’کے پاپ‘: نوجوان پاکستانی مداحوں کی ’فوج‘ جو کورین میوزک اور ڈراموں کی دلدادہ ہے

کریم الاسلام - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


رمیزہ (دائیں) اور طوبیٰ (بائیں)
رمیزہ (دائیں) اور طوبیٰ (بائیں) ’کے پاپ‘ کی بہت بڑئ مداح ہیں
کیا آپ جانتے ہیں ’کے پاپ‘ کیا ہے؟

اگر آپ اِس سوال کا جواب نفی میں دینے والے ہیں تو ایک بار پھر سوچ لیں۔۔۔

پاکستان میں ’کے پاپ‘ یا کورین پاپ کو ٹین ایجر یا نوعمر لڑکے، لڑکیوں کا پسندیدہ میوزک سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اگر آپ بھی ہم سب کی طرح اٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں تو کبھی نا کبھی کہیں نا کہیں آپ کورین انٹرٹینمنٹ سے ضرور روشناس ہوئے ہوں گے۔

کون ہے جس نے مقبول ترین گانا ’گنگم سٹائل‘ نہ سُنا ہو اور باتھ روم میں ہی سہی۔۔۔ ڈانس کا وہ مخصوص انداز نہ اپنایا ہو۔

گھر میں چھوٹا بچہ ہو اور آپ کے کانوں میں بچوں کے پسندیدہ گیت ’بے بی شارک‘ کی آواز نا گونجی ہو۔۔۔ یہ ممکن نہیں۔

اور ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ نیٹ فلکس کے سبسکرائبر ہوں اور سب سے زیادہ دیکھی جانے والی سیریز ’سکویڈ گیم‘ کے بارے میں نا جانتے ہوں۔

یہ اور ایسے ہی بے شمار مقبول ڈرامے، گانے اور فلمیں ایشیا کے اِس چھوٹے سے ملک جنوبی کوریا کی تخلیق ہیں۔

گذشتہ چند دہائیوں میں کورین ثقافت نے دنیا بھر کے نوجوانوں کو اپنے سحر میں جکڑا ہے لیکن پاکستان جہاں کورین زبان سمجھنے والے انتہائی کم ہیں اور کوریا سے کوئی براہِ راست سماجی، ثقافتی اور تاریخی تعلق بھی نہیں۔۔۔ پاکستانی نوجوانوں کا یہ شوق ضرور حیران کُن ہے۔

یہی جاننے کے لیے ہم نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں رواں ماہ ہونے والے ’کے پاپ‘ یعنی کورین پاپ کارنیول میں شرکت کی۔

کراچی میں کوریا

شہر کے متوسط طبقے کے علاقے گلستانِ جوہر کے ایک میرج ہال میں ہونے والی اِس تقریب میں کوئی ایک سو کے قریب نوجوان لڑکے لڑکیاں شریک تھے۔

ہال میں داخل ہوتے ہی ایک جانب کورین کھانے فروخت ہو رہے تھے تو دوسری طرف کوریا کے مشہور و معروف پاپ بینڈز کی تصاویر اور اُن سے منسلک اشیا جیسے ٹی شرٹس، موبائل فون کورز اور گھریلو سجاوٹ کی چیزیں فروخت کی جا رہی تھیں۔

کے پاپ

‘بی ٹی ایس’ جنوبی کوریا کے چند بڑے بینڈز میں سے ایک ہے

سامنے بنائے گئے سٹیج پر لڑکے لڑکیاں باری باری کورین گانے گا اور اُن پر رقص کر رہے تھے۔ حاضرین کے درمیان موجود نوجوان آواز میں آواز ملا کر اُن کا ساتھ دے رہے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ ہزاروں میل دور واقع ایک اجنبی ملک کے گلوکاروں کے گیت نہیں بلکہ پاکستانی پاپ سٹارز علی ظفر اور عاطف اسلم کے مقبول گانے ہوں۔

کوریا کی لہر

لگ بھگ پانچ کروڑ آبادی کا ملک جنوبی کوریا دنیا بھر میں آرٹ اور انٹرٹینمنٹ کا مرکز بن چکا ہے۔ کوریائی میوزک، فلم اور ڈرامے آج امریکی اور برطانوی کلچر کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اِس ثقافتی لہر کو کورین زبان میں ’ہیلیو‘ کہا جاتا ہے۔

سنہ 1990 کی دہائی کی ابتدا سے کورین موسیقی کے عروج کا آغاز ہوا جسے آج ’کے پاپ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی موسیقی تھی جس میں روایتی کورین میوزک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ثقافتی اثرات قبول کیے گئے۔ سنہ 2012 میں ریلیز ہونے والے گانے ’گنگم سٹائل‘ نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑے اور بین الاقوامی میوزک چارٹس پر سرِفہرست رہا۔ اِس کے علاوہ بچوں کا پسندیدہ گیت ’بے بی شارک‘ یوٹیوب پر سات ارب بار سے زیادہ دیکھا اور پسند کیا گیا۔

گذشتہ بیس برسوں میں کوریائی فلموں نے بھی دنیا بھر میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ سنہ 2019 میں ریلیز ہونے والی فلم ’پیراسائٹ‘ نے جنوبی کوریا میں سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلم کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ ’بہترین فلم‘ کا آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والی وہ پہلی فلم تھی جو انگریزی زبان میں نہیں بنائی گئی تھی۔

حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں ’او ٹی ٹی‘ پلیٹ فارمز کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ کورین ڈرامے بھی گھر گھر پہنچ رہے ہیں۔ رواں سال کورین ٹی وی شو ’سکویڈ گیم‘ نے نیٹ فلکس پر سب سے زیادہ دیکھی جانی والی سیریز کا ریکارڈ بنایا۔

’کے پاپ‘ ہے کیا؟

کراچی میں حال ہی میں منعقد ہونے والے ’کے پاپ کارنیول‘

کراچی میں حال ہی میں منعقد ہونے والے ’کے پاپ کارنیول‘

مداحوں کے مطابق کورین میوزک ایک آڈیو ویوژل تجربہ ہے۔ یہ موسیقی کئی قسم اور کئی ممالک کے میوزک سے مل کر بنی ہے۔ ڈانس اِن گانوں کا لازمی حصہ ہے۔ کورین بوائے بینڈز میں ایک وقت میں سات سے گیارہ نوجوان شامل ہوتے ہیں جبکہ گلوکاروں کا لباس اور اُن کی مخصوص وضع قطع ’کے پاپ‘ کا لازمی حصہ ہے۔

’بی ٹی ایس‘ جنوبی کوریا کے چند بڑے بینڈز میں سے ایک ہے جسے حال میں دنیا کا مقبول ترین بوائے بینڈ بھی سمجھا جانے لگا ہے۔

‘بی ٹی ایس’ کا کورین زبان میں مخفف ’بُلٹ پروف بوائے سکاؤٹس‘ ہے۔ یعنی گروپ منفی معاشرتی رویوں سے اپنے فینز کا تحفظ کرتا ہے۔ کیونکہ بینڈ نوجوانوں کے لیے میوزک بناتا ہے لہذا یہ اُن کے ایشوز جیسے اعلیٰ تعلیم کا حصول، ملازمت کی تلاش اور والدین اور معاشرے کی توقعات کے سماجی پریشر کو موضوع بناتا ہے۔

‘بی ٹی ایس’ کی مقبولیت کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سنہ 2018 کے سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں بینڈ کو پرفارمنس کا موقع دیا گیا۔ اِس کے علاوہ ‘بی ٹی ایس’ کے ممبر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے بھی خطاب کر چکے ہیں۔

مداحوں کی فوج

کورین پاپ بینڈ ‘بی ٹی ایس’ کے مداح اپنے آپ کو ‘آرمی’ کہتے ہیں۔ یہ ‘فوج’ پاکستان میں بھی بڑی تعداد میں موجود ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی طوبیٰ اور رمیزہ خود کو اِس ‘آرمی’ کا حصہ کہلانا پسند کرتی ہیں۔

طوبیٰ امیر بتاتی ہیں کہ ابتدا میں وہ ایک نئی ثقافت کو اپنانے کے لیے بالکل تیار نہیں تھیں لیکن جب وہ ڈپریشن کے دور سے گزریں تو دھیان بٹانے کے لیے اُنھوں نے ‘کے پاپ’ سُننا شروع کیا جو اُنھیں اچھا لگا۔

BTS band members

جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے ‘کے پاپ’ گروپ بی ٹی ایس کے بارے میں 2020 میں یہ خبریں بھی سامنے آئئ تھیں کہ ان کی کمپنی کے شیئرز کوریا کی سٹاک مارکیٹ میں آنے والے ہیں

وہ کہتی ہیں ‘کورین میوزک زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ یہ خود سے پیار کرنے کے رویے کو فروغ دیتا ہے۔ گانوں کے ذریعے پیغام دیا جاتا ہے کہ انسان خود کو ترجیح اور اپنی ضروریات کو فوقیت دے۔ جب سے میں نے یہ موسیقی سُننی شروع کی ہے مجھے منفی خیالات سے چھٹکارا مل گیا ہے۔’

طوبیٰ کی دوست رمیزہ احمد بھی اتفاقاً کورین میوزک سے متعارف ہوئیں۔

‘میں ایک صحافی ہوں اور جب مجھے ‘کے پاپ’ کے بارے میں ایک آرٹیکل لکھنے کو دیا گیا تو مجھے اِس میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ پھر میں نے کورین میوزک ترجمے کے ساتھ سُنا اور اُس کے پیچھے چُھپے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اُس وقت سے میں اِس میوزک کی فین ہوں۔’

دیوانے پاکستانی فینز

طوبیٰ اور رمیزہ بتاتی ہیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر ‘کے پاپ’ کمیونٹی کافی متحرک ہے۔ مختلف شہروں اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ سب یک جان ہو کر اپنے پسندیدہ بینڈ کو سپورٹ کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سکوِڈ گیم: جنوبی کوریا کے ڈراموں کی دنیا بھر میں بڑھتی مقبولیت کا راز کیا ہے؟

کے پاپ سٹار کی موت طبعی، حادثاتی یا خودکشی؟

’کے پوپ‘ گروپ بی ٹی ایس کے ساتوں اراکین اکتوبر میں کروڑ پتی بننے والے ہیں

گنگنم سٹائل کا ریکارڈ ٹوٹ گیا

‘فینز اپنے پسندیدہ گروپس کی حمایت میں ٹوئٹر پر ہیش ٹیگز کے ذریعے ٹرینڈز چلاتے ہیں۔ جب کبھی بینڈ ممبرز کی سالگرہ آتی ہے تو سماجی خدمت کے پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ خون کے عطیات جمع کیے جاتے ہیں اور غریبوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ سکولوں اور فلاحی اداروں کو چندہ بھی دیا جاتا ہے۔’

بی ٹی ایس

رواں سال یکم ستمبر کو 'بی ٹی ایس' کے ممبر جیون جنگ کی سالگرہ پر اُن کے پاکستانی فینز کی جانب سے گوجرانوالہ میں مبارکباد کا بل بورڈ بھی لگایا گیا تھا۔ تاہم مقامی سطح پر شکایات موصول ہونے پر اُسے اُتار دیا گیا تھا۔

فینز کورین گیتوں کے کورز گا اور اُن پر ڈانس کر کے اپنے پسندیدہ پاپ بینڈز کو خراجِ تحسین بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ پرفارمنسز ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی دو بہنوں حدیقہ اور ماہ نور کے میوزکل گروپ ‘سن شائن گرلز’ کے یوٹیوب پر 35 ہزار سے زیادہ فالوورز ہیں۔

‘ہم ‘گرلز جنریشن’ کی بہت بڑی فین ہیں۔ یہ لڑکیوں پر مشتمل کورین پاپ بینڈ ہے۔ ہم لباس، میک اپ اور فیشن میں بھی اپنے پسندیدہ گروپ کا انداز اپناتی ہیں۔ جہاں تک ڈانس کا تعلق ہے تو کچھ گانوں پر پرفارم کرنا مشکل ہوتا ہے جبکہ کچھ گانوں کے سٹیپس کافی آسان ہوتے ہیں۔ ایک ڈانس سیکھنے میں کئی دن بھی لگ سکتے ہیں لیکن ہم یہ کام بہت جوش و جذبے سے کرتی ہیں۔’

ساس بہو کے ڈرامے؟

کورین میوزک کی طرح کورین ڈرامے بھی اپنے اچھوتے موضوعات، معیاری پروڈکشن اور حقیقت پسندانہ اداکاری کی وجہ سے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران جب گھروں میں قید ناظرین نے مقبول ‘او ٹی ٹی’ پلیٹ فارمز خاص طور پر نیٹ فلکس کا رُخ کیا تو اِن ڈراموں کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔

طوبیٰ اور رمیزہ کے مطابق پاکستانی ڈراموں کے مقابلے میں کورین ڈرامے اہم سماجی مسائل کو موضوع بناتے ہیں۔

‘ہمارے ڈراموں میں صرف ساس بہو کے جھگڑے دکھائے جاتے ہیں جبکہ کورین ڈرامے نوجوانوں کے مسائل کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ اگر امریکی ٹی وی کی بات کی جائے تو وہاں صرف نوجوانوں کو منشیات استعمال کرتے یا لڑکے لڑکیوں کے رومانوی تعلقات کو دکھایا جاتا ہے جو ہمارے معاشرے سے کافی مختلف ہے۔

رمیزہ (دائیں) اور طوبیٰ (بائیں)

دونوں سہیلیاں آج کل کوریائی زبان بھی سیکھ رہی ہیں

‘اِس کے برعکس کورین ڈراموں میں دکھایا جانے والا کلچر ہمارے کلچر سے کچھ کچھ ملتا جلتا ہے۔ مثلاً والدین اور بزرگوں کا بچوں کی زندگی میں کردار اور دیگر سماجی اقدار۔’

‘ٹُھکرائے ہوئے لوگوں کا میوزک’

میڈیا پنڈتوں کے مطابق کوریا میں ‘کے پاپ’ کو ایک انڈسٹری کا درجہ حاصل ہے لہذا اُس کی پروڈکشن اور مارکیٹنگ پر بہت توجہ دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال صرف اپنے میوزک کے ذریعے جنوبی کوریا کئی ارب ڈالر کا زرِمبادلہ کماتا ہے۔ فین اور تجزیہ کار شمائلہ کے مطابق ‘کے پاپ’ سنگر بننے کا عمل انتہائی مشکل اور صبر آزما کام ہے جو کئی کئی سال چلتا ہے۔

‘اِسی وجہ سے اِس میوزک کا معیار انتہائی اعلیٰ ہے۔ اِس کے علاوہ اِن گانوں میں صرف میوزک ہی نہیں بلکہ ویڈیو پر بھی توجہ دی جاتی ہے جس سے یہ دنیا بھر کی آڈیئنس کی توجہ حاصل کر پاتے ہیں۔ ‘کے پاپ’ آرٹسٹ اپنے فینز سے مسلسل رابطہ رکھتے ہیں اور اپنی زندگی کے کئی ذاتی پہلو بھی اُن سے شئیر کرتے ہیں جس کی وجہ سے پرستار بھی اُن پر جان چھڑکتے ہیں۔’

کراچی میں ہوئے ‘کے پاپ’ کارنیول کے دوران میری ملاقات تقریب کی میزبان زیست جیلانی سے بھی ہوئی۔ اُنھوں نے ‘کے پاپ’ کی بین الاقوامی مقبولیت کا ایک بالکل الگ نظریہ پیش کیا۔

‘یہ میوزک صرف کانوں کو بھانے والی موسیقی یا خوبصورت میوزک ویڈیوز ہی نہیں بلکہ سنجیدہ سماجی موضوعات پر آواز اُٹھانے کا ذریعہ بھی ہے۔ ‘کے پاپ’ معاشرے کے ٹُھکرائے ہوئے طبقوں کو اپناتا ہے۔ ایسے لوگ جب اِس میوزک کی طرف آتے ہیں تو اُنھیں وہ پیار اور قبولیت ملتی ہے جس کی وہ معاشرے اور گھر والوں سے امید کرتے ہیں۔ ‘کے پاپ’ ہمیں اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کا حوصلہ دیتا ہے۔ یہ تمام زنجیریں توڑ کر ہمیں اپنا آپ تلاش کرنے کی راہ دِکھاتا ہے۔’

کورین کھانا ایک چیلنج

رمیزہ (دائیں) اور طوبیٰ (بائیں)

کراچی میں منعقد ہونے والے کارنیول میں کوریائی ذائقے بھی پیش کیے گئے

‘کے پاپ’ کارنیول میں روایتی کورین کھانوں کے ایک سٹال پر ہوم شیف مائرہ احمد نے مجھے بتایا کہ گذشتہ چند برسوں میں پاکستان میں کورین کھانوں کی مانگ میں بے انتہائی اضافہ ہوا ہے۔

‘میں نے بھی یہ کھانے بنانے اِس لیے شروع کیے کیونکہ میں خود ‘کے پاپ’ کی بہت بڑی فین تھی۔ جب میں کورین ڈراموں اور میوزک ویڈیوز میں فنکاروں کو کورین کھانے کھاتے دیکھتی تو انٹرنیٹ پر جا کر اُن ڈشز کی ترکیب ڈھونڈ کر اُنھیں گھر میں بناتی۔ لیکن کورین کھانوں کے کچھ اجزا یہاں نہیں ملتے تو میں نے اُنھیں مقامی اجزا سے تبدیل کر دیا۔’

‘کم چی’ اچار کی طرح کی ایک مشہور کورین ڈش ہے جبکہ کورین ‘رامین’ یا نوڈلز اب پاکستان میں بھی کافی مقبول ہیں۔ لیکن پاکستانی ‘کے پاپ’ فینز کے لیے اصلی کورین کھانا ڈھوںڈنا اب بھی ایک چیلنج ہے۔ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں بھی مستند کورین ریسٹورنٹس کم ہیں۔

‘کوریا کا میوزک بھی کوئی سُننے کی چیز ہے؟’

بے تحاشہ مقبولیت کے باوجود ‘کے پاپ’ کو اکثر تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ کچھ حلقے کورین بوائے بینڈز کے ارکان کے میک اپ اور مخصوص انداز کو روایتی مردانگی کے اصولوں سے مترادف سمجھتے ہیں۔ لیکن ‘کے پاپ’ کی دیوانی نئی نسل معاشرے کے بنائے صنفی سانچوں میں ڈھلنے کو تیار نہیں۔

طوبیٰ امیر کا کہنا ہے کہ ‘میرے گھر والے تو حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن دیگر لوگ اکثر مذاق اُڑاتے ہیں کہ کوریا کا میوزک بھی کوئی سُننے کی چیز ہے؟ کیا تمھارے پاس اتنا فالتو ٹائم ہے؟ پھر یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ جب تمھیں کورین زبان نہیں آتی تو گانوں کے بول کیسے سمجھتی ہو۔’

کوریائی کھانے

طوبیٰ کا جواب ہوتا ہے کہ آرٹ کو سراہنے کے لیے کسی مخصوص زبان کا آنا ضروری نہیں۔ موسیقی اِس سب سے بالاتر ہے۔ لیکن طوبیٰ اور رمیزہ آج کل کورین زبان سیکھنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ کورین ڈرامے اور گانے اُن کی اصل زبان میں انجوائے کر سکیں۔

‘ہمارے خیال میں کسی نئی زبان پر دسترس ایک بہت اچھی چیز ہے۔ اِس سے آپ کا دماغ کُھلتا ہے اور آپ دوسری ثقافتوں اور ملکوں کے بارے میں جانتے ہیں اور باہر کی دنیا کے بارے میں اپنے غلط تاثرات کو ختم کرتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments