خیر کی توقع کس سے کریں


چند ہفتے پہلے ہی مجھے بھانجے کی شادی پر پاکستان جانا ہوا۔ 11 سال بعد ہم پاکستان جا رہے تھے۔ میڈیا سے تعلق ہونے کے ناتے برطانیہ میں دن کا بیشتر وقت پاکستان میں عزیزوں، سیاسی و غیر سیاسی دوستوں سے رابطے اور حالات و واقعات سے آگہی حاصل کرنے میں گزر جاتا ہے۔ کوئی بھی ملک چاہے وہ آپ کے لئے جنت کے مترادف ہی کیوں نہ ہو، وطن عزیز کی مٹی کی خوشبو اور محبت آپ کے دل و دماغ نکال نہیں سکتا۔ ہم بہت خوش تھے کہ پاکستان جا رہے ہیں۔

11 سال کسی بھی ملک میں تبدیلی لانے کیلے بہت ہوتے ہیں۔ دیکھنے اور سننے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ مگر پاکستان پہنچ کر جو دیکھا اس سے سخت دکھ اور بے حد مایوسی ہوئی۔ بہت مشکل ہے کہ حکومت کو یا عوام کو اس کا قصور وار ٹھہرایا جائے۔ اگرچہ موٹر وے کی تعمیر نے دور دراز کا فاصلہ کم کر دیا ہے مگر غریبوں کی حالت بد سے بد تر ہو گئی ہے۔ روزمرہ و ذاتی استعمال اور پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے اور مہنگائی آسمان سے باتیں کرتی ہے۔

غریب سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ کیا کھائے اور کیا پئے۔ مگر حکومتی وزیر دفاع کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ مہنگائی صرف پاکستان میں نہیں، تمام دنیا میں ہے۔ غریب کی حالت زار نہایت پتلی ہے۔ علی الصبح جیسے ہی ہم ہیتھرو، لندن سے لاہور ائر پورٹ پہنچے اور باہر نکلے تو فضا بہت آلودہ تھی۔ ہم یہ سمجھے کہ دھند ہے مگر پتہ چلا کہ یہ سموگ ہے۔ سموگ انسانی جان کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ ہر دوسرا شخص سانس کی بیماری میں مبتلا ہے۔

گلا خراب نزلہ زکام اور کھانسی مستقل بیماری کی وجہ بن گئے ہیں۔ اور پھر دوران قیام ٹریفک کا طوفان دیکھا تو استغفار پڑے بغیر نہ رہ سکے۔ موٹر سائیکل اور رکشہ والے زبردستی راستے بنا لیتے ہیں۔ خطرے کی پرواہ کسی کو نہیں۔ انہیں تو بس آگے نکل جانا ہوتا ہے۔ گوجرانوالہ شیخو پورہ روڈ پر واقع مسیحی آبادی فرانسیس آباد ہے جہاں کھیالی بائی پاس شیخوپورہ روڈ پچھلے چار برس سے زیر تعمیر ہے۔ وہاں مٹی ہی مٹی اور بڑے بڑے کھڈے پڑے ہوئے ہیں۔

وہاں 15 منٹ کا راستہ ایک گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ فرانسس آباد پہنچے تو وہاں کا حال بیان سے باہر ہے۔ تمام گلیاں ٹوٹی پھوٹی اور جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ہیں۔ نالیاں غلاظت سے بھری پڑیں ہیں اور گٹروں کے ڈھکن غائب ہیں۔ 35 ہزار سے زائد آبادی میں نہ گورنمنٹ کا سکول ہے۔ نہ ڈاکخانہ، نہ بینک نہ ہی ڈسپنسری موجود ہے۔ وہاں کے بہت سے لوگ اوورسیز میں مستقل مقیم ہیں۔ تعلیمی شرح بھی خاصی اچھی ہے۔ یاد رہے کہ فادر فرانس نے فرانسس آباد کی بنیاد 1974 میں رکھی۔

فادر نے ڈسپنسری، ڈاکخانہ اور دیگر ضروریات کے لئے جگہ بھی مخصوص رکھی مگر لوگوں کی ہٹ دھرمی اور بیوقوفی کی وجہ سے ان جگہوں کا درست استعمال نہ ہوسکا۔ یہاں مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں ٹینکی تعمیر ہوئی مگر لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں آیا۔ اب یہ ٹینکی لا وارث پڑی ہے۔ میری ملاقات ایک مقامی سابق ڈپٹی میئر سے ہوئی۔ جب میں نے ان سے فرانسس آباد کی حالت کا ذکر کیا تو اس کا جواب تھا۔ ہم اور کیا کریں گویا انہوں نے اس آبادی کے لئے بہت کچھ کیا۔

پھر میں نے مختلف لوگوں سے ملاقات کی۔ مختصر یہ کہ آج تک کسی بھی گورنمنٹ نے اقلیتوں کی فلاح و بہبود پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ اچھی پوسٹوں پر فائز اور صحت کے شعبہ میں خدمت کرنے والوں کو اب بھی مذہبی تعصب کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔ جہالت کی یہ داستانیں سن کر سمجھ میں آیا کہ ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ جو یوکے یا پورپ میں مقیم ہیں۔ انہیں ذات پات اور مذہبی تعصب کا بالکل سامنا نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی آ کر ہم نے مذہبی فوبیا نہیں چھوڑا۔

موجودہ حکومت نے تین سال اپنی حکومت بچانے اور اپوزیشن کو دبانے، لوٹ کھسوٹ کا رونا رونے میں گزار دیے ہیں۔ غریب مزید غریب ہو گیا ہے۔ پچھلے تین برس میں کوئی قابل ذکر قانون سازی نہیں ہوئی۔ الیکڑانک ووٹنگ مشن کا قانون جسے اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود عجلت میں پاس کروا لیا گیا ہے اور حکومت بہت خوش ہے۔ الیکڑانک مشن کے ذریعے ووٹنگ کے قانون سے اوورسیز پاکستانی جنہیں پہلے ہی دوہری شہریت حاصل ہے انہیں اب پاکستان میں ووٹ کا حق بھی مل گیا ہے۔

حالانکہ پاکستان میں دوہری شہریت رکھنے والے پارلیمنٹ کے ممبر نہیں بن سکتے۔ اس قانون کے تحت بہت سے وزیروں اور مشیروں کو اپنے فرائض سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ابھی تک پی ٹی آئی کے وزیروں اور مشیروں کے کیس چل ر ہے ہیں۔ کیا پی ٹی آئی کی حکومت اس قانون سے اوورسیز میں رہنے والوں کو ووٹ کا حق دے کر اس معاملے کو ختم کر کے اس قانون سے فائدہ اٹھانا تو نہیں چاہتی۔ بہرحال یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس کا فائدہ یا نقصان کیا ہوتا ہے؟

جبکہ الیکڑانک ووٹنگ مشن کا قانون غیر واضح ہے؟ وقت گزرنے کے ساتھ حکومت کی کارکردگی سے اوورسیز میں پی ٹی آئی حکومت کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ جو تبدیلی کے خواہاں تھے اب مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ خیر بات پاکستان کے حالات و واقعات کی ہو رہی تھی۔ میں سیالکوٹ میں تھا کہ ایک رات انگلینڈ سے سابق میئر اور موجودہ کونسلر جناب جیمس شیرا کا فون آ گیا کہ آپ کی اور آئی سی سی کے چیئرمین ایڈووکیٹ قمر شمس صاحب کی ملاقات گورنر چوہدری سرور سے مقرر کر دی گئی ہے۔

ان کی چیف آف پرسنل رابعہ ضیا آپ سے رابطہ کریں گی۔ اگلے روز میٹنگ طے پا گئی۔ قمر شمس صاحب کو میں نے کہا کہ چونکہ اس وقت اقلیتوں کا سب سے بڑا مسئلہ جبری تبدیلی مذہب و نکاح ہے۔ میں چونکہ فوری طور پر لاہور نہیں پہنچ سکتا آپ ہی بات کر لیجیے گا۔ اس سے پہلے مسیحی وکلا کے وفد گورنر صاحب سے ملاقات کر چکے ہیں۔ ان کا جواب اب بھی وہی ہو گا کہ جبری تبدیلی مذہب و نکاح کے واقعات کہیں بھی نہیں ہو رہے۔ لہذا تیاری کر کے جانا۔

وقت مقررہ پر ملاقات ہوئی۔ گورنر صاحب کا جواب توقع کے مطابق تھا کہ آپ ایسے واقعات کی مکمل رپورٹ مجھے دیں۔ ایڈووکیٹ قمر صاحب نے مجھے رپورٹ تیار کرنے کے لئے کہا۔ چونکہ میں ان دنوں پاکستان میں تھا جہاں مجھے نیٹ ورک کا بھی ایشو رہتا تھا۔ میں یہ رپورٹ نہ بھیج سکا۔ میرے نزدیک ایسے ملاقات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا وہ اس لئے بھی وہ گورنر صاحب کی طرح دوسرے ذمہ دار یا مذہبی لیڈر جنہیں وزیر اعظم عمران صاحب نے اقلیتوں کے مذہبی معاملات مذہبی بنیاد پرستوں کے حوالے کر رکھے ہیں جن سے خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

اقلیتیں صرف یہ چاہتی ہیں کہ ریاست کے قوانین پر عمل درآمد کیا جائے۔ جب صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب میں شادی کی عمر مقرر ہے تو خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جائے۔ المیہ یہ ہے کہ شادی کو لیگل کرنے کے لئے مذہبی کارڈ استعمال کیا جاتا ہے۔ جو جرم پر جرم ہے۔ گورنر پنجاب چوہدری سرور صاحب جن کی زندگی کا بڑا حصہ یوکے میں گزرا اور ان کے بچے یہیں پر مستقل قیام پذیر ہیں۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہاں شادی کی حد مقرر ہے اور مذہب ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہے۔ مگر انہوں نے پاکستان میں جب سے گورنر کا عہدہ سنبھالا ہے وہ تمام تعلیمی اداروں میں قرآن مع ترجمہ پڑھانے کے عمل کو لازمی قرار دینے میں پیش پیش رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں اقلیتیں کسی سے کیا توقعات رکھ سکتی ہیں سوائے اس کے کہ اپنے گرد مضبوط قلعہ بنا لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments