برطانوی سامراج نے ہمیں کیسے لوٹا؟


عروج و زوال تو زندگی کا حصہ ہوتے ہیں لیکن اگر کسی خطے کی ساری سالمیت زوال کا شکار ہو جائے تو دوبارہ اس پر عروج کا آنا مشکل ہو جاتا ہے۔ برصغیر کے عروج کا بھی کچھ ایسا ہی حال انگریزوں نے کیا۔

مولانا سید حسین احمد مدنی کی کتاب ”برطانوی سامراج نے ہمیں کیسے لوٹا“ خوشحال ہندوستان کے عروج و زوال کی اچھی طرح عکاسی کرتی ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے پیچھے اس کی مضبوط معیشت، اعلیٰ تعلیم، صنعت و تجارت اور زراعت کی پیداوار کا خوشحال ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے برصغیر کا خطہ ”خوشحال اور دولت مند ہندوستان“ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ پروفیسر ہیرین ”ہسٹاریکل ریسرچ“ میں کہتا ہے :

”ہندوستان پرانے زمانہ میں دولت کے لیے مشہور تھا۔“

ہندوستان میں دولت اس قدر نچھاور تھی کہ ہر سال وہاں کا بادشاہ جشن کے دن سال بھر میں دو دفعہ سونے، چاندی اور قیمتی فلزات میں تولا جاتا تھا اور جو کچھ وزن میں چڑھتا غریب رعایا میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ ہر شب بادشاہ کے سرہانے ایک توڑا ہزار روپے کا رکھا جاتا اور صبح رعایا میں تقسیم کیا جاتا تھا ظاہر ہے کہ اس قسم کی خیرات اور رعایا پروری بغیر بے شمار دولت کے نہیں ہو سکتی مگر خدا جانے اس بے شمار دولت اور بے نظیر سرمایہ کو زمین کھا گئی، آسمان اچک لے گیا یا آندھی اڑا لے گئی۔

دراصل یہ طوفان، اندھی برطانوی سامراج کی شکل میں نمودار ہوئی اور ہندوستان کی بدنصیبی نے وہ دن دکھایا کہ وہ جنت نشان ملک یورپین اقوام اور بالخصوص برطانوی قوم کے ہاتھوں جہنم نشان اور تمام دنیا سے زیادہ مفلوک فاقہ مست اور محتاج ہو کر رہ گیا۔ اور اس بھی بڑھ کر جو رہا سہا سرمایہ ہاتھ میں بچا تھا وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی علیحدگی کے وقت قتل و غارت اور ملک کی معیشت کو سنبھالنے میں لگ گیا۔ اور انگریزوں نے دولت کے ایسے چھکے چھڑائے کہ آج پاکستان میں غربت کی شرح 4.4 فی صد سے 5.4 فی صد تک تجاوز کر چکی ہے اور انڈیا میں 9.7 فی صد تک۔

اور اوپر سے برطانوی سامراج نے پاکستان پر ایسے سخت انگیز سرمایہ دارانہ نقوش چھوڑے ہیں کہ کوئی بھی سرمایہ دار غربت کو کم کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ غریب، غریب سے غریب تر اور امیر، امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے دوسری جانب ہمارا ہر نیا آنے والا حکمران یہی رونا روتا ہے کہ پچھلے حکمران نے ملک کے خزانے کو بالکل خالی کر دیا ہوا ہے چنانچہ وہ اپنی پانچ سالہ مدت میں صرف اتنا ہی خزانہ جمع کرتا ہے جس سے صرف اس کا اپنا پیٹ، بیرون ملک سینکڑوں پلاٹ اور مال اکٹھا کرنے کی ہوس ہی پوری ہو سکے جس کی بنا پر اس کے آنے والے دن خوشحال گزر سکیں، رعایا کو اپنی طرف سے تسلی دلوانے کے لیے تین، چار منصوبے شروع کر دیے جاتے ہیں تب تک اس کی حکمرانی کی مدت ختم ہو جاتی ہے۔ انگریزوں نے تو ہمیں پوری طرح کنگلا کر ہی دیا تھا باقی رہی سہی کسر ہماری سیاسی جماعتیں اور سرمایہ دار طبقہ پوری کر رہے ہیں۔

دوسری جانب تعلیم کی شعور و آگہی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن برطانوی سامراج نے اسے بھی دھچکا دے دیا۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندوستان میں صرف ٹھٹھہ شہر میں چار سو کالج تھے۔ لالہ لاجپت رائے نے اپنی کتاب ”ان ہیپی انڈیا“ میں انگریزی سر رشتہ تعلیم کے افسروں کے حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ پہلے زمانہ میں ہندوستان میں تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد موجودہ زمانہ سے زیادہ تھی۔ اس طرح انگریزوں کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ تعلیم یافتہ لوگوں کی کثرت اگر ہندوستان میں رہی تو وہ ہماری حکومت کو فنا کر دیں گے اس لیے انہوں نے تعلیم گاہوں کو ملیامیٹ اور تعلیم کو نیست و نابود کر دیا۔

چنانچہ لارڈ میکالے اور اس کی کمیٹی تعلیمی اغراض و مقاصد اور ان کی سکیم کی رپورٹ میں یہ کلمات تحریر کرتی ہے کہ ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہیے جو ہم میں اور ہماری کروڑوں رعایا کے درمیان مترجم ہو اور یہ ایسی جماعت ہونی چاہیے جو خون اور رنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو مگر مذاق، رائے الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو۔ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کہتا ہے :

”ہمارے اینگلو انڈین اسکولوں سے کوئی نوجوان خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان ایسا نہیں نکلتا جو اپنے آبا و اجداد کے مذہب سے انکار کرنا نہ جانتا ہو۔ ایشیا کے پھلنے پھولنے والے مذاہب جب مغربی سائنس بستہ حقائق کے مقابلہ میں آتے ہیں تو سوکھ کر لکڑی ہو جاتے ہیں۔“

اب انگریز تو چلے گئے لیکن اپنے اثرات ایسے چھوڑ کر گئے جیسے ہمارا اور ان کا سات جنموں کا رشتہ ہو۔ اسی رشتے کو قائم رکھنے کے لیے لارڈ میکالے نے اپنا تصور تعلیم ہمارے حوالے کر دیا کہ لو بھئی آپ اسے ہی پڑھو، اپنے نظریے کو ہمارے نظریے سے بدلو تا کہ ہمارا جنموں جنموں کا رشتہ ازل تک قائم رہے۔ جس کے کھیل میں انہوں نے ہمیں ہی الو بنایا۔ جیسا کہ ہم آپ کے ملک کی بربادی آپ کے اپنے ہاتھوں سے ہی کروائیں گے، آپ لوگ خود ہی اپنے آپ کو ہم سے کم تر سمجھو گے، آپ کی زبان تو ہو گی لیکن رائج نہیں، آپ آزاد تو ہوں گے لیکن آزادی نصیب نہیں ہو گی۔

چنانچہ انگریزوں کو اپنے اس مشن میں کامیابی نصیب ہوئی اور آج آدھے سے زائد طلباء استعمار میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اور ہماری حکومت بھی تعلیم پر بجٹ لگاتے ہوئے پتہ نہیں کیوں اتنا ڈرتی ہے اس سال بھی تعلیم پر صرف 2.5 فی صد بجٹ پیش کیا گیا۔ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تعلیم کی اہمیت ہماری حکومت کے لیے کیا ہے۔

تیسری جانب برطانوی سامراج نے فرقہ واریت اور منافرت کی چنگاریاں سلگا کر اور ان کو ہوا دے کر متحدہ جماعتوں کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا کہ بس ان فرقوں میں پڑے رہو، ایک دوسرے کا گریبان چاک کرتے رہو تاکہ ملک کو ترقی کی راہ پر لانے کے لیے سنجیدہ مسائل کی طرف دھیان ہی نہ جائے۔ سر جان میلکم کہتا ہے :

”اس قدر وسیع ملک میں ہماری غیر معمولی قسم کی حکومت کی حفاظت اس امر پر منحصر ہے کہ ہماری عملداری میں جو بڑی جماعتیں ہیں ان کی عام تقسیم ہو اور پھر ہر ایک جماعت کے ٹکڑے مختلف ذاتوں، فرقوں اور قوموں میں ہوں جب تک یہ لوگ اس طریقہ سے جدا رہیں گے اس وقت تک غالباً کوئی بغاوت اٹھ کر ہماری قوم کے استحکام کو متزلزل نہ کرے گی۔“

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں برطانوی سامراج نے کیسے لوٹا بلکہ کیا کیا لوٹا اس پر توجہ دینی چاہیے، اپنی قابلیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ملک کی معیشت کو مضبوط بنائے، حفظان صحت پر توجہ دے، غربت کو کم کیا جائے، بے روزگاری کو ختم کیا جائے، قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھایا جائے، نوجوانوں میں شعور و آگہی پیدا کی جائے تاکہ ملک کی سالمیت کو برقرار رکھا جا سکے۔

ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے، امید بہار رکھ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments