بس بھئی بس، زیادہ بات نہیں چیف صاحب


میں کوئی پاگل ہوں جو عدالت جاؤں؟ جی ہاں یہ بیان سابق چیپ جسٹس صاحب کا ہے جن کی مبینہ آڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ عمران کو لانا ہے اور اس وقت کے منتخب وزیراعظم نواز شریف کو جیل بھیجنا ہے۔

ایک سابق چیپ جسٹس کا یہ بیان سن کر ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہیے، یہ ان کے عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اعلان تھا، جس کے کبھی وہ چیف جج بھی رہے تھے۔

یہ وہی جج صاحب تھے جو ڈیم فنڈ کے لئے چندہ اکٹھا کرتے تھے اور تقریر خان کے بلے نیلام کرتے تھے۔ اب آپ سوچیں کہ اگر ان جج صاحب کے سامنے پی ٹی آئی کے کسی وزیر یا مشیر کا مقدمہ آتا تو کیا فیصلہ ہوتا جو اس پارٹی کے وزیراعظم کے بلے نیلام کر رہا ہو۔ اس ڈیم فنڈ کے پیسے کیا ہوئے، یہ کہانی پھر سہی۔

ایک شہری نے موجودہ وزیراعظم کی بنی گالا پر بنی رہائش گاہ پر مقدمہ دائر کیا کہ یہ سی ڈی اے سے منظور شدہ نہیں ہے، تب ان ہی جج صاحب نے فیصلہ دیا کہ اس گھر کو قانونی کیا جائے لہذا ساڑھے بارہ لاکھ فیس دے کر گھر کو قانونی کیا گیا۔

کیا غریبوں کے گھر بھی قانونی کیے جائیں گے؟ جواب آپ کو پتا ہے۔ تازہ مثال کراچی میں بنے نسلہ ٹاور میں مقیم متوسط طبقے کے لوگوں کی ہے جس کو ایک اور چیف صاحب کے حکم پر گرایا جا رہا ہے۔ جن لوگوں نے یہ فلیٹ خریدے تھے، ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ پہلے چھان بین کیوں نہ کی۔ وہ کہتے رہے ہم نے سب کاغذات دیکھ کر ہی لئے تھے۔ پھر تین چار سال وہ عمارت بنتی رہی، لوگ فلیٹ میں منتقل ہو گئے، دو سال سے مقیم ہیں اور اب چیف صاحب کا یہ حکم کہ عمارت گرائی جائے، حیرت ہے۔ وہ لوگ جو بیچ کر نکل گئے اور اربوں روپے کما لئے، ان کی گرفتاری کا کوئی حکم نہیں ہے۔ صرف متاثرین کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ وہ معاوضہ کب ملے گا اور اتنے عرصے میں یہ سفید پوش لوگ کہاں جائیں گے، اس بات کی کسی کو فکر نہیں۔

دوسری طرف اسلام آباد میں بنے گرینڈ ہائیٹ ہوٹل اور اپارٹمنٹ کمپلیکس کو غیر قانونی کر دیا گیا تھا۔ یہ انتہائی مشہور مقام پر اسلام آباد میں واقع ہے اور فلیٹس بہت قیمتی ہیں۔ اس عمارت میں عمران خان، جج صاحبان، سیاستدان اور دیگر بے حس انسانوں کے اپارٹمنٹ ہیں۔ 2017 میں عمران خان اور دیگر نے درخواست دائر کی تھی کہ ہم نے فلیٹس خریدے ہیں اور اگر یہ اسکیم غیر قانونی ہے تو ذمہ داری سی ڈی اے کی ہے، ہماری نہیں۔ کیوں کہ فلیٹس امیروں کے تھے لہذا سب کچھ قانونی ہو کر اب اس اسکیم پر کام دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔

کراچی میں جتنے گھر گرائے گئے وہ سب غریب عوام کے تھے۔ جتنے گھر قانونی کیے گئے، وہ سب امیروں کے تھے۔ عدالتوں سے غریبوں کو صرف وقت کا ضیاع، پیسوں کا ضیاع، دھکے اور ذلت ملتی ہے۔ جس معاشرے میں جج بکتے ہوں، وہاں انصاف کا تقاضا کرنا کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں جب وکیل نے گواہ کو کہا کہ مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر کہو کہ جو کہو گے سچ کہو گے تو گواہ نے جواب دیا کہ پہلے جج صاحب اس پر ہاتھ رکھیں۔

ایک اور چیف صاحب ہوتے تھے جن کی رہائی کے لئے تحریکیں چلی۔ ایڈن ہاؤسنگ اسکیم کے مقدمے میں ملوث ملزم ڈاکٹر امجد کا کیس ان کے پاس آیا۔ شاید گیارہ ارب کے فراڈ کا کیس تھا۔ متوسط طبقے اور غریب لوگوں کے پلاٹ تھے۔ مقدمے کے دوران ہی پتا نہیں کیسے ڈاکٹر امجد کے بیٹے کی چیف صاحب کی بیٹی سے شادی ہو گئی۔ جی ہاں، جج اور ملزم آپس میں رشتہ دار بن گئے۔ مقدمے کا کیا بنا، کیا یہ بتانا بھی ضروری ہے؟ حال ہی میں ڈاکٹر امجد کا انتقال ہوا۔ تدفین کے وقت ایڈن ہاؤسنگ کے متاثرین پلے کارڈز لے کر قبرستان پہنچ گئے اور احتجاج شروع کر دیا۔ پولیس کو میت وہاں سے کسی نا معلوم مقام منتقل کرنی پڑی اور پھر رات کی خاموشی میں ان کی تدفین ہوئی۔

ان چیف صاحب کے کئی اور بھی کرامات ہیں جن کا احاطہ کرنا اس چھوٹے سی تحریر میں ممکن نہیں لیکن ہاں یہ یاد دہانی ضرور کروا دوں کہ یہ وہی چیف صاحب تھے جنہوں نے دو ہزار گیارہ میں عتیقہ اوڈھو کے سامان سے دو شراب کی بوتلیں برآمد ہونے پر سو مو ٹو ایکشن لیا تھا۔ مقدمہ نو سال چلنے کے بعد ابھی پچھلے سال ختم ہوا ہے۔

اگر آپ لوگوں کو اب بھی ان چیف صاحبان سے کوئی امید ہے تو میں صرف آپ کے حق میں دعا کر سکتا ہوں۔ جس ملک کے قبرستانوں میں احتجاج ہوتے ہوں اور اسپتالوں میں فائرنگ، وہاں آخری چیز دعا ہی بچتی ہے یا پھر کوئی معجزہ۔ آخر میں وہی ونسٹن چرچل کا واقعہ دہرا دیتا ہوں جو کئی بار لکھا جا چکا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران جب جرمنی کی فوجیں لندن پر بمباری کر رہی تھیں تو ایک میٹنگ کے دوران جنرلز نے چرچل کو بتایا کہ ہماری پوزیشن دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے اور جرمنی کی فوجیں لندن کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ چرچل نے پوچھا، ”کیا ہماری عدالتیں صحیح کام رہی ہیں؟ میٹنگ میں موجود لوگوں سوچنے لگے ہم چرچل کو کہہ رہے ہیں کہ جرمنی کی فوجیں قریب آ رہی ہیں اور یہ ہم سے پوچھ رہا ہے عدالتیں صحیح کام رہی ہیں۔ کسی نے جواب دیا جی سر ہماری عدالتیں اچھا کام کر رہی ہیں۔ چرچل نے جواب دیا،“ جب تک ہمارے لوگوں کو عدالتوں سے انصاف ملتا رہے گا، برطانیہ کو کچھ نہیں ہو سکتا ”۔

آپ اپنے حکمرانوں اور چیف صاحبان کا مقابلہ کہیں چرچل سے مت کر لیجیے گا۔ آنے والے دن اور کٹھن ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments