بوم بسیرا: کتابوں کی باتیں


بوم بسیرا۔ ایک نوجوان کی ہوشربا داستان جو امریکا جا کر گھر کی واپسی کا راستہ بھول گیا۔ آپ کس قسم کی کتاب پڑھنے جا رہے ہیں، اس کا اندازہ آپ کو درج ذیل سطور سے ہو جائے گا:

”اس ناول کے آغاز میں ہی روداد نویس اعتراف کرتا ہے کہ کہانی کے تمام کردار فرضی اور قصہ گو کے خراب دماغ کی اختراع ہیں اور عام زندگی کے چلتے پھرتے لوگوں سے ان کی مطابقت محض اتفاقیہ ہے۔ تصوراتی ملک بوم بسیرا کے قیام کے بعد سے اب تک اس میں کوئی ایسا شخص وزیر اعظم نہیں بن سکا جس نے ڈنڈا پیر کے ڈنڈے فخریہ اپنی کمر پر نہ کھائے ہوں یا خوشی خوشی کسی پیر کے مزار کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر درگاہ کی چوکھٹ کو بوسہ نہ دیا ہو۔

داستان گو قسم کھا کر کہتا ہے کہ مملکت ’بوم بسیرا‘ میں آج تک کوئی ایسا شخص وزیر اعظم نہیں بنا جس کی بیٹی نے کبھی کہا ہو کہ ’بوم بسیرا‘ تو کیا دنیا کہ کسی ملک میں میری کوئی جائیداد نہیں ہے۔ ”

ایک شاعر کے خواب کی تعبیر بننے والے ملک ”بوم بسیرا“ کے حوالے سے سنائی گئی اس کہانی میں یہ سوال بھی نہیں اٹھایا گیا ہے کہ نجانے کیوں لوگ اس طرح کی افواہیں اڑاتے ہیں؟

اس ناول کے مصنف ظفر قریشی کا تعلق صحافیوں کی اس نسل سے ہے جنہیں عملی صحافت میں داخل ہونے کے بعد منہاج برنا اور نثار عثمانی کی رہنمائی میسر آئی۔ عام طور پر پاکستانی معاشی ضروریات کے تحت ملک چھوڑ کر امریکہ جا بستے ہیں لیکن ظفر قریشی ضیا الحق کے آمرانہ دور کی گھٹن کو نا قابل برداشت پا کے پاکستان چھوڑ گئے تھے۔

ناول کے ہیرو دلاور حسین کی زبانی انہوں نے امریکہ میں قدم جمانے اور پاکستان کے حالات کے بارے میں متفکر رہنے کی کہانی پیش کی ہے۔ یہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی اور دانشور کی کہانی کے ساتھ ساتھ امریکہ جا کے ایک کاروباری منتظم بننے والے کی کہانی بھی ہے جس نے شروع میں وہ سب کچھ کیا جو ہمارے نوجوان امریکہ جا کے کرتے ہیں۔

امریکہ میں رہنے کے باوجود دلاور حسین کا سب سے بڑا مسئلہ وطن عزیز میں ایک آمر کی موجودگی تھی۔ اس نے ہم خیال دوستوں کا ایک گروپ بنایا ”جو بد دعاؤں کے باقاعدہ سیشن منعقد کرنے میں اس کا ساتھ دیا کرتے تھے۔ بد دعاؤں کی محفلوں میں گڑ گڑا، گڑ گڑا کر اس حرام زادے کی موت کی دعائیں مانگی جاتی تھیں۔ ان دنوں خبروں کا اتنا کال تھا کہ وطن عزیز سے آنے والی ساری خبروں پر نظر رکھی جاتی تھی اور سیاسی رہنماؤں کے بیانات کے نتائج کا اشتیاق سے انتظار کیا جاتا تھا۔ پھر ہوا یہ کہ بد دعاؤں کے سیشن ترقی کر کے آیت الکرسی اور دیگر آیتوں کے ورد کی محفلیں بن گئے“ ۔ ”بد دعاؤں میں تاثیر پیدا کرنے یا ان دیکھی طاقت کو مک مکا لگانے کے لئے کبوتروں اور چڑیوں کو دانہ ڈالنا اور مچھلیوں کو خشک ڈبل روٹی کا چورا کھلانا بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا“ ۔

اس ناول میں جتنی گالیاں آمر کو دی گئی ہیں اتنی ہی گالیاں ”جماعت المنافقین“ کو بھی دی گئی ہیں جو مصنف کی رائے میں ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔

جب طیارے کے حادثے میں آمر کا قصہ تمام ہوا تو دلاور حسین اور اس کے ساتھیوں نے ایک ہال بک کروا کے جشن منایا جس میں پاکستانی کمیونٹی کو مدعو کیا گیا تھا۔ مرکزی اسٹیج پر کمیونٹی لیڈروں کے بیٹھنے کے لئے لگائی گئی نشستوں کی قطار کے پشت والی دیوار پر وطن سے بنوا کر منگوایا گیا بہت بڑا بینر آویزاں کیا گیا تھا، جس پر ”خس کم۔ جہاں پاک۔“ جھل مل کرتے رنگوں سے درج کیا گیا تھا۔ ہال کی مختلف دیواروں پر مزید نعروں پر مشتمل دیگر بینرز لگائے گئے تھے۔

ایک بینر پر جس کا پس منظر سیاہ تھا، جلی حروف میں یہ عبارت درج تھی ”قوم کو گیارہ سالہ شب تاریک سے نجات مبارک ہو“ ۔ اس بینر کے مقابل دیوار پر جو پوسٹر لگایا گیا تھا، اس پر لکھا تھا ”جمہوریت اور انصاف ہی ترقی کی ضمانت ہے“ ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی یہ گروپ ختم کر دیا گیا اور دلاور حسین نے اپنا پرانا طرز زندگی بھی ترک کر دیا۔

ناول کا بقیہ حصہ کرکٹ ٹیم کے بارے میں، ”ملا پٹرول“ کے روزویلٹ ہوٹل کا فلش سسٹم اور گٹر سسٹم بند کروانے، کا قصہ، اور امریکہ میں اس کے شب و روز پر مشتمل ہے۔

والدین کے ساتھ مسلسل رابطے کے باوجود وہ پاکستان واپس نہیں آیا ”ذہنی طور پر وہ وطن واپس جانے کا مخالف تھا۔ اتنی مشکلوں سے تو وطن کی قید سے نجات ملی تھی اور دوبارہ ان معاشرتی پابندیوں میں جکڑ جانا اسے منظور نہ تھا۔ اس کے مطابق وطن عزیز کا معاشرہ منافقت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھا۔ ہر طرف جھوٹ، ریا کاری اور مکاری تھی۔ اس معاشرے میں سچ بولنے والے سے لوگ نفرت کرتے تھے۔ مصلحت سے کام لینے والے مقبول اور پسندیدہ ٹھہرتے تھے۔

معاشرے میں اس زوال کی وجہ وہی حرام زادہ تھا جو نوے دن میں انتخابات کے وعدے پر بر سر اقتدار آیا تھا۔ لیکن نو سو دن گزرنے کے بعد بھی دور دور تک اس کی طرف سے انتخابات کے انعقاد کے آثار نہیں تھے۔ جب سیاستدان یا معاشرے کے با اثر حلقے انتخابات کا وعدہ پورا نہ کرنے کا مطالبہ کرتے تو وہ انہیں سرکاری خرچ پر حج یا عمرے کی دعوت کی رشوت سے ان کا منہ بند کر دیتا تھا۔ سرکاری خرچ پر حج یا عمرے کی ادائیگی کہاں تک جائز تھی، لوگ یہ سوال کرنے سے کتراتے تھے۔“

یہ کتاب فرید پبلشرز نے چھاپی ہے اور قیمت بارہ سو روپے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments