کیا آپ گردے ناکارہ ہونے سے بچنا چاہتے ہیں؟


میرے بھانجوں کا مسلسل مطالبہ ہوتا ہے، ”اکبر ماموں! آپ کم ازکم چھوٹی کار ہی خرید لو۔“ ۔ بڑی بہن کہتی ہیں چلو کار نہیں لیتے تو موٹر سائیکل لے لو۔ میری خواہش ہوتی ہے، میں بہاول پور شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں واقع بہاولپور ریلوے اسٹیشن تک پیدل واک کروں۔ پیاس لگے تو پانی کی بوتل خرید کے پی لوں۔ راستے میں آنے والے ڈھابوں پہ سستا لوں۔ وہاں ایک کپ چائے پی لوں۔ وسائل ہوتے تو ذاتی جہاز خرید لیتا۔ رات کو بیٹھے بیٹھ دل کرتا تو میکسیکو کی کوئلوں پہ بھونی جانے والی خوشبو دار مصالحے والی چانپیں کھانے چلا جاتا۔

وہاں سے جمیکا جا کے جمیکن کافی پیتا۔ مراکش کی گرم مصالحہ مارکیٹ سے گھر کے لیے مصالحے خریدتا۔ ترکی میں جہاز اتار کے آپ سب دوستوں کے لیے بقالہ مٹھائی خریدتا۔ جہاز میں ترکش مٹھائیوں کے چار پانچ ہزار ڈبے رکھنے کی جگہ تو ہوتی۔ نواب نہ سہی لیکن ہمارا دل بہت بڑا ہے۔ سچ مچ آپ لوگوں کے لیے بقالہ لے آتا۔ رات اڑھائی تین بجے تک بہاول پور واپسی بھی ہو جاتی۔ ہنس رہے ہیں۔ ارے بھئی، آنے والی ٹیکنالوجی سے جہازوں کی اسپیڈ اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ ہر ملک میں آدھ پون گھنٹے کے وزٹ کے بعد آپ ایک ہی رات میں آٹھ دس ملک گھوم کے اپنے ملک میں واپس بھی آ جائیں گے۔ اس ٹیکنالوجی کے تجربات ہو چکے ہیں۔ چند سالوں میں مارکیٹ میں آ جائے گی۔ (ویسے اگر میرے پاس ذاتی جہاز ہوتا تو نیب والوں نے کہنا تھا، ”یا شیخ! ساڈے ول ویکھ“ ۔ اچھا ہے بغیر جہاز کے ٹھیک ہیں۔ کبھی کبھی طویل واک سے تھک جائیں تو خود ہی جہاز بن جاتے ہیں۔ )

30 دسمبر 2020 کی بات ہے فیس بک لاگ ان کی تو ملتان والے سینئر ادبی نقاد اور استاد پروفیسر انوار احمد صاحب نے سینئر صحافی مظہر عباس کا اپنی بیوی محترمہ ارم عباس عرف ڈولی صاحبہ کی وفات پہ لکھے جانے والے کالم ”ایسے بھی کوئی جاتا ہے“ کی پوسٹ لگائی ہوئی تھی۔ جنگ کی ویب سائٹس پہ جا کے کالم پڑھا۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ مجھ سے اور کچھ بھی نہ پڑھا گیا۔ مجھے اپنی موت سے ڈر نہیں لگتا لیکن اپنے والد صاحب کی وفات کے بعد کسی کی بھی موت کی خبر سن کے میرا دل غم کی کیفیت میں چلا جاتا ہے۔ ماں باپ، بہن بھائی، اولاد، میاں بیوی کا آپس میں اگر پیار بہت زیادہ ہو، خونی رشتے، ان سب میں سے کوئی بھی ہم سے جدا ہو جائے تو ساری زندگی صدمے کے اثرات محسوس ہوتے رہتے ہیں۔

ایک شخص جو اپنی بیوی سے شدید محبت کرتا ہو۔ جس کا اپنی شریک حیات کے ساتھ تیس سال تک زندگی کا ساتھ رہا ہو۔ اس خاتون کے گردے فیل ہو گئے تو اسے لے کے ہسپتالوں میں رلتا رہا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ زندہ نہیں بچے گی۔ بس مسلسل ایک غم اور نہ ختم ہونے والی ذہنی اذیت میں مبتلا رہا۔ اپنے کالم کے آخر میں مظہر عباس صاحب نے لکھا، ان کی بیوی کو روزانہ بارہ سے چودہ گولیاں کھانا پڑتی تھیں۔ خیال ہے کہ گردے مکمل ناکارہ ہو جانے اور پھر وینٹی لیٹر پہ خاتون کے چلے جانے کی وجہ بھی وہی تھی۔ اسی پہ اس بلاگ میں بات کرتا ہوں۔ آپ بھی گردے فیل ہونے اور ڈائلیسز کروا کروا کے نہیں مرنا چاہتے تو تھوڑا غور سے میرا یہ بلاگ پڑھ لیجیے گا۔

انگریزوں اور نواب آف بہاولپور کا بنایا ہو درجنوں ایکٹرز پہ پھیلا ہوا اسٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال بہاول وکٹوریہ ہسپتال مریضوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ایمرجنسی شعبہ اگر سات سو مریضوں کی گنجائش رکھتا ہے تو روزانہ سات ہزار مریض آ رہے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹرز بھی اتنی زیادہ تعداد میں مریضوں کا علاج کرتے کرتے چڑچڑے اور نفسیاتی ہوئے بیٹھے ہوتے ہیں۔ نرسز بھی تنگ آئی ہوتی ہیں۔ میڈیکل کالونی میں اسپیشلسٹ ڈاکٹرز سو ڈیڑھ سو پرائیویٹ مریض دیکھنے کے بعد رات کے بارہ ایک بجے تھکا ہارا اپنے بستر پہ جانا چاہتا ہے لیکن اس کی کوٹھی پہ ابھی بھی مریض بیٹھے ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے لوگ اتنا بیمار کیوں ہو رہے ہیں؟ دل اور گردے ناکارہ ہو جانے والے مریضوں کی تعداد کیوں بڑھتی جا رہی ہے اور ڈائلیسز مشینیں کم پڑتی جا رہی ہیں؟ لوگ ذیابیطس، کڈنی فیل اور ہارٹ اٹیک سے کیوں مر رہے ہیں؟ اصل وجوہات کیا ہیں؟

ٓآپ نے سنا اور پڑھا ہو گا کہ زیر زمین پانی خراب ہو چکا ہے لوگوں کے گردے فیل ہو رہے ہیں۔ مانا یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے لیکن مشاہدہ ہے کہ نہیں گردے ناکارہ ہونے اور لوگوں کے ڈائلیسز مشینوں پہ پہنچ کے مرنے کی اصل اور سب سے بڑی وجہ ادویات کا مسلسل، بے تحاشا اور زیادہ استعمال ہے۔ ادویات ہی گردے فیل کر رہی ہیں۔ لوگوں کو ہارٹ اٹیک کر رہی ہیں۔ ایک شخص دل کی بیماری یا ذیابیطس کا مریض ہے۔ کسی وقت اس کا پیشاب رک گیا اور تین چار دن تک نہیں آیا لیکن وہ اس دوران انسولین لگاتا رہا یا دل کی یا بلڈ پریشر کی دوائیاں بھی کھاتا رہا تو ایک ہفتے کے اندر اندر گردے فیل ہو جاتے ہیں۔

مریض کو ایک ہی نسخے میں دس پندرہ دوائیاں اکٹھی لکھ کے دینے والے اسپیشلسٹ ڈاکٹرز بڑے آرام سے کہہ رہے ہوتے ہیں، ”اب آپ اس کو ڈائلیسز مشین پہ لے جائیں اور بس دعا کریں۔“ ۔ اسپیشلسٹ ڈاکٹرز اب خود بھی ہارٹ اٹیک اور ذیابیطس سے مر رہے ہیں۔ ظاہر ہے ایک بندہ نہ پیدل چلے گا نہ اپنے جسم کو حرکت میں لائے گا۔ بس مریض دیکھ رہا ہے اور رات کو کھانا کھا کے سو جاتا ہے۔ معمولی سی تکلیف پہ وہ خود بھی بے دھڑک دوائیاں کھائے گا تو چاہے اس کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگا ہے لیکن ہے تو وہ بھی انسان۔

خود کو ہسپتال کا مستقل مریض بنانے کا آغاز آپ خود ہی سنی سنائی اور سیلف میڈیکیشن پہ لی جانے والی ادویات سے کرتے ہیں۔ خاندان اور ملنے والوں میں کوئی آپ کو کہہ رہا ہوتا ہے۔ بلڈ پریشر کی گولی باقاعدگی سے لو۔ تھوڑی سی کھانسی ہو گئی تو ارد گرد کے خود ساختہ ڈاکٹرز سیرپ اور کیپسولز کے نام بتا رہے ہوتے ہیں۔ میٹھی چیز زیادہ کھا لی اور ٹیسٹ میں تھوڑا شوگر آ گئی تو مشورہ پیش خدمت ہوتا ہے ”فوراً انسولین شروع کرو“ ۔

حالانکہ تھوڑی بہت ذیابیطس کو آپ کسی دوا یا انسولین کے بغیر صرف پرہیز، باقاعدہ واک اور ورزش سے کنٹرول کر سکتے ہیں۔ اکبر شیخ اکبر کا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ وہ کبھی کبھی بہت زیادہ طویل واک یا جسمانی مشقت سے اچانک نقاہت اور کمزوری محسوس کرتا ہے تو مطلب شوگر ڈاؤن ہو گیا ہے تو وہ چاکلیٹ، ٹافی یا کھانے پینے کی کوئی بھی چیز کھا لیتا ہے۔ اگر کوئی میٹھی چیز زیادہ کھانے سے اس کا شوگر لیول ہائی ہو گیا ہے تو وہ انسولین یا گولی نہیں لیتا بس اپنی واک بڑھا دیتا ہے اور پرہیز کے اصول پہ چلتا ہے۔ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد کلونجی کے تیل کے تین چار قطرے زبان پہ ڈالتا ہے۔ اسے سالن پہ ہلدی، کچا ادرک، کچا لہسن، کٹی ہوئی کچی ہری مرچ اور کالی مرچ ڈال کے کھانا بھی بہت پسند ہے۔ ڈھابے پہ دار چینی والی چائے پیتا ہے۔ دار چینی شوگر لیول کو ہائی نہیں ہونے دیتی۔

مغرب میں اکیلا ڈاکٹر عموماً زیادہ سے زیادہ تین اور ڈاکٹرز کا بورڈ پانچ دوائیوں تک جا تا ہے۔ یہاں کاغذ کا آخری کونا آنے تک جتنی زیادہ دوائیاں لکھ سکتے ہیں لکھ دیتے ہیں۔ انسولین شروع کرانے سے پہلے مریض کو بریفنگ نہیں دی جاتی۔ کب کتنی مقدار میں لینی ہے۔ کون سے ایمرجنسی حالات میں عارضی طور پہ روک دینا ہے۔ بلڈ پریشر کی گولیوں کا خواہ مخواہ عادی بنایا جاتا ہے۔ ٹی وی چینلز، اخبارات اور فیس بک پہ اشتہارات کے ذریعے فارما سوٹیکل کمپنیاں لوگوں کو سیلف میڈیکیشن کے راستے دکھا رہی ہوتی ہیں۔

ڈائلیسز مشینوں اور ہسپتال کے بستر پہ تڑپ تڑپ کے مرنے سے بچنا چاہتے ہو تو جتنا ہو سکے، دوائیوں سے دور رہو۔ معمولی سر درد، نزلہ زکام، بخار، گلا خراب ہونے یا جسم میں معمولی درد ہونے پہ دوائیوں کی طرف نہ بھاگو، اپنی قوت مدافعت کو دو چار دن ہفتہ کام کرنے دو ، وہ خود ہی قابو پا لیتی ہے۔ انتہائی مجبوری بھی ہو تو بے تحاشا دوائیاں کھانے کی بجائے صرف ضرورت کی دوا کھاؤ اور جیسے ہی ٹھیک ہو جاؤ، دوا کھانا چھوڑ دو ۔

اپنا گلاس علیحدہ رکھو اور صاف پانی پیو۔ گھر سے باہر بھی ڈھابوں پہ پڑے گلاس میں پانی پینے کی بجائے پانی کی بوتل خرید لو یا ڈھابے والے سے ڈسپوزایبل گلاس لے کے پانی پیو۔ اسٹریٹ اور جنک فوڈ اور سافٹ ڈرنکس کا کبھی کبھی شوق پورا کر لو لیکن روز کی روٹین نہ بناؤ۔ برگر، شوارما، بریانی وغیرہ کے لیے فوڈ اسٹالز والے کو ڈسپوز ایبل پلیٹ میں دینے کا کہو۔ یورپ میں لوگ عموماً ہفتہ میں صرف ایک بار کسی معیاری ریسٹورنٹ سے اپنا پسندیدہ کھانا کھاتے ہیں۔

ہمارے ہاں فوڈ پانڈا اور ہوم ڈیلیوری کے ذریعے روزانہ اسٹریٹ اور جنک فوڈ منگوانے کا رجحان پیدا ہو چکا ہے جو بیماروں کی تعداد مزید بڑھا رہا ہے۔ بازار میں لیمن اینڈ لائم، فالسہ، جامن، لیچی اور مختلف ناموں سے جو رنگ برنگے مقامی سوڈا واٹرز ہیں وہ چین سے درآمد کردہ کیمیکل سے بن رہے ہیں اور براہ راست آپ کے گردے ناکارہ کر رہے ہیں۔ اپنی ذات اور اپنے بچوں سے پیار ہے اور اپنے لواحقین کو مسلسل غم سے بچانا چاہتے ہو تو پھر منشیات اور سادہ سگریٹ دونوں سے دور رہو۔

پہلے تو شراب بالکل نہ پیو اگر نہیں رہ سکتے تو پھر مقامی کپی پینے کی بجائے یورپ سے آنے والی اوریجنل وائین کے صرف ایک چھوٹے سے جام تک خود کو محدود رکھو۔ مقامی اور ہمسایہ ملک سے آنے والی شراب پینے کا مطلب آپ نے خود کو ڈائلیسز مشین تک لے جانے کے ڈاکومنٹس پہ دستخط کر دیے ہیں۔ میٹھا پان کبھی کبھار۔ گٹکا اور تمباکو والے پان سے سختی سے پرہیز کرنا ہے۔ ٹھیک ہے آپ نے کافی پیسے کما کے گاڑی خرید لی ہے لیکن باہر سبزی اور گروسری لینے کے لیے مارکیٹ تک گاڑی کی بجائے پیدل جاؤ تاکہ آپ کے جسم کو حرکت ہو۔

اگر موٹر سائیکل رکھتے ہو تو گھر کے کمرے سے صحن میں بنے واش روم تک موٹر سائیکل پہ بیٹھ کے جانے کی خواہش نہ کرو۔ اگر روزانہ واک اور جسم کو حرکت میں رکھنے کے اصول پہ گاڑی اور موٹر سائیکل کا عادی ہونے کی وجہ سے نہیں چل سکتے تو خود کو مستقبل میں ہسپتال کا مریض اور دل اور کڈنی وارڈز کے بیڈ پہ جانے کے لیے تیار سمجھو۔ اپنی ماں، بہنوں، بیٹیوں اور اپنی بیوی سے پیار ہے تو انھیں گھر کی چار دیواری تک محدود دیکھنے کی بجائے واک پہ ساتھ لے جاؤ ورنہ مستقبل میں وہ ہسپتال کے بیڈ پہ ہوں گی اور آپ شدید ذہنی اذیت سے گزر رہے ہو گے۔

ڈنر ٹھیک مغرب کی نماز کے بعد کر لو۔ جتنا ڈنر لیٹ کرو گے اتنا بیماری کی طرف بڑھو گے۔ جو لوگ لیٹ نائٹ کھانا کھانے کے عادی ہوتے ہیں وہ معدہ، تبخیر، بلڈ پریشر اور دل کے امراض کا سامنا کرتے ہیں۔ کبھی کبھی بار بی کیو یا ہوٹلنگ کے لیے رات کو باہر چلے جاؤ لیکن گھر پہ روزانہ ڈنر میں چاول، آلو، گوبھی، بڑا گوشت اور تبخیر پیدا کرنے والی غذا بالکل نہ لو۔ ناشتہ چاہے ڈٹ کر کرو لیکن ڈنر میں دال، شوربہ، سبزی وغیرہ ہی لو اور ڈٹ کے نہ کھاؤ بس ہلکا پھلکا۔ میٹھی چیز کبھی کبھی بس ایک چھوٹا سا ٹکڑا۔ پلیٹیں بھر بھر کے مٹھائیاں، کیک وغیرہ نہ کھائیں۔

ڈنر کے بعد دانت برش کریں اور پھر رات کو کچھ بھی نہیں کھانا۔ ڈنر کے ایک گھنٹہ بعد پانی پینا ہو تو پی لیں۔ سونے سے چند لمحے پہلے پانی پینا، اگر گردے مضبوط ہوں تو برداشت کر جاتے ہیں۔ کمزور گردے والوں کے لیے سونے کے لیے بستر پہ جاتے ہوئے پانی پینا ٹھیک نہیں۔ سونے سے پہلے واش روم جانے کی حاجت ہو تو پہلے واش روم جائیں پھر بستر پہ۔ جو لوگ ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھنے کے لیے اپنا پیشاب اور ریح روکے رکھتے ہیں، ان کے گردے بھی لازماً نقصان اٹھاتے ہیں۔ سخت سردی میں پانی سے وضو نہیں کر سکتے تو گھر کی دیوار پہ ہاتھ لگا کے تیمم کر لیں، آپ کی نماز قبول ہو جائے گی لیکن جان بوجھ کے اپنے گردوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔

کچھ خواتین شاپنگ کے لیے صبح بازار میں داخل ہوتی ہیں اور شام کو نکلتی ہیں۔ اس دوران وہ اپنا پیشاب روکے رکھتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ بڑھاپا آنے تک گردے ناکارہ۔ ماں کو ڈائلیسز پہ دیکھ کے اولاد نہ جی رہی ہوتی ہے نہ مر رہی ہوتی ہے۔ بہتر ہے دو تین گھنٹے کے اندر شاپنگ وائنڈ اپ کر کے گھر کو لوٹ آئیں اور جو چیز رہ گئی ہو وہ اگلے دن جا کے خرید لیں۔

دوسروں کی ٹوہ لینے، دوسروں کی غیبت کرنے اور دوسروں کے لیے حاسدانہ سوچ آپ کے اندر منفی انرجی پیدا کرتی ہے اور میڈیکل سائنس سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ منفی انرجی انسان کے جسم میں فزیکل بیماریاں پیدا کر رہی ہے۔ انا پسند نہ بنو۔ انا پسند اور اکثر غصہ کرنے والے لوگ لازمی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ بلاگ میں دیے گئے مشورے اکبر شیخ اکبر کے ذاتی مشاہدے، مطالعہ، تحقیق اور تجربات پہ مبنی ہیں۔ اس بلاگ کو اپنے پاس محفوظ کر لیں اور اگر شیئر کر دیں تو بہت لوگوں کا بھلا ہو جائے گا۔ (نوٹ۔ انٹر نیٹ پہ فری لانسر کے طور پہ کام کرنے کے لیے اگر آپ ویب سائٹس اور گرافک ڈیزائننگ بنانا نہیں جانتے۔ انگریزی لکھ بول نہیں سکتے توبھی کوئی بات نہیں، آپ گھر بیٹھے صرف ایمزون کی پراڈکٹس کے لنکس اپنی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پیج پہ شیئر کر کے کمیشن کی رقم اپنے جاز کیش میں حاصل کر سکتے ہیں۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments