ہوئے تم دوست جس کے…


جناب عمران خان کی حکومت کے وزراء کے ساتھ اتفاق کرنا آج کل خطرے سے خالی نہیں۔ اس خطرے کو سمجھنے لیے مرزا غالب کا ایک شعر پیش ہے۔

انہوں نے فرمایا تھا،

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو

غالب نے یہ شعر قریباﹰ ڈیڑھ سو سال قبل کہا تھا لیکن آج کل یہ شعر عمران خان کی حکومت پر صادق آتا ہے، جو نیا پاکستان بنانے نکلے تھے لیکن اب تو ان کو ووٹ دینے والے پچھتا رہے ہیں اور ان کی حمایت کرنے والے صحافی قوم سے معافیاں مانگ رہے ہیں۔ ان حالات میں عمران خان کے وزراء سے اتفاق کرنے کا مطلب پاکستان کے ستم زدہ غریبوں سے دشمنی کے مترادف ہے لیکن کیا کریں کہ ‍ہم ایک صحافی ہیں۔

 بُری سے بُری حکومت بھی کوئی اچھی بات کرے تو ہمیں بلا خوف و خطر اس کی تائید کرنی چاہیے۔ جب سے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی آڈیو لیک ہوئی ہے حکومت کے کئی وزراء مطالبہ کر رہے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ اس معاملے کا فوری نوٹس لے۔ یہ درست ہے کہ حکومتی وزراء اس آڈیو لیک اسکنیڈل کو مسلم لیگ نون کی سازش قرار دے رہے ہیں اور ان کے خیال میں مسلم لیگ نون کو بے نقاب کرنے کے لیے اعلیٰ عدلیہ کو فوری نوٹس لینا چاہیے۔

 ہمیں نہیں معلوم کہ یہ مسلم لیگ نون کی سازش ہے یا نہیں؟ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ اس آڈیو کو ایک صحافی احمد نورانی منظر عام پر لائے ہیں۔ احمد نورانی کو مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں نامعلوم افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ اسلام آباد پولیس اُن نامعلوم افراد کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی اور اب احمد نورانی اُن نامعلوم افراد کے لیے بہت بڑا دردِ سر بن چکے ہیں۔

 پتا نہیں کہ میاں ثاقب نثار کی آڈیو ان کے پاس کہاں سے آئی لیکن یہ کوئی ٹیلی فون ریکاڈنگ نہیں ہے۔ یہ کسی اہم شخصیت کے ساتھ ہونے والی نجی گفتگو ہے، جس میں سابق چیف جسٹس کچھ اداروں اور ان سے وابستہ دوستوں کا ذکر کر رہے ہیں، جو سپریم کورٹ کے ذریعے نواز شریف اور مریم نواز کو سزا دینا چاہتے تھے۔

 خیال ہے کہ سابق چیف جسٹس کی گفتگو انہی دوستوں میں سے کسی ایک کے ہاتھ لگ گئی اور اس دوست کی دانستہ یا نادانستہ غلطی سے یہ آڈیو احمد نورانی کے پاس پہنچ گئی۔ بے باک لیکن ہوشیار صحافی نے اس آڈیو کا فرانزک ٹیسٹ کرایا اور سٹوری بریک کر دی۔ اس سٹوری نے پاکستان کی سیاست میں طوفان برپا کر دیا اور نامعلوم افراد کو یہ پیغام دے دیا کہ آپ کسی صحافی کو جتنا بھی ڈرا لیں، پھینٹی لگا لیں، گولیاں مروا دیں، اخبار سے نکلوا دیں، پابندیاں لگوا دیں لیکن آج کے دور میں یہ ہتھکنڈے صحافت میں سچ بولنے والوں کو خاموش نہیں کرا سکتے بلکہ آخرکار یہ ہتھکنڈے نامعلوم افراد کو زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔

عمران خان کے وزراء ایک طرف احمد نورانی کی سٹوری کو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں دوسری طرف اعلیٰ عدلیہ سے اس سٹوری کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ معلوم نہیں کہ وزراء صاحبان کے اس مطالبے کے پیچھے کیا ہے؟ تادم تحریر اعلیٰ عدلیہ نے اس آڈیو لیک اسکینڈل کا نوٹس نہیں لیا۔ بدھ کی دوپہر مریم نواز نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کی اور انہوں نے بھی اس آڈیو لیک اسکینڈل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

 میں مریم نواز کے بجائے فواد چودھری، شہزاد اکبر اور شہباز گل سمیت ان کے ہم نواؤں کے مطالبے کی حمایت کرتا ہوں۔ مان لیا کہ احمد نورانی کسی سازش کا حصہ ہیں تو اس سازش کو بے نقاب کرنے کے لیے کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی انکوائری تو ہونی چاہیے۔ میاں ثاقب نثار صاحب بطور چیف جسٹس جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم اور مانیٹرنگ ججوں پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ اگر اُن پر لگائے جانے والے الزامات غلط ہیں تو اُنہیں خود آگے آنا چاہیے۔ اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرنا چاہیے۔ اگر وہ صرف زبانی کلامی تردیدوں پر گزارا کریں گے تو پھر کئی سازشی مفروضے جنم لیں گے۔

 ایک سازشی مفروضہ یہ بھی ہے کہ حکومتی وزراء حب علی میں نہیں بلکہ بغض معاویہ میں عدلیہ سے اس آڈیو اسکینڈل کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وزراء کا خیال ہے کہ تحقیقات میں میاں ثاقب نثار کے ساتھ ساتھ ایک پتھر دل صنم بھی ڈوب جائے گا۔ اگر یہ سازشی مفروضہ درست ہے تو حکومتی وزراء کی عقل پر ماتم کرنا چاہیے کیوں کہ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ میاں ثاقب نثار نے کسی پتھر دل صنم کے دباؤ پر نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا تو پھر 2018ء کے الیکشن کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو جائے گی۔

سو باتوں کی ایک بات۔ میاں ثاقب نثار کو چاہیے کہ خود ایک غیر جانبدارانہ تفتیش کا مطالبہ کر دیں۔ اس معاملے میں مجھ ناچیز کا بھی کچھ تجربہ ہے۔ جی ہاں! 2010ء میں کچھ نامعلوم افراد نے میری ایک مبینہ ٹیلی فون ٹیپ کی آڑ میں مجھ پر اغواء اور قتل کے الزامات لگائے۔ میں نے ان الزامات کا سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ تک میں سامنا کیا۔ ہر عدالت نے ان الزامات کو مسترد کر دیا۔

 2017ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کے حکم پر اس معاملے میں پھر سے ایف آئی آر درج ہوئی۔ میں نے ضمانت قبل از گرفتاری کروا کر اپنے آپ کو پولیس تفتیش کے لیے پیش کر دیا۔ میری گفتگو کی ریکارڈنگ بھی ایک غیر ملکی فرانزک ایجنسی کو بھیجی گئی لیکن وہاں سے رپورٹ منفی آ گئی۔ میرے وکلاء ایک ہی سوال پوچھتے تھے کہ یہ ٹیپ کہاں سے آئی ہے؟ ریکارڈنگ کس نے کی؟ نہ تو ٹیپ اصلی ثابت ہوئی اور نہ ہی کوئی یہ جواب دے سکا کہ ٹیپ کہاں سے آئی؟ ایک دفعہ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے 2017ء میں بھی سرخرو کیا۔

اگر میاں ثاقب نثار بےگناہ ہیں تو اس آڈیو کا کسی قابل اعتماد فرانزک ایجنسی سے تجزیہ کرائیں اور اپنے آپ کو قانون کے رحم وکرم پر چھوڑ دیں۔ صرف اتنا کہنا کافی نہیں کہ یہ تو میری آواز ہی نہیں ہے۔ یہ سوال اٹھانا بہت ضروری ہے کہ یہ آڈیو کہاں سے آئی اور اگر یہ اصلی نہیں ہے تو یہ پتا تو لگانا بہت ہی ضروری ہے کہ یہ جعلی آڈیو کس دوست نے کس پتھر دل صنم کو پھنسانے کے لیے تیار کی؟ جس نے بھی آڈیو لیک کی ہے اس کا اصل نشانہ میاں ثاقب نثار نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments