ثاقب نثار کی آڈیو پر عمران خان اور حکومت کیوں پریشان ہے؟


وزیر اعظم نے میڈیا میں اپنے ترجمانوں کے ساتھ ایک ملاقات میں ہدایت کی کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے مبینہ آڈیو کو مسترد کرنے کے لئے مستعدی سے کام کیا جائے اور واضح کیا جائے کہ یہ مسلم لیگ (ن) کی شرارت ہے تاکہ ججوں کو دباؤ میں لایا جاسکے۔ اس ہدایت کے فوری بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے آج پریس کانفرنس میں پورے جوش و خروش سے اس آڈیو ریکارڈنگ کے بارے میں نہ صرف تحفظات کا اظہار کیا بلکہ یہ امید بھی ظاہر کی ہے کہ اعلیٰ عدالتیں مریم نواز کے ایسے ہتھکنڈوں سے مرعوب نہیں ہوں گی۔

فواد چوہدری کا دعویٰ تھا کہ موجودہ حکومت پوری طاقت سے اداروں کے ساتھ کھڑی رہے گی۔ گویا وہ میڈیا کے ذریعے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں تک یہ پیغام پہنچا رہے ہیں کہ حکومت ان کی سرپرستی کرتی رہے گی اور ججوں کو اپنے سابقہ ساتھیوں کی کسی بے اعتدالی پر ہراساں ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے پہلے جب گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی میں ثاقب نثار پر ایسے ہی الزامات عائد کئے گئے تھے، اس وقت بھی حکومتی ترجمانوں نے پوری قوت سے سابق چیف جسٹس کا دفاع کرنے کی کوشش کی تھی۔ حالانکہ کسی بھی معاملہ میں حقیقت سیاہ یا سفید نہیں ہوسکتی اور نہ ہی معاملہ کی تہ تک پہنچے بغیر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک ہی معاملہ پر جب دو فریق متضاد مؤقف پیش کررہے ہوں تو ان میں درحقیقت کون سچا ہے۔ ایسی صورت میں مناسب سطح پر تحقیقات کروانے سے ہی معاملہ حل کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اگر عدالتیں اور حکومت کسی معاملہ میں تحقیقات کے بغیر فریق بننے کا اعلان کررہی ہوں تو یہ سمجھنا ہی درست ہوگا کہ سچ عوام کی نگاہوں سے چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس عہدے پر اپنی دو سال سے زائد مدت کے دوران متعدد ایسے اقدامات کئے ہیں جن کا عدالتی دائرہ اختیار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان میں خاص طور سے ڈیم فنڈ کا قیام اور سپریم کورٹ کے پلیٹ فارم سے اس مقصد کے لئے رقم جمع کرنا شامل تھا۔ اس وقت بھی ہر کس و ناکس کے علم میں یہ بات تھی کہ یہ ایک ناجائز اور غلط طریقہ ہے جسے ثاقب نثار عوامی شہرت کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ سب اس حقیقت سے بھی آگاہ تھے کہ اس طریقہ سے جمع ہونے والی رقم سے کبھی اتنے فنڈز اکٹھے نہیں ہوسکتے جو ملک میں کسی ڈیم کی تعمیر میں کوئی قابل قدر مدد فراہم کرسکیں۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت نے اس طریقہ کو سرکاری سرپرستی فراہم کرنے کا اعلان کیا اور حکومتی عہدیداروں کو غیر ملکی دوروں پر بھیجا گیا تاکہ وہ چیف جسٹس کے ڈیم فنڈ کے لئے بیرون ملک پاکستانیوں سے چندہ اکٹھا کرسکیں۔ مختلف ملکوں میں پاکستانی سفارت خانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ تقریبات کا اہتمام کریں اور سرکاری مہمانوں کی میزبانی کے علاوہ پاکستانیوں کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کا اہتمام بھی کریں۔

ثاقب نثار نے خود بطور چیف جسٹس زیر سماعت مقدمات میں فریقین کو مختلف حیلوں سے سپریم کورٹ کے ڈیم فنڈ میں رقوم دینے پر مجبور کیا۔ عدالتیں ایک خود مختار ادارہ ہیں ۔ خاص طور سے سپریم کورٹ کے ججوں اور چیف جسٹس سے غیر جانبداری اور سیاسی معاملات میں ہمہ قسم غیر جانبداری کا مظاہرہ کی توقع کی جاتی ہے۔ اسی طرح عدالتوں کا ملک کے بجٹ، ذرائع آمدنی یا اخراجات سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ وہ کسی زیر تکمیل یا ممکنہ منصوبہ کی پلاننگ یا کسی دوسری طرح کی معاونت کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس کے باوجود ثاقب نثار نے کسی قانونی جواز کے بغیر عوام سے رقوم بٹورنے کے لئے سپریم کورٹ کا بینر اور نام استعمال کیا اور حکومت وقت نے اس کام میں ان کی اعانت کی۔ ان تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت اور سپریم کورٹ مل کر دس بارہ ارب روپے سے زیادہ فنڈز جمع نہیں کرپائے ۔ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق اس فنڈ میں جنوری 2019 میں ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ تک 11 ارب روپے کے لگ بھگ رقم جمع ہوئی تھی جو مسلسل جمع ہونے والا سود ملا کر گزشتہ سال کے آخر تک 13 ارب روپے تک پہنچی تھی۔ قارئین کی اطلاع کے لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ 2008 کے تخمینہ کے مطابق دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر پر اخراجات کا تخمینہ ساڑھے بارہ ارب ڈالر تھا۔ گویا ایک چیف جسٹس کی تگ و دو اور حکومت وقت کی مکمل اعانت کے باوجود اس فنڈ میں اتنے روپے بھی جمع نہیں ہوپائے ، اس کی تعمیر کے لئے جتنے ڈالروں کی ضرورت تھی۔

یہ تو خیر ایک جملہ معترضہ تھا۔ اصل نکتہ یہ ہے چیف جسٹس کے عہدہ سے ثاقب نثار کی رخصتی کے بعد سپریم کورٹ کے ڈیم فنڈ کا منصوبہ بھی اپنے اختتام کو پہنچا اور ہزار حیلوں سے جمع کی ہوئی رقم اب اسٹیٹ بنک میں ایک اکاؤنٹ میں ’محفوظ‘ پڑی ہے۔ نہ اس وقت کسی نے سوال کیا کہ چیف جسٹس کا یہ اقدام کسی حد تک قانونی تھا اور نہ ہی بعد میں یہ سوال اٹھانے کی ضرورت محسوس کی گئی کہ آخر ملک کے چیف جسٹس نے ملک کے ایک ترقیاتی منصوبہ کے لئے رقوم جمع کرنے کا عزم کس قانون کے مطابق کیا تھا۔ یا کم از کم یہی بتا دیا جاتا کہ 11 ارب روپے جمع کرنے کے لئے حکومت وقت نے انتظامی اور سفارت خانوں کے فنڈز میں سے کتنی رقو م صرف کی تھیں۔ ملک میں قانون کی بالادستی کی دعویدار حکومت بھی ایسے نازک سوالوں کا جواب دینے میں دلچسپی نہیں رکھتی کیوں کہ اس کے لئے ’قانون کی عملداری‘ کا نعرہ سیاسی ہے۔ سب کو قانون کے سامنے جوابدہ کرنا تحریک انصاف یا عمران خان کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ثاقب نثار کی ڈیم فنڈ کے لئے کی جانے والی غیر قانونی سرگرمی کا نہ پہلے احتساب کیا گیا اور نہ ہی بعد از وقت اس کا جائزہ لینے اور اس قسم کی کاوش کی رائیگانی کا قصہ عوام کے گوش گزار کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس طریقہ کے ناجائز ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ ثاقب نثار کے بعد آنے والے کسی چیف جسٹس نے اس مہم کو جاری رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ تاہم اس فنڈ کی معلومات سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہیں جو ماضی میں عدالت عظمیٰ کے ججوں کی متعدد ماورائے قانون سرگرمیوں کے سیاہ داغ کے طور پر عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا ہؤا ہے۔ سپریم کورٹ یا حکومت وقت اس کلنک کو مٹانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی کیوں کہ یہ بھرم قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والوں سے کبھی کوئی غلطی سرز د نہیں ہوسکتی حالانکہ ماضی کی تاریخ اس بھرم کا پردہ فاش کرتی رہتی ہے جس کا اعتراف اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حال ہی میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں خطاب کے دور ان بھی کیا ہے۔

ڈیم فنڈ کا قیام اور اس کا انجام اس ’جوڈیشل ایکٹو ازم ‘ کا صرف ایک پہلو ہے جس کا مظاہر خاص طور سے ثاقب نثار نے چیف جسٹس کے طور پر کیا تھا۔ ہر معاملہ میں از خود نوٹس لینے کا ایسا افسوسناک طرز عمل اختیار کیا گیا کہ وکلا برادری کو بھی یہ مطالبہ کرنا پڑا کہ ملک میں سو موٹو اختیار کا از سر نو جائزہ لینے اور اس کی حدود و ضوابط مقرر کرنے کا اہتمام کیا جائے کیوں کہ آئینی شق 184(3) کے تحت جب چیف جسٹس کوئی معاملہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس پر ججوں کے فیصلہ کے خلاف اپیل کا حق بھی مسدود ہوجاتا ہے۔ اس طرح انصاف کا خون ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

ایک بیان حلفی اور ایک آڈیو لیک میں عائد الزامات کے حوالے سے یہ تفصیل بتانے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی ہے کہ ماضی میں اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے ساتھ حکومت یا اداروں کی ساز باز کا پہلو نمایاں کیا جاسکے۔ بصورت دیگر کیا وجہ ہے کہ حکومت ایک عام پاکستانی شہری کے خلاف لگنے والے الزامات میں فریق بن کر اپنی توانائی ضائع کررہی ہے؟ اس کی دو ہی قابل فہم وجوہات ہوسکتی ہیں: 1)حکومت خود کو ثاقب نثار کے اقدامات کا شریک ملزم سمجھتی ہے یا ان کی غیر قانونی اور غیر روائیتی حرکتوں سے ’فیض یاب‘ ہوتی رہی ہے ۔ اس لئے عمران خان اب ضروری سمجھتے ہیں کہ کسی بھی طرح ثاقب نثار کی طرف اٹھنے والی انگلی کو ہی مشکوک ثابت کیا جائے۔ 2)تحریک انصاف کی حکومت اپنی سیاسی، معاشی اور انتظامی ناکامیوں سے آگاہ ہے اور اس کے پاس سرخرو ہونے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ اس لئے وہ ان معاملات کو عام مباحث سے دور رکھنے کے لئے میڈیا میں کوئی ایسا موضوع سامنے لانے میں مصروف رہتی ہے جس سے عوام اپنی مشکلات بھلا کر کسی ’نان اشو‘ پر الجھے رہیں ۔ سرکاری ترجمان جب ثاقب نثار آڈیو جیسے معاملہ میں خود ہی ’ایندھن‘ فراہم کریں گے تو ٹاک شوز، یو ٹیوبرز اور کالم نگار بھی حقیقی مسائل کی بجائے ان معاملات میں الجھے رہیں گے۔ حکومت اسے ہی اپنی کامیابی سمجھتی ہے۔

آڈیو کے فرانزک جائزہ میں اس آڈیو ریکارڈنگ کو اصل قرار دیا گیا ہے اور متعلقہ امریکی کمپنی نے واضح کیا ہے کہ اس میں کسی قسم کی ایڈیٹنگ نہیں ہوئی۔ تاہم ابھی تک ثاقب نثار نے اس آڈیو لیک کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ نہ ہی حکومت نے ایک سابق چیف جسٹس کو ’بدنام‘ کرنے والی اس سازش کو بے نقاب کرنے والے لوگوں کا سراغ لگانے اور سزا دلوانے کی بات کی ہے۔ البتہ سیاسی کھچڑی پکانے کے لئے ایسے موضوعات پر وزیر اعظم اپنے ترجمانوں کو میدان کارزار میں اترنے کا حکم صادر کرچکے ہیں۔ عمران خان اب ایسے ہی ہتھکنڈوں سے سیاسی بھرم قائم رکھنے اور حامیوں کو سہارا دینے کی کوشش کررہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments