جنت کے خواب اور معصوم نوجوان


مولوی صاحب جب اپنے خطبات میں جنت کا نقشہ کھینچتے ہیں تو وہ بتاتے ہیں کہ جنت میں دودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی۔ شہابی رنگت والی حوریں ہوں گی۔ ایک ایک بندے کو درجنوں کے حساب سے ملیں گی۔ وہ ان سے سیکس کر کر کے تھکے گا نہیں۔ وہ ہر وقت آمادہ و تیار ہوں گی اور بندہ بھی برسر پیکار رہے گا۔ لیکن یہ سب چیزیں ان نیک لوگوں کو ملیں گی جو اپنی دنیاوی زندگی میں ان سب چیزوں سے دور رہیں گے۔

نوجوان بے تاب ہو جاتے ہیں کہ کب انہیں بے تحاشا شراب پینے کو ملے گی اور بے حساب حوروں کا قرب نصیب ہو گا۔

اس کے بعد اگلے سانس میں مولوی صاحب مغرب کی بے راہ روی کی داستان بیان کرتے ہیں۔ کہ وہاں ہر شخص شرابی ہے اور اتنی زیادہ پیتا ہے کہ مت پوچھو۔ وہاں کی ہر لڑکی سیکس کرنے کو بے تاب پھرتی ہے اور خاص طور پر ہمارے صالح اور خوبرو جوانوں کے تو پیچھے ہی پڑ جاتی ہیں کہ بس ہماری آگ بجھا دو۔ نتیجہ یہ کہ وہاں بے شمار بچے گلیوں میں راہ چلتے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر پوچھتے ہیں کہ کہیں تم ہمارے ابا تو نہیں۔ بلکہ بسا اوقات کئی مردوں کے گروہ سے اجتماعی طور پر بھی یہ سوال بھی پوچھ لیتے ہیں۔

اس کے بعد نوجوان جیمز بانڈ کی فلم دیکھتا ہے تو فرنگی حسینائیں بالکل ویسی ہی دکھائی دیتی ہیں جیسا سراپا مولوی صاحب نے حوروں کا بیان کیا ہوتا ہے۔ پینے پلانے کے مناظر بھی اس کی دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔ اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ دودھ شہد کی پیداوار میں بھی مغرب بہت آگے ہے کیونکہ کپتان کی گواہی ہے کہ پاکستانی گائے دن کا چھے لیٹر دودھ دیتی ہے تو مغربی گائے چوبیس لیٹر۔

اس کے بعد جب بھولا بھالا نوجوان کوئی نہایت ہی رومانی قسم کی فلم دیکھتا ہے تو مولوی صاحب نے حوروں کے متعلق جو ارادے بیان کیے ہوتے ہیں اسے وہی پردہ سکرین پر دکھائی دیتے ہیں۔

اب وہ دو جمع دو کرتا ہے۔ دماغ کی پھرکی گھومتی ہے۔ دودھ وہاں، شہد وہاں، حور وہاں تو پھر جنت بھی وہیں ہو گی۔

اسی دھوکے میں وہ یہاں اپنے سارے ٹھاٹ باٹ اور نوکر چاکر چھوڑ کر مغرب کا رخ کرتا ہے کہ مولوی صاحب کی بیان کردہ جنت تو موت کے بعد ملے گی پہلے اسی زندگی میں جنت کے مزے لوٹ لیں۔

اب یہ بندہ جب مغرب پہنچتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ دھوکا ہو گیا۔ دودھ شہد تو بہت ہے مگر مغربی حور نہیں مانتی۔ درجنوں کیا ایک بھی مشکل سے ملتی ہے۔ وہاں گرل فرینڈ بھی بیوی جیسی ہی ہوتی ہے اور بچے گلیوں میں رلتے نہیں پھرتے۔

بہرحال اس کا تھوڑا بہت آسرا ہو جاتا ہے مگر اس کی قیمت میں اسے دن بھر برتن دھونے ہوتے ہیں یا صفائی کرنی ہوتی ہے یا کسی فیکٹری میں کام کرنا پڑتا ہے۔ یعنی مولوی صاحب نے مغرب کے متعلق جو بیان کیا ہوتا ہے وہ دھوکہ نکلتا ہے۔

دھوکے کا احساس تو ہو جاتا ہے مگر پاکستان میں اپنے پس ماندہ ساتھیوں کو وہ یہی بتاتا ہے کہ مولوی صاحب نے جیسی جنت بتائی تھی ویسی ہی میں ہم عیش کر رہے ہیں۔ پھر جب کسی جگہ معیشت کی بات چلتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ یہاں تو بہت مہنگائی ہے، پاکستان میں تو موجیں ہیں تم لوگوں کی۔ اصل میں اسے وہ موجیں یاد آ رہی ہوتی ہیں جو اس نے دور طالب علمی میں کی تھیں جب اسے خود نہیں کمانا پڑتا تھا اور وہ یہ سمجھتا ہے سب پاکستانی خود کما کر بھی بغیر فکر فاقے کے ویسے ہی عیش کر رہے ہیں جیسے وہ کیا کرتا تھا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments