میتھیو محسن کا شعری مجموعہ ”خزاں کی محبت“


Dr Shahid M shahid

فنون لطیفہ روز اول سے تاحال انسان کو متاثر کرتے آرہے ہیں اور جب تک دنیا قائم و دائم ہے تخلیق کا عمل بھی نسل در نسل ظہور پذیر ہوتا رہے گا۔ بلاشبہ اصناف ادب میں غزل نے اردو شاعری کو فکری تنوع اور حیات نو بخشی ہے۔

اگر غزل کو اردو شاعری کی جان کہا جائے تو غزل کی اہمیت مطالعاتی تجسس کو بڑھا دے گی۔ ویسے اگر غزل کے حقیقی اور بنیادی موضوع کو زیر بحث لایا جائے تو وہ شگوفہ محبت ہی ہے اور محبت خدا کی ایسی ودیعت ہے جو کسی خاص طبقہ، گروہ، خاندان یا کسی ذات تک محدود نہیں بلکہ اس کی گرفت اور تاثیر عالمگیر ہے۔ اس لئے یہاں جذبہ اور ہمہ گیریت کے پہلو اکٹھے ہو جائیں وہاں غزل کو آفاقی لب و لہجہ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ غزل کا ایک خاص اسلوب، چاشنی، ہیئت، ترکیب، اور دلی جذبات کا خوبصورت بندھن ہوتا ہے جسے شاعر اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں لفظوں میں ڈھال کر اس کی اہمیت و خوبی بڑھا دیتا ہے۔

غزل کے متعلق دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا دامن یا کینوس محدود نہیں ہے بلکہ بہت وسیع و عریض ہے۔ اس کا تعلق انسان کی سوچ کے ہر زاویے اور وقت کی ہر کروٹ کے ساتھ پیوست ہے۔ یہاں انسانی جذبات مجروح اور بکھرے ہوں انہیں چند اشعار میں پرو کر بیان کرنا جذبات کی آفاقی اہمیت اجاگر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے جب یہ اشعار انسان کے دماغ کی پردہ سکرین سے ٹکراتے ہیں تو قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔ اساتذہ کے نزدیک غزل کے اشعار کی تعداد کم سے کم پانچ اور زیادہ سے زیادہ انیس ہونی چاہیے۔ لیکن ہمارے ہاں زیادہ پانچ، سات، نو، تیرہ اور پندرہ اشعار پر مشتمل غزل کا رواج ہے۔

اگر غزل کی خصوصیات پر روشنی ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس میں خیالات کا تنوع، تخیل کی بلندی، قلبی درد، احساسات و جذبات کا اظہار، خارجی مشاہدات، زبان و بیان کی سادگی، تشبیہات اور استعارات، قافیہ اور ردیف کی تکرار، ترنم، سوز و گداز اور موسیقیت شامل ہیں۔

یہاں غزل اتنی خصوصیات کی ملکہ ہے وہاں یہ کائنات کی وسعت کو بھی زیر بیان لاتی ہے تاکہ قاری کا دل بے اختیار ہو کر خدا کی تعریف و توصیف کے لیے دھڑکے۔ بہرحال غزل اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے اور دن بدن ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ یہاں یہ ہر روز نئے خیالات اور افکار اپنے اندر سمو کر نغمہ زن ہوتی ہے۔ یہ اپنی ترنم کی بدولت لوگوں کی روح کو آسودگی بخشتی ہے۔ آج غزل کی شادابی، گہرائی، معموری، اور برتری اس وقت تک زندہ رہے گی جب تک انسان کا دل دھڑکتا ہے۔

میری نزدیک علم و فلسفہ اور شعر و سخن سمندر سے زیادہ گہرے ہوتے ہیں یہ اپنا راستہ خود بنا کر باہر آ جاتے ہیں۔ مسیحی شعرا میں میتھیو محسن صاحب کا نام ہر دل عزیز دوستوں میں شامل ہے۔ میرے لیے یہ بڑے استحقاق کی بات ہے کہ مجھے ان کی کتاب *خزاں کی محبت* پڑھنے کا موقع ملا۔ جس میں ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں کو جان کر دلی خوشی ہوئی۔ ان کے حالات زندگی اس بات سے باخبر کرتے ہیں کہ انہوں نے شعر کہنے کا آغاز آٹھویں جماعت سے شروع کیا مثلاً میں ان کا بچپن کا لکھا ہوا ایک شعر قارئین کی نذر کرتا ہوں۔

اقرار محبت جو تم نے کیا تھا ندیا کے پار
دھڑکنوں میں پیار جگایا تھا ندیا کے پار

ان کی غزلیات میں محبت سے لے کر معاشرتی قربتیں شامل ہیں جو اس بات کا پختہ ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ زندگی میں محبت افضل ہے جس سے معاشرے کی بنیاد مضبوط اور ٹھوس ہوتی ہے اور اسی خوبی سے معاشرے سنبھلتے اور ترقی کرتے ہیں۔ وہ مفلس لوگوں کی تائید میں اپنے جذبات کو یوں بیان کرتے ہیں۔

وہی بدلیں گے اب نظام حیات
لوگ جو مفلسی کے مارے ہیں

خزاں کی محبت میں منفرد لب و لہجہ کا شاعر جناب میتھیو محسن مختصر بحروں کی روانی اور اختصار سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہاں روانی، تسلسل، پختگی، شیرینی، فنی محاصل اور تخیل کی بلند پروازی شعری تقاضوں کو پوری کرتی نظر آتی ہے۔

یہ بات ہم سب کے لیے باعث اطمینان ہے کہ میتھیو محسن نے اپنی غزلیات میں بہت سے موضوعات پر قلم فرسائی کی ہے جو قاری کے تجسس میں اضافہ کر دیتی ہے۔ خواب اور خیال تو ہر کسی کے پاس ہوتے ہیں جو ذہنی بلوغت اور تفسیر و تعبیر کا کام دیتے ہیں۔ لیکن ان کے اس شعر میں ان کی سوچ سے پھوٹتی کونپلیں ضرور دیکھیں۔

پھر نکالیں گے کونپلیں ہم بھی
کچھ تو زیر زمین نمی ہوگی

دنیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں انسان کو آئے دن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب زندگی میں خوف اور غم کی فضا پیدا ہو جائے تو وہاں الجھنوں کے جال بچھ جاتے ہیں۔

لیکن قدرت نے انسان کو تخیل کی بلندی اور صلاحیتوں کا لوہا منوانے کی طاقت دی ہوتی ہے جو زندگی میں اس کا قدم بقدم ساتھ دیتی ہے۔ ایسے حالات اور موسم میں دم اور توانائی حالات کا رخ بدل دیتی ہے۔ جب جذبات طلسماتی لبادہ اوڑھ لیں تو تبدیلی اور کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور جب تک دل میں درد اور امید کی کرن باقی ہے وہاں زندگی امید و بہار کا موسم آباد کر دیتی ہے۔ ان کے اس شعر میں قلبی درد کا سماں دیکھیے۔

بھٹک نہ جانا زمانے کی دھند میں محسن
تو اپنے دل میں سدا درد کی ضیا رکھنا

انسانی زندگی موسموں کی طرح ہوتی ہے یہاں خوشی اور غم موسمی تغیرات کی طرح آتے اور پھر چلے جاتے ہیں۔ یہاں انسانی زندگی موسموں سے عبارت ہے وہاں خزاں، بہار، سردی اور گرمی حالات و واقعات میں تغیرات کے خواہاں ہوتے ہیں۔ کتاب خزاں کی محبت انسانی زندگی پر گہرے نقوش مرتب کرتی ہے۔ اگر ہم محبت کا طلسم دیکھیں تو محبت بے موسم نظر آتی ہے۔ یہ کسی موسم میں بھی اپنا احساس اور زندگی کو اپنے رنگوں سے خوبصورت بنا لیتی ہے۔ یہ انسان کے خون میں ایک قدرتی حدت ہے جو موسمی تغیرات سے ٹھنڈی تو پڑھ سکتی ہے لیکن اپنے رنگ و بو کی بدولت ہر وقت ہمارے خون میں زندہ رہتی ہے۔ میں اپنی بات کو ان کے اس شعر پر ختم کروں گا۔

خزاں کے موسم میں بھی اک طلسم ہے محسن
یہ اور بات کہ تو دیوانہ بہار رہا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments