کیا کتاب مر رہی ہے؟


کیا ہمارے ہاں مطالعے کا کلچر ختم ہو رہا ہے؟ اور کیا ہماری نئی نسل شعر و ادب سے مکمل طور پر بیگانہ ہونے کو ہے؟ ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کسے فرصت ہے؟ اور اگر ان سارے سوالوں کا جواب ہاں میں ہے تو کس کو فکر ہے کہ مطالعے کے کلچر کو زندہ رکھنے کی کوئی تدبیر کی جائے؟ کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ کتاب کو مرنے سے بچائے؟ کس کے لئے یہ بات ذرا سی بھی اہمیت رکھتی ہے کہ وہ نئی نسل کا رشتہ شعر و ادب سے قائم رکھے؟

یہ باتیں ہمارے لئے بے معنی ہو چکی ہیں۔ ہماری ترجیحات بڑی مختلف ہیں۔ ہمیں سیاسی کھینچا تانی ہی سے فرصت نہیں۔ رہا میڈیا۔ تو اس کی سکرین بھی سیاسی کھیل تماشوں سے بھری رہتی ہے۔ ہزاروں ٹاک شوز میں آپ کو شاید ایک آدھ ہی ملے جس میں کتاب کا نوحہ پڑھا گیا ہو۔ یونیورسٹی سطح کی ایک استاد ہوتے ہوئے، میں دیکھتی یوں کہ ہمارے طلبہ و طالبات کس تیزی کے ساتھ کتاب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ میرا شعبہ، ابلاغیات عامہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس شعبے سے فارغ التحصیل ہونے والے بیشتر افراد، اسی شعبے سے منسلک ہوتے ہیں۔ جب ان کو بھی مطالعے کا شوق نہیں ہو گا، جب وہ بھی کتاب سے رشتہ توڑ لیں گے اور جب شعر و ادب سے دلچسپی ان کے مزاج کا بھی حصہ نہیں رہے گی تو آپ کو ابلاغیات، میں وہی کچھ نظر آئے گا، جو اس وقت دکھائی دے رہا ہے۔

میرے سامنے اس وقت گیلپ اور گیلانی فاونڈیشن کا ایک سروے ہے جو تین سال پہلے، 2018 میں کیا گیا تھا۔ اس سروے کے مطابق پاکستان میں اپنے نصاب کے علاوہ پڑھنے والوں کی تعداد صرف 9 فی صد ہے۔ 75 فی صد افراد ایسے ہیں جن کا اپنی نصابی یا درسی کتاب کے علاوہ، کسی اور کتاب سے کوئی تعلق نہیں یعنی انہوں نے سرے سے کوئی کتاب پڑھی ہی نہیں۔ سروے کے مطابق طلبہ و طالبات صرف اپنے سلیبس سے متعلق کتابوں یا ان کے خلاصوں تک محدود رہتے ہیں۔ ایک اور عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کتاب کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے۔ طباعتی اور اشاعتی ادارے بحران کا شکار ہیں۔ انہوں نے علمی، ادبی، شعری اور تاریخی کتب چھوڑ کر صرف درسی کتابیں چھاپنا شروع کر دیا ہے۔

یہ بے حد افسوس ناک صورتحال ہے۔ خاص طور پر اس ملک میں جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور ”ریاست مدینہ“ کی آرزو کرتا ہے۔ قرآن کریم کا آغاز ہی، پہلی وحی کی صورت، لفظ ”اقرا“ سے ہوا جب نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی کہ ”پڑھو“ ۔ حضور ﷺ کی حیات طیبہ کے بیشتر واقعات بتاتے ہیں کہ تعلیم اور پڑھائی لکھائی کو کتنی اہمیت دی گئی۔ جنگی قیدیوں کی رہائی کے لئے صرف یہ شرط رکھی گئی کہ وہ مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں۔ اسلامی تاریخ کی پوری روایت میں کتاب کو زبردست اہمیت حاصل رہی۔ مسلم دور کے عظیم کتب خانوں کا مقابلہ آج بھی شاید نہ کیا جا سکے۔ علامہ اقبال نے مسلم دنیا کے زوال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔

مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

اس شعر سے لگتا ہے کہ زوال کا سفر بہت پہلے شروع ہو گیا تھا۔ اب تو یہ زوال شاید آخری حدوں تک آن پہنچا ہے۔ میں نے کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے یونیسکو کے اعداد و شمار جاننے کی کو شش کی تو معلوم ہوا کہ تازہ تریں معلومات میسر نہیں۔ تاہم گزشتہ برسوں کے اعداد و شمار پر انحصار کرتے ہوئے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ کتب (تین لاکھ) امریکہ میں چھپ رہی ہیں۔ برطانیہ میں دو لاکھ سے زائد سالانہ کتب چھپتی ہیں۔ ایران واحد اسلامی ملک ہے جس میں خاصی بڑی تعداد میں غیر نصابی کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ کتب سالانہ سے زائد ہے۔ پاکستان کے اعداد و شمار، پانچ ہزار بتائے گئے ہیں۔ ترکی میں ایک لاکھ سالانہ سے زائد کتب شائع ہو رہی ہیں۔ سعودی عرب میں ادب عالیہ یا ادب لطیف کی کتب کی تعداد ہم سے بھی کم ہے۔

کتاب کیوں مر رہی ہے؟ مطالعے کا کلچر کیوں ختم ہو رہا ہے؟ ہماری نئی نسل شعر و ادب سے کیوں بے گانہ ہو رہی ہے؟ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، یہ سوالات نہ موجودہ حکومت کے لئے کوئی اہمیت رکھتے ہیں نہ اس سے پہلے والی حکومتوں کے لئے اہم تھے۔ تو کیا اس ملک میں کوئی ادارہ، کوئی تنظیم نہیں جو ان سوالات کا جائزہ لے۔ ان کے اسباب تلاش کرے اور ان کی اصلاح کے لئے کوئی لائحہ عمل تجویز کرے۔ ملک کی جامعات میں سے ہی کوئی پہل کرے۔ کوئی کمیٹی، کوئی کمیشن، کوئی فورم ایسا ہو جو ٹک کر اس موضوع پر کام کرے۔ لیکن جامعات بھی معلوم نہیں کس طرح کے مسائل سے دوچار ہیں۔ اور کس مشکل سے اپنے روزمرہ کے معاملات چلا رہی ہیں۔

کتاب کی موت اور شعر و ادب سے لاتعلقی معاشرے پر کئی طرح کے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ شعر و ادب یعنی ادب لطیف کا ذوق انسان کی پوری شخصیت کو بدل دیتا ہے۔ اس کی بول چال، اس کا لب و لہجہ، اس کا انداز گفتگو، اس کی زبان، اس کے الفاظ، اس کا طرز کلام، سب کچھ ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ شعر و ادب کا ذوق رکھنے والا ڈاکٹر، دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔ انجینئر کے فن میں اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

استاد کے لیکچر میں اس کا ذوق رچ بس جاتا ہے۔ غرض زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، علم و ادب سے تعلق رکھنے والے شخص کا رویہ، علم و ادب سے لاتعلق شخص سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں عدم برداشت، اشتعال، تلخ کلامی، تنگ دلی جیسے رویے پروان چڑھ رہے ہیں، ان کی بڑی وجہ یہی ہے۔ حتی کہ گھروں کے اندر بھی اس کے اثرات نمایاں ہیں۔ ادب لطیف سے لاتعلق گھرانا، ہر اعتبار سے اس گھرانے سے مختلف ہوتا ہے جہاں، شعر و ادب کی روایت موجود ہو۔

سیل فون اور ٹیکنالوجی کے اثرات کیا صرف پاکستان پر پڑ رہے ہیں؟ کیا امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک نے ابھی سیل فون نہیں دیکھا یا جدید ٹیکنالوجی ابھی وہاں نہیں پہنچی؟ تو معاملہ کچھ اور ہے۔ سیل فون اور ٹیکنالوجی کے اثرات ضرور ہیں لیکن کتاب کلچر تو کب سے مر رہا ہے۔ کوئی ہے جو کتاب کلچر کو زندہ رکھنے کی تدبیر کرے۔

۔ ۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments