چور اور چوکیدار


پہلے دور اچھا تھا چور بھی اچھے تھے اور چوکیدار بھی اچھے تھے۔ سارے گاؤں میں ایک چوکیدار اور کئی چور۔ نہ چوکیدارا ٹھیک طرح سے ہوتا تھا اور نہ ہی چوری۔ چھوٹی موٹی چوریاں ہوتی تھیں کسی کا دل چوری ہوجاتا تھا اور کسی کے خواب،

چوکیدار بھی اپنے ہی ہوتے تھے کبھی ماں کبھی بہن، کبھی بھائی اور کبھی باپ۔ پر چور کون سے پرائے ہوتے تھے۔ کچھ اپنے ہوتے تھے اور کچھ اپنے ہو جاتے تھے۔ بس یہی چور اور چوکیدار کا فرق تھا۔

پھر وقت بدلا اور کئی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو گئیں۔ رہبر ہی رہزن ہو گئے اور رہزن ہی رہبر۔

کچھ فرق نہیں رہا۔ سوچ، الفاظ سب پر ہی تو پہرہ لگ گیا۔ اگر کسی کے حق میں کہو تو زندہ باد اور مخالفت میں کہہ دو تو کافر۔ کسی سے محبت کا اظہار گناہ بن گیا اور کسی سے نفرت کا اظہار بھی گناہ بن گیا۔ نیکی اور بدی کا فرق ختم ہو گیا۔ ہو سکتا ہے جو آپ نیکی سمجھ کر کر رہے ہوں کوئی اس کو بدی سمجھ رہا ہو۔ سب ایک دوسرے سے دور ہونے لگے۔ کسی کو کسی کا حال پتہ نہیں۔ سب ساتھ ساتھ تنہا کھڑے ہیں۔ اور تو اور اب تو سائے بھی کم ہی نظر آتے ہیں تنہائی کا عجیب منظر ہے۔

پھر ایک وقت آیا۔ جو آیا تو گلوبل ویلج بنانے تھا پر سب کو دور دور کر گیا۔ میرے سامنے بیٹھا میرا پیارا مجھ سے بات نہیں کر رہا پر امریکہ اور انگلینڈ میں بیک وقت کئی لوگوں سے ہمکلام ہے۔ میں پاس لیٹا درد سے کراہ رہا ہوں اور وہ موبائل میں مگن مسکرا رہا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ بے حسی کا گلوبل ویلج بنانے کی ضرورت کیا تھی۔ پھر شروع ہو گئی ففتھ جنریشن وار۔ اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا بس گالم گلوچ کا نام ہی شاید ففتھ جنریشن وار ہے۔

شاید پانچویں جماعت پاس لوگ جن کو پاکستان میں پڑھا لکھا گردانا جاتا ہے یہ وار انہی کے لڑنے کے لئے بنی ہے اسی لئے اس کا نام ففتھ جنریشن وار ہے۔ فقیر سے لے کر وزیر تک سب موبائل کان کو لگائے مصروف ہیں۔ جو کمی رہ گئی تھی۔ اس کو کرونا میں آن لائن کلاسز نے مکمل کر دیا۔ اب ساری دنیا ہی شاید اس جنگ میں مگن ہے۔ اور اس سے جو پیداوار حاصل ہوگی وہ بھی ویسی ہی ہوگی جیسی کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹمی دھماکوں کے بعد نسل آئی تھی۔

جب بھی جنگ لگتی ہے تو آبادیاں اور نئی نسل تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ اگر سارا، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا دیکھا جائے تو یہ کسی ایٹم بم سے کم نہیں۔ اس کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔ جو میں ایک خوفناک تبدیلی دیکھ رہا ہوں کہ ہماری اگلی نسل سوال کرنے سے پہلے جواب دے دیتی ہے۔ جیسے اسے سوال پہلے سے معلوم ہو۔ ہمارے چور اب بہت تیز طرار ہو گئے ہیں اور چوکیدار کمزور اور ناتواں۔

پہلے کسان کا پانی چوری ہوجاتا تھا تو قیامت برپا ہوجاتی تھی جرگے اور کچہریاں لگ جاتی تھیں۔ اب اس کی فصل چوری ہو جائے تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سب کی مجبوریاں ہیں ماسوائے آپ کے۔

سب کے دکھ سنیں پر اپنا نہ کسی کو سنائیں اسی میں آپ کی بہتری ہے۔ کیونکہ لوگ تو اب دکھ سن کر دکھ بھی چوری کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ پہلے پہل صرف خوشیاں چوری ہوتی تھیں پر اب تو ظالم دکھ بھی نہیں چھوڑتے۔

مجھے کسی نے پوچھا کیا کرتے ہو جواب دیا کہ فارغ ہی رہتا ہوں ظالم میری فراغت ہی چوری کر کے لے گیا اور میں مصروف ہو گیا اب میرے پاس اپنے لئے بھی وقت نہیں۔

سارا دن ویلا مصروف گھر میں پڑا رہتا ہوں۔ بیٹیوں سے کہنے ہی لگا تھا یار کچھ وقت مجھے بھی عنایت کر دیں۔ اس سے پہلے جواب آ گیا ہمارے ساتھ ہی یونیورسٹی اور کالج سکول چلا کریں۔ تاکہ پتہ چلے پڑھائی کتنی مشکل ہے۔ ان کو کیسے بتاؤں دنیا کا سب سے آسان کام پڑھائی ہی ہے۔ باقی زندگی تو ففتھ جنریشن وار ہے۔ جو زیادہ گالیاں دے وہی جیت جاتا ہے۔ چاہے وہ چور ہو یا چوکیدار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments