کچھ چاہیے، مگر کیا چاہیے، اس کا سرا ہاتھ نہ آیا۔ قلم اور کاغذ کی رفاقت میں، یہ پسپائی مسلسل جاری رہی۔ ادھر ادھر مصروف عمل، اس میدان کے شہسوار، برے دکھائی دینے لگے کہ وہ کیوں کر اور کس برتے پر اس زعم سے سرگرم عمل ہیں۔

رشک اور حسد سے کب کسی کو کچھ ملا ہے۔ اس سے یکسر افاقہ نہ ہوا۔ قلم اور صفحات اسی طرح منہ چڑاتے رہے۔ ان کا یہ فیصلہ، ان کے نقطہ نظر سے یقیناً حقیقت پسندانہ تھا۔ ان کی، نہ ختم ہونے والی یہ بے توقیری، ان کے لئے دن بہ دن شدید سے شدید تر مایوسی کا سبب بنتی جا رہی تھی۔ ادھر عزم مصمم میں، کسی قدر کمی نہ تھی مگر نتائج میں بھی کوئی اضافہ بہ ظاہر دکھائی نہ دیتا تھا۔

ہر روز قلم اور کاغذ کے سامنے یہ عہد، تازہ کیا جاتا کہ ایک دن ضرور وہ تحریریں وجود میں آئیں گی کہ اسکول کے سارے استاد ششدر رہ جائیں گے اور ستلج بوائز ہائی اسکول کا نام صرف اوکاڑہ میں نہیں، پورے ملک میں ہلچل مچا دے گا۔

پھر کلاس ٹیچر بشیر صاحب، سب کے سامنے اپنے شاگرد پر فخر کا اظہار کریں گے۔ شمس صاحب بھی تسلیم کریں گے کہ ان جیسا مزاح، اور بھی کوئی تخلیق کر سکتا ہے۔ یعقوب صاحب اور رمضان صاحب، جو الفاظ کے صحیح تلفظ اور ہجے بتا بتا کر ہلکان ہو جاتے تھے، بہتر الفاظ کے انتخاب پر داد دیں گے۔ غفور صاحب، لکھی گئی تحاریر دیکھ کے، اپنے حساب سے دل کھول کر اپنی محبت تقسیم کریں گے۔ ابراہیم صاحب، ان تحریروں میں بڑی شخصیات کا تذکرہ دیکھ کر، اپنی ان کوششوں کے ضائع نہ ہونے پر خوشی کا اظہار کریں گے جو انھوں نے سائنس لیبارٹری میں ڈاکٹر عبدالسلام، آئی ایچ عثمانی اور منیر احمد خان کی تصاویر آویزاں کر کے نوعمر ذہنوں کی نشو و نما کا بیڑہ اٹھایا تھا۔

عزیز صاحب اپنی اسپورٹس مین اسپرٹ کے ساتھ، ان تحریروں پر دل کھول کر تعریف کے ڈونگرے برسائیں گے۔ پی ٹی ماسٹر نذر حسین صاحب بھی پیچھے نہیں رہیں گے۔ وہ جو کبھی کبھی پریڈ کے دوران غلط ہاتھ پاؤں چلانے پر، قطار سے باہر آ کر سب سے علیحدہ چلنے کا کہتے تھے، ان تحریروں کے بعد یہ کوتاہیاں معاف کر دیا کریں گے۔ وائس ہیڈ ماسٹر شاہ جی، اپنی روایتی شفقت کے ساتھ برابر حوصلہ افزائی کریں گے۔

اور تو اور، اسکول کے ہیڈ ماسٹر اور اوکاڑہ کے سر سید کا لقب پانے والے قاضی صاحب، جو طالب علموں کی بہتر سے بہتر تعلیم (اور تربیت) کے لئے، اپنا زائد وقت دینے کے ساتھ ساتھ، انھیں اپنے گھر بلا کر، پڑھانے اور سمجھانے ( حتا کہ کھلانے ) کے لئے خوش دلی سے آمادہ رہتے تھے، اسمبلی میں ان تمام تحریروں کا محبت بھرے الفاظ میں ذکر کریں گے۔

یہ خواب ساتھ ساتھ چلتے رہے مگر قلم کا ان کے ساتھ چلنے سے انکار جاری رہا۔ آخر اس بے عملی سے نکلنے کے لئے کچھ کرنے کی ٹھانی گئی اور طے ہوا کہ کوئی ایسی کتاب تلاش کی جائے جو اس راہ پر چلنے یا چلانے میں معاون ہو۔ نہیں معلوم شہر میں کتنے بک اسٹال اور ہوں گے، مگر محدود معلومات کے مطابق ریلوے اسٹیشن کا بک اسٹال، دیکھا بھالا اور آزمودہ تھا، اس لئے کارآمد نظر آیا۔ رہنمائی کے لئے جب درخواست کی گئی تو ایک کتاب فن صحافت کے نام سے دکھائی گئی۔

صفحے پلٹے اور انڈیکس پر نظر ڈالی تو بہ ظاہر، ایسا لگا کہ ہر چند مشکل دکھائی دیتی ہے مگر تلاش کے مطابق ہے۔ خواب سچ ہوتے دکھائی دینے لگے، قلم متحرک اور کاغذ کے سینے پر لفظوں کا ڈھیر تیزی سے جمع ہوتا محسوس ہونے لگا، لیکن پھر ایسا ہوا نہیں۔ جب کتاب کی قیمت پوچھی تو سب واپس، اپنی جگہ پر آ گیا۔ قیمت، لڑکپن کی عمر سے بہت زیادہ نکلی۔ کم فہمی، نا سمجھی اور نادانی کا خواب، اسی دکان میں کہیں گم ہو کر رہ گیا۔

اور اس طرح قلم اور کاغذ کی کہانی میں ( خواہش کے مطابق) کوئی من پسند تخلیقی موڑ نہ آیا۔ اسکول کے دن تمام ہوئے۔ وقت اپنی رفتار سے رواں دواں رہا۔ ملنے بچھڑنے کا سلسلہ غیر محسوس طریقے سے، تبدیلیوں کو جنم دیتا رہا۔ لکھنے لکھانے کی تمنا، جانے کب، بک ریڈنگ کی شکل اختیار کرتی چلی گئی۔ تعلیمی مدارج طے ہوتے ہوتے، کراچی یونیورسٹی کے کاری ڈور اور کلاس روم، آ مقابل ہوئے۔

بی اے آنرز ( اور پھر ایم اے ) صحافت کے انتخاب میں، نہیں معلوم کیا کیا پیش نظر تھا، ہاں ایک بات ابھی تک ذہن سے اوجھل نہی ہو پاتی جو ایک خوش گوار حیرت کی صورت میں اس وقت سامنے آئی، جب اس کے نصاب میں، اور دوسری تجویز کی گئی متعدد کتابوں میں، ایک کتاب، ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کی تصنیف کردہ بھی شامل تھی، جو کچھ دیکھی بھالی لگتی تھی۔

جی ہاں اس کتاب کا عنوان تھا، فن صحافت!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments