حیدرآباد کی سوناری باگڑی جنھوں نے سکول کی عمارت نہ ہونے پر مندر کو ہی سکول بنا دیا

اختر حفیظ - صحافی


حیدرآباد کے علاقے پھلیلی کی غفور شاہ کالونی میں صبح ہوتے ہی بچے اور بچیاں اپنے کندھوں پر بستے لادے ایک مندر کی جانب نکل پڑتے ہیں۔ ویسے تو مندر عبادت کی جگہ ہے لیکن اس مندر کو سوناری باگڑی نے ایک سکول میں تبدیل کر دیا ہے۔

سوناری باگڑی میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے والی اپنے خاندان کی پہلی اور قبیلے کی چند خواتین میں سے ایک ہیں۔

اور اب اُنھوں نے خود کو بچوں کی تعلیم کے لیے وقف کر دیا ہے۔

سوناری کا تعلق سندھ میں آباد باگڑی قبیلے سے ہے جہاں تعلیم کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ اس قبیلے کے زیادہ تر افراد بشمول عورتیں کھیتی باڑی یا پھر جزوقتی کاروبار سے منسلک ہیں۔

باگڑی ایک خانہ بدوش قبیلہ ہے۔ یہ قبیلہ کاٹھیاواڑ اور مارواڑ سے سندھ میں داخل ہوا تھا۔ لفظ باگڑی کا استعمال ہر اس ہندو راجپوت کے لیے ہوتا ہے جو انڈین ریاست راجستھان کے بیکانیر علاقے کا باسی ہو۔

گرداسپور کے باگڑی سلہریا ہیں جو اپنے قبیلے کو باگڑ یا بھاگڑ کہتے ہیں۔ یہ قبیلہ علاؤالدین غوری کے دور میں دہلی سے ہجرت کر کے آنے والے راجپوتوں میں سے ایک ہے۔ آج بھی اس قبیلے کی سربراہی مرد کے بجائے عورت کے پاس ہوتی ہے جو گھر کے تمام تر معاملات دیکھتی ہے۔ زیادہ تر قبیلے میں مرد اور عورتیں ساتھ مل کر کام مزدوری کرتے ہیں۔

بنیادی طور باگڑی ایک خانہ بدوش قبیلہ ہے، لیکن چند دہائیوں سے باگڑی کسی بستی کی صورت میں مستقل طور رہنے لگے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان معاشروں میں باگڑی آج بھی شیڈول کاسٹ یا نچلی ذات تصور کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے یہ حقارت اور نفرت کا نشانہ بھی بنتے رہے ہیں۔

ان کے لیے دلت ہو کر اس معاشرے کی تمام تر تکالیف کو برداشت کرنا مشکل رہا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی کو برا یا کمتر ہونے کا طعنہ دینا ہو تو اسے بھی باگڑی کہا جاتا ہے۔

لیکن آج یہ قبیلہ تمام تر نفرت و حقارت کے باوجود اپنے راستے خود بنا رہا ہے اور نئے اطوار اپنا کر معاشرے کی ترقی و تعمیر کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

سوناری کو اپنے قبیلے کے بچوں کو تعلیم دینے کا خیال اس وقت آیا جب وہ خود چوتھی کلاس میں تھیں۔ انھوں نے حیدرآباد کے علاقے حسین آباد کے ہائی سکول سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ سنہ 2004 میں شادی کے بعد وہ پھلیلی نہر والی کالونی میں آ گئیں۔

شادی کے بعد انھوں نے گھر کا خرچہ پورا کرنے کے لیے شوہر کے ساتھ مل کر مزدوری کی۔ انھوں نے کپاس چُنی، گیہوں کی کٹائی کی اور مرچیں بھی چنیں۔ مگر بچپن میں دیکھا ہوا خواب اب بھی سوناری کے دل میں زندہ تھا، لہٰذا انھوں نے بچوں کو پڑھانے کا فیصلہ کیا۔

مگر نہ ان کے پاس کوئی ایسی جگہ تھی جہاں بچوں کے لیے سکول کھولا جاتا اور نہ ہی وسائل تھے۔ سوناری پہلے ٹیوشن پڑھانے لگیں۔ مگر پھر انھیں خیال آیا کہ ان کی بستی میں قائم مندر کو ہی سکول میں کیوں نہ تبدیل کیا جائے۔

اپنے خاندان کے بڑوں سے صلاح مشورہ کرنے کے بعد انھیں مندر میں سکول قائم کرنے کی اجازت مل گئی۔ ابتدا میں ان کے ہاں صرف تین بچیاں تھیں، جن میں دو اُن کی اپنی بیٹیاں تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ ’مندر والے سکول‘ میں بچوں کی تعداد بڑھتی گئی اور اب اس سکول میں 40 سے زائد بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

سوناری باگڑی بتاتی ہیں کہ انھیں علاقے کے ایک مخیر شخص ہر ماہ 5500 روپے بطور تنخواہ دیتے ہیں۔

اب تک ان کے سکول سے پانچ بچیاں پرائمری کی تعلیم مکمل کر کے ہائیر سیکنڈری سکول جانے لگی ہیں جن میں سوناری کی دو بیٹیاں بھی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’میری برادری میں لوگ بچیوں کو پڑھانا تو درکنار لڑکوں کو بھی نہیں پڑھاتے۔ میں اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھی جس نے سکول جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان دنوں پڑھائی کے دوران مجھے خیال آیا کہ اگر میں اپنے قبیلے کو سدھارنا چاہتی ہوں تو مجھے یہاں تعلیم عام کرنی پڑے گی۔ اس طرح لڑکے لڑکیوں کی تعلیم میرا مقصد بن گیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

کسان کی بیٹی جس کے تعلیمی سفر نے عالمی مقابلہ جیت لیا

وہ خاندان جس نے اپنی 19 ایکڑ زمین تعلیم کے لیے وقف کردی

انصر علی: یونیورسٹی کے ویٹر سے تعلیم یافتہ نوجوان تک کا سفر

’لیکن میں یہ سوچ کر پریشان ہوتی تھی کہ اس خواب کو پایہ تکمیل تک کیسے پہنچاؤں گی۔ مگر بچپن سے میرا یہ ارادہ تھا کہ میں اپنے قبیلے کے ان بچوں کو سکول کا راستہ دکھاؤں جو ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں۔‘

آج بھی اسی بستی میں تعلیم کا حصول اس لیے مشکل ہے کہ لوگ مزدوری کرنے اور کاروبار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ لڑکیاں کمسنی میں ہی بیاہ دی جاتی ہیں، لیکن سوناری نے اس کے برعکس سوچا۔ انھوں نے وہ راستہ چنا جو مشکل تو ضرور تھا مگر ناممکن نہیں تھا۔

سوناری کہتی ہیں کہ ’ہماری بستی میں یہ مندر کی سب سے بہترین جگہ ہے۔ اگر کوئی مہمان آتا ہے تو بھی اس کے ٹھہرنے کا بندوبست یہاں ہوتا ہے۔ کئی یاتری جو راما پیر کے میلے کے لیے جاتے ہیں تو وہ بھی چند روز یہاں گزار کر جاتے ہیں کیونکہ یہ مندر ہمارے لیے سب کچھ ہے۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ یہ ہمارے لیے ایک ایسا سایہ ہے جس کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔ یہاں سے سکول کوسوں دور ہے، اور بچوں کو نہر پار کر کے جانا پڑتا تھا۔ کئی بار بچوں کو کتوں کے کاٹنے کے واقعات بھی پیش آ چکے تھے۔ اس کے علاوہ بچوں کے آنے جانے پر بہت کرایہ لگ جاتا تھا۔‘

یہ مندر، شیو مندر، آج سے چار دہائی قبل تعمیر ہوا تھا۔ باگڑی قبیلے کے لوگ 70 کی دہائی میں ضلع مٹیاری سے آ کر یہاں آباد ہوئے تھے۔ اس زمانے میں پھلیلی کے ارد گرد گھنا جنگل تھا اور تب نہ تو تجاوزات تھیں اور نہ ہی اتنی تیزی سے بننے والے رہائشی منصوبے۔

مگر اب محکمہ آبپاشی کا کہنا ہے کہ نہر کے دونوں اطراف 60 فٹ زمین سرکاری ملکیت ہے، جس کی وجہ سے جتنی بھی تجاوزات ہیں، انھیں یہاں سے ہٹانے کا کام جاری ہے۔ جن میں باگڑی، کولہی، بھیل اور جانڈاڑوں کی بستیاں آ جاتی ہیں۔ حکام کے مطابق یہ مندر بھی تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے۔

سنہ 2016 میں ایڈووکیٹ شہاب اوستو نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک آئینی پٹیشن دائر کرتے ہوئے سندھ میں پینے کے پانی کے حوالے سے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے۔ اس وقت ایک برس کے لیے سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس اقبال کلہوڑو کو کمیشن کا نگران مقرر کیا گیا تھا۔

بعد میں عدالتی حکم نامے میں محمکہ آبپاشی سندھ کو یہ واضح ہدایت جاری کی گئی تھی کہ جانوروں کے فارم، گٹر اور دیگر رہائشی سکیمیں مسائل پیدا کر رہیں ہیں، لہٰذا ضلعی انتظامیہ تجاوزات کو ہٹائے۔

چنانچہ ان دنوں سوناری اپنے مندر والے سکول کے حوالے سے پریشان سی دکھائی دیتی ہیں۔ سندھ میں صاف پانی کیس کے حوالے سے حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ محکمہ آبپاشی کی زمین پر جتنے بھی قبضے ہیں انھیں ختم کروایا جائے۔

اسی حکم کی پیروی کرتے ہوئے محکمہ آبپاشی سندھ 2019 سے پھلیلی کے دونوں کناروں پر قائم تجاوزات ہٹا رہا ہے۔ صدیق ساند محمکہ آبپاشی میں سب انجینیئر ہیں اور اس وقت پھلیلی نہر پر تجاوزات ہٹانے اور بحالی کے کام کے نگران ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ عدالتی حکم کے پابند ہیں۔

’یہاں برسوں سے لوگ تجاوزات قائم کیے بیٹھے ہیں۔ نہر کے دنوں اطراف سے ہمیں 60 فٹ زمین خالی کروانی ہے جس میں ہر قسم کی تجاوازت شامل ہیں۔ یہ مندر بھی تجاوزات میں آتا ہے۔ فی الحال ہم نے اسے نہیں چھیڑا ہے کیونکہ یہاں سکول چل رہا ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ حتیٰ الامکان کوشش کی جا رہی ہے کہ مندر کو بچا لیا جائے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مندر محکمہ آبپاشی کی زمین پر 30 فٹ اندر ہے۔

’اگر ہمیں محمکہ کہتا ہے کہ مندر کو قائم رکھنا ہے اور جتنی زمین کنارے سے راستہ بنانے کے لیے مل سکتی ہے، اس پر اکتفا کیا جائے تو پھر شاید ہمیں اس مندر کو منہدم کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments