آمرانہ شریعت اور قومی تربیت


ہر قوم تین ادوار سے گزر کر ایک اخلاق یافتہ قوم بنتی ہے :۔

پہلا دور غربت کا ہوتا ہے۔ اس دور میں جرائم عام ہوتے ہیں۔ نفسا نفسی کا عالم ہوتا ہے اور ہر شے قابل فروخت ہوتی ہے۔ غربت کے دور میں اخلاقیات نافذ کرنے کی کوشش کرنا ایسے ہی جیسے ایک لاغر گھوڑے کو گھڑ دوڑ میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے۔

دوسرا دور۔ نوسربازی، چار سو بیسی اور بدعنوانی کا دور ہوتا ہے۔ اس میں عوام کے اندر افلاس تو بتدریج ختم ہو رہی ہوتی ہے مگر طمع اور حرص ابھی ختم نہیں ہوئے ہوتے۔ لہٰذا یہ دور قومی زندگی میں اکثر ایک طویل دور ہوتا ہے۔ پاکستانی قوم اپنے سماجی ارتقائی سفر میں آج کل اس دور سے گزر رہی ہے۔

تیسرا دور۔ اخلاقیات کا دور ہوتا ہے۔ جب بھوک ختم ہوجاتی ہے اور غربت اپنے ڈیرے اٹھا لیتی ہے تو لوگ بتدریج دھوکہ دہی اور فراڈ سے تنگ آ جاتے ہیں۔ اب اخلاقیات کا نفاذ آسان ہوجاتا ہے۔

موجودہ دنیا میں فن لینڈ، نیوزی لینڈ اور جاپان جیسے ممالک میں اخلاقیات کے معیارات دیکھ کر ان کی مثال دی جا سکتی ہے۔ حکومت اگر چاہتی کہ معاشرہ جلد از جلد اخلاق یافتہ ہو جائے تو اس کو تین کام بیک وقت کرنے ہوں گے :۔

غربت کا خاتمہ، مفت اور لازمی تعلیم کا فروغ اور قانون کی حکمرانی۔ یہ کام جتنی تیز رفتاری سے ہوں گے اتنی جلدی وہ قوم اوپر بیان کیے گئے ادوار طے کر لے گی۔

جس طرح پوری دنیا میں بائی سائیکل چلانے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ اسی طرح کسی قوم کو ایماندار، امانت دار اور دیانتدار بنانے کا بھی ایک ہی طریقہ ہے جو غربت کے خاتمے، تعلیم کے فروغ اور قانون و انصاف کی فراہمی کا ایک پیکج ہے۔ لہٰذا کسی الہامی کتاب کو زبردستی پڑھوا کر کسی قوم کے اخلاق نہیں سنوارے جا سکتے۔ مذہبی تعلیم نصاب کا ہی حصہ بنا کر پڑھائی جا سکتی ہے جس طرح اسلامیات پاکستان میں نصاب تعلیم کا لازمی جزو ہے۔

حال ہی میں صوبہ پنجاب کی ایک معزز عدالت نے حکومت پنجاب کو حکم دیا ہے کہ وہ صوبے بھر کے سکولوں میں ناظرہ قرآن پڑھوانے کا اہتمام کریں۔ اس کے باوجود کہ اسلامی تعلیمات پہلے سے پاکستانی نصاب کا لازمی حصہ ہیں۔ اسلامیات میں فیل ہو کر کوئی طالب علم اگلے درجے میں نہیں جا سکتا۔ مگر عدالت نے اب ماتحت عدلیہ کو حکم نامہ جاری کیا ہے۔ جس کے تحت سب ڈویژنل مجسٹریٹ پنجاب بھر کے سکولوں میں چھاپے مار کر یہ یقین کر رہے ہیں کہ آیا سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں ناظرہ قرآن پڑھایا جا رہا ہے یا نہیں۔ کیا قرآن کریم کی جبری قراءت سے قومی تربیت ہو سکتی؟ ہمیں ضیا ء الحق کی نافذ کردہ جبری شریعت یاد آ رہی ہے جو ہماری قومی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔

یہ چوالیس برس ادھر کی بات ہے جب اس وقت کے آرمی چیف جرنل محمد ضیاء الحق نے ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ ان دنوں پاکستان ایک عارضی بد امنی کا شکار تھا اور اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 1977 ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگا کر اور پاکستان نیشنل الائنس کی صورت میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف ایک محاذ بنا کر ملک بھر میں دوبارہ الیکشن کروانے کا مطالبہ کر رکھا تھا۔

حکومت اور اپوزیشن کے خلاف مذاکرات بالآخر کامیاب ہو گئے معاہدے کے تحت جن حلقوں میں انتخابی دھاندلی کے الزامات تھے ان میں انتخابات دوبارہ ہونے تھے مگر طالع آزما جرنل نے مسئلے کو جمہوری طریقے سے حل ہونے کا انتظار کیے بغیر 5 جولائی 1977 ء کو پورے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ آئین کو معطل کر کے 90 دن کے بعد الیکشن کروانے کا وعدہ کیا مگر نوے دن بعد اپنے وعدے سے روگردانی کرتے ہوئے جرنل ضیاء الحق مطلق العنان حکمران بن بیٹھے۔ ان کی حکومت دس سال تک رہی۔ اس دوران وہ صدر پاکستان اور آرمی چیف رہے۔ ان کے پاس ایسا کرنے کا کوئی جواز نہ تھا لہٰذا انھوں نے بھی پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے، ملک کے اندر نظام مصطفٰی نافذ کرنے اور امیر المومنین بننے کا فیصلہ کر لیا۔

مارشل لاء کے نفاذ کے دو سال بعد چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ضیاء الحق نے حدود آرڈیننس نافذ کر دیا۔ اس کے تو جو نتائج نکلے وہ پوری قوم کے سامنے ہیں مگر جنرل ضیاالحق کی جبری شریعت کے نفاذ میں ایک حکم نامہ یہ بھی تھا کہ نماز ظہر دفاتر کے اوقات میں ادا کی جائے۔ اور ایک آمرانہ حکمنامے کے ذریعے نماز کی ادائیگی لازمی قرار دے دی گئی۔ مگر دفاتر میں نماز کی جبری پابندی سے ایک اور مسئلہ پیدا ہو گیا۔ اس حکم پر عملدرآمد سے فرقہ پرستی فروغ پانے لگی۔ چونکہ دیوبندی، بریلوی مسالک اور اہل تشیع کی طریقے مختلف ہیں۔ لہذٰا ہوا یہ کہ دفاتر میں ساتھ کام کرنے والے اچھے خاصے دوستوں پر ایک دوسرے پر فرقے آشکار ہونے لگے۔ لوگ دل ہی دل میں ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگے۔ جس سے دفتری کار کردگی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔

اسی طرح زکٰوۃ کی لوگوں کے بینک اکاؤنٹ سے زبردستی کٹوتی پر بھی قضیہ کھڑا ہو گیا۔ کیونکہ زکٰوۃ کی ادائیگی پر اہل تشیع کا موقف یکسر مختلف ہے۔ جس کو بعد میں ملک کی اعلی ترین عدالت نے حل کیا۔ لاہور کی معزز عدالت کو ایسا حکم جاری کرنے سے پہلے اپنی تاریخ کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے تھا۔

پھر یہ حکم نامہ آئین پاکستان سے بھی متصادم ہے کیونکہ آئین کا آرٹیکل 22 ( 1 ) بیان کرتا ہے کہ کسی شہری کو کوئی اور مذہبی تعلیم نہیں دی جائے گی ماسوائے اس مذہب کے جس کا وہ پیروکار ہے۔ تو پھر آئین کے مطابق عیسائی، ہندو، سکھ اور احمدی بچوں کا کیا ہو گا؟

پنجاب کی اعلی عدالت کا یہ حکم نامہ آئین پاکستان کے آرٹیکل نمبر 31 کے تحت جاری کیا گیا ہے۔ جو ”پرنسپل آف پالیسی“ کے تحت آتا ہے ”پرنسپل آف پالیسی“ بنیادی انسانی حقوق کی طرح نافذ نہیں کیے جا سکتے بلکہ حکومتی پالیسی اور حکومتی ذرائع کے مطابق نافذالعمل ہوتے ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں کے احکامات دیکھ کر لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ بھی ممکن ہے کہ مقامی پولیس کانسٹیبل ہمارے دروازے پر دستک دے کر پوچھے کہ آپ نے باجماعت نماز ادا کی ہے یا نہیں، زکوٰۃ دی اور کیا آپ صاحب استطاعت ہونے کے باوجود حج کی سعادت حاصل کر چکے ہیں؟

یقین کیجئے عوام کا مسئلہ مذہب نہیں با عزت روزگار اور پر امن زندگی ہے۔ اگر پاکستانی عوام کا مسئلہ شریعت کا نفاذ ہوتا تو پاکستان میں مذہبی جماعتیں عام انتخابات جیت کر ہم پر مسلط ہو چکی ہوتیں۔

مذہب انسان کا ذاتی مسئلہ ہے اس کو لوگوں پر زبردستی نافذ کرنے سے نتائج ضیاء الحق کی آمرانہ شریعت سے مختلف نہ ہوں گے ۔ قومی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ غربت دور کرنے، مہنگائی کے جن کو قابو کرنے، تعلیم کو عام کرنے اور قانون و انصاف کو بلا تمیز نافذ کرنے کا بندوبست کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments