پاکستان میں کالعدم تنظیموں کا کردار


پرانی بات نہیں، اپریل 2021 کا ذکر ہے جب لاہور سے تعلق رکھنے والی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے ایک جلوس کی شکل میں دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا دیا، مطالبہ تھا فرانس کے سفیر کو بے دخل کرنا۔ اس جماعت کا یہ پہلا دھرنا نہیں تھا۔ اس سفر کا آغاز 2017 میں ہوا جب انتخابی قوانین میں تبدیلی کا بہانہ بنا کر تحریک لبیک اسلام آباد پر حملہ آور ہوئی۔ یہ سلسلہ اپریل 2021 تک پہنچا تو حکومت نے مصنوعی سختی دکھاتے ہوئے جماعت کو کالعدم قرار دینے کا اعلان کیا مگر چند ماہ بعد اکتوبر 2021 میں یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔

تحریک لبیک کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ اسے پاکستان میں حساس اداروں اور خاص لوگوں کی سرپرستی میں بنایا گیا۔ 2017 میں پہلا دھرنا ہو یا رواں سال کا احتجاج، یہ تاثر مضبوط سے مضبوط تر ہوا ہے۔ اس کی واحد وجہ کالعدم تنظیموں کے ساتھ پاکستانی مقتدرہ کا رومانس ہے۔ سپاہ صحابہ ہو یا لشکر طیبہ، طالبان ہوں یا حرکت المجاہدین، تاریخی واقعات ہمیشہ ان جماعتوں کے ڈانڈے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے ملتے ہیں۔

اندرونی سیاست ہو یا خارجہ پالیسی، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ اپنے خاص مقاصد حاصل کرنے کے لیے ایسی جماعتیں اور گروپ بنائے اور ان کی سرپرستی کی ہے جنہیں چند سال بعد کالعدم قرار دینا پڑتا ہے۔ تاریخ کا جائزہ لیں تو ایسی تشدد پسند جماعتوں کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کا تعلق مسئلہ کشمیر کے حوالے سے شروع ہوا جب مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک بھڑکانے کے لیے لشکر طیبہ کو وجود میں لایا گیا۔ لگ بھگ دو دہائیوں تک پاکستان کامیابی کے ساتھ لشکر طیبہ کی کارروائیوں کو مقامی کشمیری جدوجہد قرار دیتا رہا، تاہم سچ ہمیشہ چھپا نہیں رہتا۔

جیسے ہی ہندوستان کو پاکستان کی اس پراکسی وار کا پتہ چلا، عالمی سطح پر پاکستان پر ایسی کارروائیاں روکنے کے لیے دباؤ پڑنے لگا۔ ہمارے اہلکار نہ صرف ملک کی بدنامی کا باعث بنتے رہے بلکہ وطن عزیز کو ہندوستان کی طرف سے جوابی پراکسی وار کا نشانہ بھی بنا بیٹھے۔ آج اگر پاکستان بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کا واویلا کرتا ہے تو پاکستانی مقتدرہ کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے جس کی بے سروپا پالیسیوں کی بدولت پراکسی وار کے شعلے ہماری دہلیز تک آ پہنچے۔

پاکستانی ریاست کا مسئلہ رہا ہے کہ اس کے پالیسی ساز نا صرف دنیا کی تبدیل ہوتی ترجیحات کی پروا نہیں کرتے ہیں بلکہ ملک کے اندر کی تبدیل ہوتی سماجی اور نظریاتی تبدیلیوں سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ ہمسایہ ممالک کے معاملات میں مداخلت اور کالعدم تنظیموں کے ذریعے ان میں بدامنی پھیلانا اور انہیں کمزور کرنے کی حکمت عملی اب پرانی ہو چکی ہے اور پاکستان اس کے نتائج مختلف صورتوں میں بھگت چکا ہے، بھگت رہا ہے اور آئندہ بھی بھگتا رہے گا۔ اس پالیسی سے ملک کے اندر عدم استحکام آیا ہے۔ آئے روز کے احتجاج اور دھرنوں نے کاروباری طبقے میں اعتماد اور یقین ختم کر دیا ہے، معاشرہ متحد ہونے کی بجائے نظریاتی اور فرقے کی بنیاد پر تقسیم ہو رہا ہے اور نوجوانوں کے ذہنوں میں دنیا سے بیزاری اور شدت پسندی جڑ پکڑ رہی ہے۔

تحریک لبیک کے دھرنوں کا ہی جائزہ لیں تو یہ جماعت 4چار برس میں سات مرتبہ احتجاج کے لیے سڑکوں پر آ چکی ہے۔ انہیں بنایا تو 2018 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون کے خلاف استعمال کرنے کے لیے گیا تھا تاہم، اسٹیبلشمنٹ کی روایت رہی ہے کہ ایک مرتبہ ایک گروپ بن جائے تو ہر آنے والا طاقتور اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اسی لیے، تحریک لبیک کو ختم کرنے کی بجائے مقتدرہ کے فیصلہ ساز ہر مرتبہ اس کے ساتھ معاہدے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ آئندہ بھی انہیں استعمال کیا جا سکے۔

پاکستان میں اس وقت ملکی سطح پر قومی دھارے میں شامل تمام سیاسی و دینی جماعتوں کے اتفاق رائے سے وضع کردہ نیشنل ایکشن پلان بھی موجود ہے،جسے دسمبر 2014 میں سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد دستاویز کی شکل دی گئی۔ اس پر عمل جاری تھا کہ اس دوران حکومت کیا بدلی، اس تبدیلی کے دوران سب کچھ بدل گیا۔ آج ملک میں کالعدم تنظیموں کی تعداد 78 ہے جبکہ بھارت میں ایسی تنظیموں کی تعداد 42 ہے۔ یعنی بھارت ہم سے 5 گنا بڑا ملک ہونے کے باوجود کالعدم گروپوں کو سپورٹ کرنے کی جیسی حکمت عملی کا سہارا نہیں لیتا۔ اگرچہ امریکہ میں کالعدم تنظیموں کی تعداد لگ بھگ دو درجن ہے تاہم پاکستان اس حوالے سے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کرنے والا واحد ملک ہے۔

پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تشدد پسند جماعتوں کا سہارا چھوڑ کر حقیقت کی دنیا میں واپس آئیں۔ ہمیں نا صرف دنیا کی نظر میں پاکستان کا امیج بہتر بنانا ہے بلکہ ایسے اقدامات کرنے ہیں جن سے عوام کو براہ راست فائدہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments