جناب وزیر اعظم! قومیں خوابوں سے نہیں،عمل سے تعمیر ہوتی ہیں


وزیر اعظم عمران خان نے بدعنوانی کو مسائل کی جڑ اور مدینہ ریاست کو عوام کے دکھوں کا مداوا بتاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ایک عظیم قوم بننے والی ہے۔ کوئی اس کا راستہ روک نہیں سکتا۔ اسلام آباد میں نوجوانوں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے خوابوں کی اہمیت اور عقیدے کی پختگی پر زور دیا اور بتایا یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ وزیر اعظم نے نوجوانوں کو خوابوں کی دنیا میں دھکیلنے کی یہ تازہ کوشش حال ہی میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے ایک ایسے معاہدے کے بعد کی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور پاکستانی حکومت کے مالی اختیارات پر قدغن عائد کی گئی ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ تازہ معاہدہ کی حتمی منظوری کے لئے البتہ پارلیمنٹ سے اسٹیٹ بنک کو عالمی مالیاتی ادارے کی خواہش و ہدایت کے مطابق مکمل خود مختاری دینے کا قانون منظور کروانا ہوگا۔ اس کے نتیجے میں اسٹیٹ بنک پر حکومت کا رہا سہا ’اثر و رسوخ ‘ بھی ختم ہوجائے گا۔ اسٹیٹ بنک اس نام نہاد خود مختاری کے بعد ملک میں شرح سود کا تعین کرنے میں آزاد ہوگا اور روپے کی قدر میں کمی بیشی کا فیصلہ بھی حکومت کی سیاسی ضرورتوں یا عوام کی کسمپرسی کو دیکھتے ہوئے کرنے کی بجائے، آئی ایم ایف کے معاشی اسٹرکچر کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے کیا جائے گا۔ یہ ڈھانچہ اس عالمی ادارے نے بیمار معیشیتوں کو ’صحت یاب‘ کرنے کے لئے تیار کیا ہؤا ہے۔ ابھی تک دنیا میں کوئی ایسی مثال موجود نہیں ہے جہاں پر آئی ایم ایف کے معاشی ڈھانچے کو مروج کرکے معاشی اصلاح کا کوئی ماڈل سامنے آیا ہو۔ البتہ پاکستان جیسے درجنوں ایسے ممالک ضرور ہیں جو ایک بار آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسنے کے بعد اس سے باہر نکلنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان بھی ہر دو تین سال بعد آئی ایم ایف سے امدادی پیکیج کا طلبگار ہوتا ہے۔

 جنوبی کوریا جیسے ملک نے آئی ایم ایف کے معاشی منصوبہ کا حصہ بننے کے بعد ضرور کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس کی وجہ اس قوم کا معاشی ڈسپلن، ایثار، کام کی لگن اور خود اپنے بل بوتے پر بحران سے باہر نکلنے کا عزم تھا۔ پاکستان میں ایسا کوئی ماحول دیکھنے میں نہیں آتا ۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کا ایک پیکیج مکمل ہونے کے بعد دوسرا لینے کی تیاری شروع کردی جاتی ہے اور ملک کا وزیر اعظم قوم کو یہ دلاسا دیتا ہے کہ ’ہمیں اس لئے قرضہ لینا پڑتا ہے کہ ہمارے پاس اپنے مصارف پورے کرنے کے لئے پیسے نہیں ہیں‘۔ یعنی سربراہ حکومت پاکستانی عوام کو بتا رہا ہے کہ ان کی حکومت کسی معاشی نظم و ضبط پر عمل کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اور اس بدنظمی و افراتفری سے نکلنے کا ایک ہی راستہ دکھائی دیتا ہے کہ آئی ایم ایف جیسے اداروں کی مسلسل ’غلامی‘ کا پھندا قوم کے گلے میں ڈالا جائے۔ اسے کسی لیڈر کی حوصلہ مندی، بے باکی، دیانت داری اور حقیقت پسندی نہیں بلکہ کم بصری کہا جائے گا جو معاشی مسائل، سماجی ضرورتوں اور سیاسی الجھنوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اور جس کے قریب ترین مشیر طوفان سے نکلنے کا راستہ دکھانے کی بجائے، خوشامد اور کاسہ لیسی کے ذریعے گمر اہی کے سفر کو زیادہ پیچیدہ اور مشکل بنا رہے ہیں۔ تاہم اس تصویر کا المناک پہلو یہ ہے کہ حکومت کی نااہلی کی قیمت پاکستانی عوام کو مہنگائی، اجناس کی کمیابی، معیار زندگی میں کمی اور افلاس و بیروزگاری کی صورت میں ادا کرنا پڑے گی۔ ساڑھے تین سال پہلے جو شخص پچاس لاکھ لوگوں کو گھر اور ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار دینے کے دعوے کرتا ہؤا اقتدار تک پہنچا تھا، اس دورانیے میں کئی کروڑ کو بیروزگار اور اتنی ہی بڑی تعداد کو غربت کی لکیر کی طرف دھکیلنے کا سبب بنا ہے۔

اس کی وجہ سادہ اور قابل فہم ہے۔ اسے جاننے کے لئے معیشت دان یا بہت بڑا دانشور ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہی معیشت پنپتی ہے جہاں انتشار اور بدامنی نہ ہو۔ سیاسی ماحول میں غیر ضروری کشیدگی نہ ہو اور جہاں کی حکومت یہ اندازہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو کہ کن مصارف سے جان چھڑانی چاہئے اور کون سے اخراجات عوامی بہبود کے منصوبوں کے لئے اہم ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ملک میں اگر کوئی ایسی حکومت موجود نہ ہو جو ذمہ داری قبول کرنے پر تیار ہو تو وہاں درست معاشی فیصلے ممکن نہیں ہوتے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے تین سالوں میں عوام نے اس صورت حال کا بخوبی مشاہدہ کیا ہے۔ وزیر اعظم بدستور یہی سمجھتے ہیں کہ ان کا سیاسی فائدہ اپوزیشن لیڈروں کو برا بھلا کہہ کر اپنے حامی طبقہ کو ساتھ ملائے رکھنے میں ہے۔ انہیں اس سے غرض نہیں ہے کہ اقتدار سے چمٹے رہنے کی ہوس سے ملک ایک ایسے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے جو ترقی و خوشحالی کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان کی مقبولیت کی بنیاد تین باتوں میں ہے۔

 ایک: اپنے خاص حامی حلقہ کو مسلسل اس دھوکے میں رکھا جائے کہ وہ پاکستان کو عظیم قوم بنانے کا خواب دیکھتے ہیں اور انہیں یقین دلا دیا جائے کہ خواب دیکھتے رہنے میں ہی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔ اس مقصد کے لئے عمران خان نے بڑی کامیابی سے کرکٹ سے حاصل ہونے والی شہرت اور مذہبی جذبات کو استعمال کیا ہے۔ آج کی تقریر کا نچوڑ بھی یہی تھا کہ نوجوان خواب دیکھیں اور مذہب پر سختی سے عمل کریں، ترقی و کامیابی خود ہی ان کے پاؤں چومے گی۔ کسی بھی قوم کے نوجوانوں کو کامیابی کا آسان راستہ درکار ہوتا ہے۔ جب ملک کا لیڈر ہی خوابوں کو قوم کو عظیم بنانے کی نوید دے گا تو نوجوانوں کو بھی محنت سے کوئی مقام حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ قوم پر پژمردگی طاری کرنے کایہ رویہ ایک لیڈر کی وقتی سیاسی کامرانی کا راستہ تو ہوسکتا ہے لیکن کسی قوم کی بھلائی، فلاح یا ترقی کا سبب نہیں بن سکتا۔

دوئم: وزیر اعظم جانتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی سیاسی پیغام نہیں ہے۔ اگر ان کے پاس ملک کو درپیش مسائل کا کوئی سیاسی ایجنڈا ہوتا اور اس کی تکمیل کے لئے انہوں نے سماجی و معاشی عوامل پر غور کیا ہوتا تو وہ اقتدار کے ساڑھے تین برسوں میں اس کے بنیادی خد و خال سامنے لاچکے ہوتے۔ اس کی بجائے وہ ’احساس‘ پروگرام کے تحت چند ارب روپے کے خیراتی منصوبوں کو فلاحی ریاست کے قیام کی طرف قدم قرار دے کر پاکستانیوں کو مسلسل خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ناکام پالیسی کو ’قابل فروخت‘ بنانے کے لئے سابقہ حکومتوں کے خلاف الزامات کو دہراتے رہنا اور انہیں چور لٹیرے کہنے کو عمران خان اہم ترین سیاسی منشور مانتے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بدعنوان لیڈر قوموں کو بھکاری بنا دیتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت کا سامنا کرنے پر تیار نہیں ہیں کہ گزشتہ ساڑھے تین سال سے ایک نام نہاد ایماندار اور اعلیٰ اخلاق کا حامل شخص ملک کا حکمران ہے لیکن کوئی معاشی و سماجی جائزہ پاکستانی معاشرے میں کسی بہتری کا نشان تلاش نہیں کرپاتا۔ بلکہ زوال، ابتری اور بحران کی ہر علامت ملک میں نوٹس کی جاسکتی ہے اور اس سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ حکومت کے پاس موجود نہیں ہے۔

سوئم: عمران خان اداروں کی سرپرستی سے ایک نام نہاد ’ہائیبرڈ‘ نظام کے نتیجے میں اقتدار تک پہنچے تھے اور ان کا خیال ہے کہ جب تک وہ ملک کے طاقت ور اداروں کو راضی رکھیں گے، تو ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔بلکہ آئیندہ انتخابات میں کامیابی کا امکان بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری کے حوالے سے عمران خان کی انا کچھ جوش میں آئی تھی کہ’ آخر میں وزیر اعظم ہوں، میری بھی کوئی اتھارٹی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مجھ سے بالا ہی بالا فیصلے کرلئے جائیں‘۔ اور جب دال گلتی دکھائی نہ دی تو بظاہر ’اسی تنخواہ پر کام‘ کرتے رہنے کی حامی بھرچکے ہیں بلکہ یہ یقین دلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ تو پہلے جیسے ہی وفادار اور اطاعت شعار ہیں، بس ایک لمحہ کو چوک ہوگئی تھی۔ ملک میں فیصلوں کی مجاز نام نہاد اسٹبلشمنٹ کے ایک خاص دھڑے کو چونکہ ملک کی دیگر دو بڑی اپوزیشن پارٹیوں کے بارے میں اب بھی تحفظات ہیں، اس لئے وہ بھی موجودہ حکومت کے خلاف کوئی بڑا بحران پیدا کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے۔

البتہ احتیاچی پیش بندی کے طور پر عمران خان عسکری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اختلافات سے پیدا ہونے والی کمی کو ملک کی عدلیہ کے ساتھ ’ایک پیج‘ پر آنے کی کوشش سے پورا کررہے ہیں۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف پہلے گلگت بلتستان کے چیف جج کے بیان حلفی اور پھر ایک آڈیو کلپ نے انہیں اس سلسلہ میں سنہرا موقع بھی عطا کیا ہے۔ وزیر اعظم کا خیال ہے کہ اگر ملک کی اعلیٰ عدلیہ ان کے ہاتھ میں ہوگی تو شاید عسکری اسٹبلشمنٹ بھی انہیں کمزور کرنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتہ کے دوران وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں نے ثاقب نثار کو ’حفاظتی چھتری‘ تلے لینے کی کوشش کی ہے۔ ثاقب نثار یوں بھی عمران خان کے ذاتی محسن ہیں۔ ان ہی کی نظر عنایت کی وجہ سے عمران خان کو ’صادق و امین‘ کا سرٹیفکیٹ عطا ہؤا تھا ۔ ورنہ وہ بھی شاید جہانگیر ترین کی طرح اپنے زخم چاٹ رہے ہوتے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے اثرات پاکستانی عوام آنے والے وقت میں محسوس کرتے رہیں گے۔ اس سے حکومت پاکستان کی مالی خود مختاری بھی زک پہنچے گی۔ وزیر اعظم پر لازم تھا کہ وہ کسی بھی پبلک پلیٹ فارم پر بات کرتے ہوئے اس سلسلہ میں اپنی پوزیشن واضح کرتے۔ لیکن آج ان کے خطاب سے قوم نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ عمران خان کو آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کے غریب عوام پر لادے گئے بوجھ سے زیادہ، اس بات سے پریشانی لاحق ہے کہ ثاقب نثار کی آڈیو لیک ’ڈرامہ‘ ہے اور اس سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوسکے گا۔ یا یہ کہ لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں منتظمین نے ایک طرف چیف جسٹس اور اعلیٰ عدلیہ کے دیگر ججوں کو مدعو کیا تو دوسری طرف ایک ایسے سابق وزیر اعظم کو بھی خطاب کی دعوت دی جو عمران خان کے بقول سزا یافتہ اور مفرور ہے۔

عاصمہ جہانگیر کانفرنس مٰیں صرف قانون کی حکمرانی، اداروں کی خود مختاری اور سیاست میں غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کو مسترد کرنے کی بات کی گئی تھی۔ عمران خان کی حکومت نے صرف نواز شریف کی تقریر کو نشر ہونے سے روکنے ہی کی کوشش نہیں کی بلکہ علی احمد کرد جیسے عام وکیل کی گفتگو کو بھی میڈیا پر نشر نہیں ہونے دیا گیا۔ عمران خان کو جان لینا چاہئے کہ مسائل سے نگاہیں چرا کر، نوجوانوں کو جھوٹے خواب دیکھنے کا راستہ بتا کر اور جبر کے ہتھکنڈوں سے اختلاف رائے کو دبا کر نہ ماضی میں کوئی حکمران کامیاب ہؤا ہے اور نہ ہی عمران خان اس مقصد میں کامیاب ہوسکیں گے۔ وہ قوم کو سرخرو دیکھنا چاہتے ہیں تو ملک کے وزیر اعظم کے طور پر اپنی ذمہ داری پوری کریں، غلطیوں کا اعتراف کریں اور سیاسی ماحول میں تلخی گھولنا بند کیاجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments