امرتا پریتم۔ ایک یاد (3)


ادبی رسالے سویرا کا شمارہ جس کا نمبر بارہ تھا، غالباً ً پچاس کی دہائی کے پہلے سالوں میں احمد راہی کی ادارت میں شائع ہوا تھا۔ احمد راہی کے امرتا پریتم پر لکھے ہوئے مختصر تعارف کے ساتھ آنکھوں پر لکھی امرتا جی کی یہ تین چھوٹی چھوٹی خوبصورت نظمیں بھی سویرا کے اسی شمارے میں چھپی تھیں۔

(1) کہندی ساں تیری نین ندی۔ میں کر سکاں کی پار
ڈول گئی میرے من دی نیہا۔ میرے چھٹک گئے پتوار
نہ ہن بیڑی، نہ ہن چپو۔ نہ ارار نہ پار
پر ایدوں ودھ اساں ہور کی لیناں۔ تیرے تیناں دے وچکار

( میں کہتی تھی کیا میں تمہاری آنکھوں کی ندی پار کر سکوں گی۔ لیکن تمہاری آنکھوں کی ندی میں داخل ہوتے ہی میرا من ڈگمگا گیا۔ میرا دل گھبرا گیا اور پتوار میرے ہاتھوں سے چھوٹ گئے۔ اب نہ میرے پاس کشتی ہے اور نہ ہی چپو۔ میں تمہاری آنکھوں کے ندی میں ہوں نہ تو ادھر کنارے پر ہوں اور نہ ہی ادھر کنارے پر۔ میں تیری آنکھوں میں ڈوب گئی ہوں۔ لیکن میرے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ میں تیری آنکھوں کے سمندر میں ہی رہ گئی ہوں۔ )

(2) اینا اکھیاں نے سانوں ایکن تنبیا
جیوں پینجے نے روں
آکھاں تے سہی، کچھ اکھیاں نوں
پر کی کراں اینہاں اکھیاں وچ
وسناں ایں توں

( میری ان آنکھوں نے میری اتنی تمائی کی ہے، مجھے اتنا زیادہ تنگ کیا ہے۔ (روئی کی تمائی (پنجائی ) کرتے وقت تمائی کرنے والا ( پینجہ ) روئی کو ایک لکڑی کے ساتھ جڑی ہوئی ایک تار اور لکڑی کے درمیان رکھ کر اس کی خوب دھنائی کرتا ہے۔ جس سے روئی کی حالت بدل جاتی ہے وہ بالکل نرم ہو جاتی ہے۔ ) میں اپنی آنکھوں کو کچھ کہوں تو سہی لیکن کیا کروں ان آنکھوں میں تو تم بستے ہو میں بھلا انہیں برا بھلا کیسے کہہ سکتی ہوں۔

(3) توں اکھیاں اگے نہیں سیں۔ توں سیں اسمانوں پار
اکھیاں تینوں تک نہ سکیاں۔ توں اکھیاں اگے آیوں
وچ ہنجواں دی دیوار۔ اکھیاں تینوں تک نہ سکیاں

( تم میری آنکھوں کے سامنے نہیں تھے بلکہ کہیں دور اوجھل تھے اس لئے میری آنکھیں تمہیں دیکھ نہ سکیں۔ جب تم میری آنکھوں کے سامنے آئے تو میری آنکھوں میں آنسوؤں نے اتنی بڑی دیوار کھڑی کر دی کہ کہ تمہیں میری آنکھیں دیکھ نہیں سکیں۔ )

تقسیم ہند کے بعد ظلم و جبر اور فسادات کی جو آندھی چلی اس میں لاکھوں لوگ مارے گئے، سب سے زیادہ متاثر پنجاب ہوا۔ پنجاب کی بیٹی ہونے کے ناتے انہوں نے فسادات کے دوران اپنے دیس میں 14 مارچ سے لے کر 14 اگست اور اس کے بعد ہونے والے کشت و خون پر ایک طویل نظم لکھی جسے پنجاب کا نوحہ بھی کہا جاتا ہے۔ اج آکھاں وارث شاہ نوں بھی اسی نظم کا حصہ ہے۔ انھیں پنجاب میں بسنے والوں کے درمیان ہونے والے اس خون خرابے پر بہت دکھ تھا جس کا اظہار انہوں نے اس نظم میں کیا۔

راہیا راہ راہ جاندیا کیہہ کیہہ دیا ں سنا
اوئے کہانی دیس پنجاب دی پتھر دے روا
میں تتی دھی پنجاب دی میرے پھٹے ویکھ نصیب
کیکن دساں کھول کے ٹکی گئی میری جیب
متھے اتے لیکھ دے شوکن کالے ناگ
میں سوہنی پنج دریاں دی ویکھ تتی دے بھاگ
کتھے میری امڑی جیوناں جائی ماں
ناں چپو ناں بیڑی کیکن تراں جھناں
کالے میرے صفحے وے ہور لخے نہ جان
کیہہ کیہہ دساں ہور میں ورقے پئے شرمان

( اے جاتے ہوئے راہی ذرا رکو تو میں تمہیں پنجاب کی کہانی سناؤں۔ پنجاب کی اس کہانی کو سن کر تو پتھر بھی آنسو بہانے لگتے ہیں۔ میں غموں کی ماری اسی پنجاب کی ایک بیٹی ہوں جس کے نصیب پھوٹ گئے ہیں۔ میں اپنی کٹی ہوئی زبان سے اپنے اوپر ہونے والے ظلم تمہیں کیسے سناؤں۔ میرے ماتھے کی قسمت کی لکیریں پھنکارتے ہوئے کالے ناگ بن گئے ہیں۔ میں پانچ دریاؤں کی دھرتی کی وہ سوہنی تھی جس کے نصیب جل گئے ہیں۔ میری جیون جوگی ماں پتہ نہیں کہاں ہے، میں اکیلی ہوں۔

نہ ہی میرے پاس کشتی ہے اور نہ ہی چپو تو میں دریا کیسے پار کروں۔ مجھ سے اپنی کہانی اور نہیں لکھی جاتی۔ میں جب اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی داستان لکھتی ہوں تو کاغذ بھی مجھ سے شرمانے لگتے ہیں۔ ) احمد راہی جنہوں نے تقسیم ہند پر ہجرت کا دکھ سہا تھا اور عورتوں کی بے حرمتی بھی اپنی آنکھوں سے دیکھی انہوں نے اپنی کتاب ً ترنجن ً میں تقسیم ہند کے وقت عورتوں کی بربادی پر ایسے ہی جذبات کی اظہار کیا تھا۔

دیگر پنجابی شعرا کی طرح امرتا جی نے بھی بارہ ماہ لکھے۔ انہوں نے پنجاب کے مختلف ناچ جن میں گدھا، سمی، جھمر ( ساندل بار کا مشہور ناچ) اور بھنگڑا کے گیت بھی لکھے۔ اپنی طویل نظم ترنجن میں انہوں پنجاب کے دیہات کی روایات، رسم و رواج اور جوان لڑکیوں کے کرنے والے گھر کے تمام کاموں پر تفصیل سے لکھا۔ دیہات سے روشناس کروانے والی اس خوبصورت نظم کا ایک بند، جب لڑکی کی ڈولی بابل کے گھر سے رخصت ہونے لگتی ہے۔

ساڈا چڑیاں دا چنبہ وے بابل اساں اڈ جانا
ساڈی لمبی اڈاری وے بابل کہیڑے دیس جانا
تیرے محلاں دے وچ وچ وے
بابل ڈولا نہیں لنگھدا

( بابل کے گھر میں جوان ہونے والی بیٹی اپنے باپ سے کہتی ہے اے بابل ہم تو چڑیوں کے ایک غول کی طرح ہیں جس نے ایک دن آپ کے آنگن سے اڑ جانا ہے۔ ہماری اڑان لمبی ہو گی پتہ نہیں ہم نے کس دیس میں جانا ہے۔ بابل تمہارے محل جیسے گھر سے میری ڈولی نہیں گزر سکتی۔ ) بیٹیاں ماں باپ کے گھر میں مہمان ہوتی ہیں جنہوں نے ایک دن رخصت ہو جانا ہوتا ہے اور پتہ نہیں ان کی قسمت ان کو کہاں لے جائے۔ شادی بیاہ، ڈولی اور بدائی کے گیت، وساکھی اور ساون پر لکھے امرتا جی کے گیت پنجاب کے اصل رنگ کو پیش کرتے ہیں۔ جان والے انج نہ جا، بھی ان کی ایک خوبصورت نظم ہے۔

محبت کوئی عادت تاں نہیں، جے نویں پے سکدی اے
کیہہ کہ سکدی آں ایس تو سوا۔ جان والے انج نہ جا
توں میرے جیون دی لوڑ ایں ایہہ اک ان کھان جتنی سچائی اے
پر ایہہ گل میں آکھاں تے پھیر منیں گا اس نوں
اپنی وڈی سچائی نو چار حرفاں دا غلام نہ بنا
جان والے انج نہ جا

( محبت کوئی عادت تو نہیں ہے کہ پرانی کو بھول کر نئی عادت ڈال لیں، میں اس کے سوا اور کیا کہہ سکتی ہوں۔ مجھے چھوڑ کر جانے والے اس طرح تو ناراض ہو کر نہ جاؤ۔ تم میری زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ہو جیسے کھانا پینا زندگی کے لئے بہت ضروری ہے اسی طرح تم بھی میرے زندہ رہنے کے لئے ضروری ہو۔ لیکن یہ بات اگر میں اپنے منہ سے ہی کہوں تو تم مانو گے۔ میری جان میری محبت کی اتنی بڑی سچائی کو لفظوں کے اظہار کی ضرورت نہیں تم اس سچائی کو لفظوں کا محتاج نہ بناؤ اور ایسے مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ۔ )

ہندوستان کی پہلی ممتاز خاتون پنجابی شاعرہ اور مصنفہ کے طور پر امرتا پریتم نے اپنی آواز اور اپنی زندگی کے لئے بہت اچھی جگہ بنا لی تھی۔ انہوں نے ہند کی تقسیم پر بہت لکھا۔ سب کے درد خصوصاً خواتین کے درد کو محسوس کیا اور اس پر بھی بہت کچھ لکھا۔ اس نے محبت پر لکھا۔ ان کی یہ خوبصورت نظم اس عورت کا اپنی ابدی محبت سے ایک وعدہ ہے جو وہ اپنی ابدی زندگی کی طرف بڑھتے ہوئے اپنے محبوب سے کر رہی ہے کہ میں دوبارہ تم سے ملوں گی۔ کہتے ہیں کہ یہ نظم انہوں نے ساحر لدھیانوی کو مخاطب کر کے کہی تھی۔

میں تینوں فیر ملاں گی
کتھے، کس طرح، پتہ نہیں
شاید تیرے تخیل دی چھنڑک بن کے
تیرے کینوس تے اتراں گی
یا خورے تیرے کینوس دے اتے اک راہسمائی لکیر بن کے
خاموش تینوں تکدی رواں گی۔
یا خورے اک چشمہ بنی ہواں گی
اے جیو ں جھرنیاں دا پانی اڈدا
میں پانی دیاں بونداں
تیرے پنڈے تے ملاں گی
تے اک ٹھنڈک جہی بن کے
تیری چھاتی دے نال لگاں گی
میں ہور کجھ نہیں جاندی
پر ایناں جاندی
کے وقت جو وی کرے گا
اے جنم میرے نال ٹرے گا۔
اے جسم مکدا اے
تے سب کجھ مک جاندا
پر چیتیاں دے دھاگے
کائناتی کناں دے ہوندے میں اونہاں کناں چھواں گی
تے تینوں میں فیر ملاں گی

( میں تم سے پھر ملوں گی۔ کیسے اور کہاں پتہ نہیں میں نہیں جانتی۔ شاید میں تمہارے تخیل کی ایک تصویر بن جاؤں یا پھر تیرے کینوس پر ایک پراسرار لکیر بن کر پھیل جاؤں اور تمہیں دیکھتی رہوں۔ یا پھر شاید تیرے کینوس پر ایک راہسمائی لکیر بن کر اتروں اور خاموشی سے تمہیں دیکھتی رہوں۔ شاید میں ایک چشمہ بن جاؤں اور جیسے جھرنوں کی پانی اڑتا ہے میں بھی پانی کی بوندیں بن کر اڑ کر تمہارے جسم پر لگوں گی اور ایک ٹھنڈک بن کر تمہاری چھاتی سے لگوں گی۔ میں اور کچھ نہیں جانتی لیکن اتنا ضرور جاتنی ہوں کہ وقت میرے ساتھ جو کچھ بھی کرے گا یہ جنم میرے ساتھ رہے گا۔ یہ جسم ختم ہوتا ہے تو ہو جائے لیکن یادوں کے دھاگے رہ جائیں گے اور میں ان یادوں کے دھاگوں سے تیری یاد بنوں گی اور پھر میں تمہیں ملوں گی۔ )

(نوٹ) اس مضمون کی تیاری میں ویکیپیڈیہ اور انٹرنیٹ کے علاوہ مندرجہ ذیل کتب اور مضامین سے استفادہ کیا گیا ہے۔

نویں رت۔
سویرا شمارہ نمبر 12۔ مدیر احمد راہی
Amrita Pritam – A short Biography by U. Raja
BY RAVI MAGAZINE · PUBLISHED 6TH APRIL 2015 ·
Amrita Pritam: Queen of Punjabi LiteratureBy KHUSHWANT SINGHThe Tribune, Nov. 12, 2005


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments