پولیس کے ہاتھوں مشکوک خواتین کی جامہ تلاشی پر قانون کیا ہے؟

عزیز اللہ خان - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور


خواتین
آپ نے اکثر ملک کی مختلف شاہراؤں پر لگے پولیس ناکوں پر پولیس اہلکاروں کو گاڑیاں روکنے اور مسافروں کی تلاشی لیتے دیکھا ہو گا۔ اکثر اوقات ان گاڑیوں میں خواتین مسافر بھی موجود ہوتی ہیں جنھیں سرسری پوچھ گچھ کے بعد جانے دیا جاتا ہے۔

مگر اگر کسی مخبری کے بنیاد پر کسی مشکوک خاتون کی جامہ تلاشی لینے ہو تو کیا پولیس اہلکار ایسا کر سکتے ہیں۔ عموماً دیہی علاقوں میں مرد پولیس اہلکاروں کی جانب سے خواتین کی تلاشی لینے کے واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ مگر کیا قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو خواتین کی جامہ تلاشی یا باڈی سرچ کرنا ہو تو اس کے لیے قانون کے مطابق خواتین اہلکاروں کا ہونا ضروری ہے اور اس کے لیے قانون اور آئین کے مطابق خواتین کے شرم و حیا اور تقدس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔

لیکن اگر سنیپ چیکنگ یا ناکہ بندی کے دوران راستوں میں جہاں لیڈی اہلکار نہ ہوں تو ایسے میں مرد اہلکاروں کے لیے قانون کیا کہتا ہے اور مرد اہلکاروں کو کیا کرنا چاہیے؟

ہم اگر صرف پشاور کی مثال لیں تو اس شہر کی کل آبادی 22 لاکھ سے زیادہ ہے اور اس شہر میں پولیس اہلکاروں کی کل تعداد 18000 ہے۔ تاہم خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد صرف 110 ہے۔ پشاور میں لیڈی پولیس سٹیشن صرف ایک ہے جبکہ پانچ پولیس تھانے ایسے ہیں جہاں خواتین ڈیسک قائم ہے۔

پشاور ہائی کورٹ میں گذشتہ روز ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ مرد پولیس اہلکاروں کو ہرگز یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی خاتون کی تلاشی لیں، اس کے لیے صرف لیڈی پولیس اہلکار ہی تلاشی لے سکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قانون کے تحت خواتین کو یہ خصوصی حق حاصل ہے۔

خواتین

یہ سماعت منشیات کی سمگلنگ میں گرفتار ایک خاتون کی ضمانت کے لیے جاری تھی جس میں عدالت نے خاتون کی ضمانت کی درخواست منظور کی ہے۔

پولیس نے ستمبر میں ایک خاتون کو منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ پولیس کا موقف تھا کہ پشاور کی رنگ روڈ پر اس خاتون کے پاس ایک تھیلہ یا شاپنگ بیگ تھا اور تلاشی کے دوران 3280 گرام ہیروئن برآمد ہوئی تھی۔ ملزمہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ خاتون چھ ماہ کی حاملہ تھیں اور یہ کہ ان کی تین بچے ہیں اور پشاور کی مصروف شاہراہ پر خاتون کی تلاشی لی گئی جبکہ کوئی لیڈی کانسٹیبل موجود نہیں تھی۔

سماعت کے دوران یہ بھی کہا گیا کہ کیسے شاہراہ پر خاتون کی تلاشی کے وقت ان کی شرم و حیا اور تقدس کا خیال رکھا گیا ہو گا اور یہ کہ جس وقت تلاشی لی گئی اور گرفتاری عمل میں آئی، اس وقت لیڈی پولیس اہلکار موجود نہیں تھی۔

عدالت کو بتایا گیا کہ خاتون کو گرفتاری کے بعد مردوں کے پولیس تھانے میں تین گھنٹے تک رکھا گیا جو کہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے اس صورتحال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مرد اہلکار کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی خاتون کی تلاشی لے سکے۔

اس بارے میں سینیئر وکیل نور عالم ایڈووکیٹ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اگر خاتون کی تلاشی لینا یا اس کے جسم کے حصوں کو چھو کر سرچ کرنا ہو تو اس کے لیے خاتون پولیس اہلکار کا ہونا ضروری ہے اور اس کے لیے خاتون کی شرم و حیا اور اس کی عزت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مردوں کے سامنے بھی تلاشی نہیں لی جا سکتی۔ تو ایسے میں پولیس کو کیا کرنا چاہیے؟

پشاور کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس ہارون رشید نے بی بی سی کو بتایا کہ مرد پولیس اہلکار کسی صورت خواتین کی چینکنگ نہیں کرتے اور اگر ایسی مجبوری ہو تو اس کے لیے لیڈی پولیس ک طلب کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر پولیس اگر کسی مخبری پر چھاپہ مارتی ہے تو موقع محل کے تحت لیڈی پولیس اہلکار بھی ان کے ہمراہ ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے موجود ناکوں پر بھی لیڈی پولیس اہلکار موجود رہتی ہیں اور اگر کوئی اچانک کہیں ناکہ لگایا جائے اور وہاں کوئی مشکوک خواتین ہوں تو اس کے لیے خواتین کو روک کر لیڈی پولیس اہلکار طلب کی جاتی ہے۔

ان سے جب پوچھا کہ کیا پشاور میں اتنی خواتین اہلکار موجود ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پشاور میں 110 لیڈی پولیس اہلکار ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ تعداد کم ہے لیکن پھر بھی موجودہ حالات کے تحت لیڈی اہلکاروں کو ضرورت کے مطابق تعینات کیا جاتا ہے۔

خواتین

ایس ایس پی نے بتایا کہ اس وقت ضرور مسئلہ ہوتا ہے جب ناکے پر خواتین اہلکار موجود نہیں ہوتیں اور مرد اہلکاروں کو کسی مشتبہ خواتین کو چیک کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے خواتین کے پولیس تھانے سے لیڈی اہلکاروں کو بلایا جاتا ہے یا مشتبہ خواتین کو لیڈی پولیس تھانے لے جایا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’خدشہ تھا کہ گھر والے پولیس کی نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھنے کا نہ کہہ دیں‘

پولیس کی تحویل میں خاتون کی برہنہ رقص کی ویڈیو، خواتین پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی

خواتین افسران کو سنگین مقدمات میں تفتیشی ذمہ داریاں کیوں نہیں سونپی جاتیں؟

قانون کیا کہتا ہے؟

قانون کے مطابق خواتین کی عزت، ان کی شرم و حیا اور تقدس کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

سینیئر وکیل نور عالم ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا ضابطہ فوجداری کے تحت گرفتاری یا تلاشی لینے کا طریقہ کار بیان کیا گیا ہے اور اس کی شق 52 کے تحت جب کسی خاتون کی تلاشی لینا مقصود ہو تو لیڈی کا نسٹیبل تلاشی لے گی اور اس خاتون کی شرم و حیا کا خیال رکھا جائے گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ جب لیڈی اہلکار کسی خاتون کے جسم کی تلاشی لے گی اور جسم کے حصوں کو چھوئے گی تو یہ عمل مردوں کے سامنے نہیں ہونا چاہیے اور اس کے لیے خاتون کے علیحدہ پردے میں لے جانا ضروری ہے۔

خواتین

انھوں نے مزید بتایا کہ تفتیش کے لیے مشتبہ خاتون کو لیڈی پولیس تھانے لے جانا ہوگا یا تھانوں میں خواتین کی حوالات میں یا الگ کمرے میں کرنا ہوگی اور پردے کا خیال رکھنا ضروری ہو گا۔

نورعالم ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اگر کسی خاتون ملزمہ کو کہیں نشاندہی کے لیے لے جانا ہوگا تو اس کے لیے وقت کا خیال بھی رکھنا ضروری ہے یعنی صبح آٹھ بجے سے شام ڈھلنے سے پہلے تک واپس لانا ضروری ہو گا، اس کے علاوہ اوقات میں خواتین کو نہیں لے جایا جا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس ٹریننگ میں بھی اہلکاروں کو تربیت دی جاتی ہے کہ کیسے وہ اپنی ذہانت سے معلوم کر سکتے ہیں کہ گاڑی میں موجود مرد اور خواتین کا کیا رشتہ ہے اور ان کی باتوں سے انھیں کیا معلوم ہو رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ مجبوری کے تحت اور موقع پر پولیس اہلکار نہ ہوں اور کسی خاتون کی تلاشی لینا مقضود ہو تو اس کے لیے وہاں موجود کسی اور خاتون کو تلاشی کا کہا جاسکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں لیڈی اہلکار خواتین کو الٹا لٹکا کر ان کی پٹائی کر رہی ہیں اور یہ سب کچھ مرد اہلکاروں کی ایما پر کیا جا رہا تھا اور اس پر اب حکام نے نوٹس بھی لیا ہے۔

پولیس حکام کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا اور پاکستان میں عام طور پر خواتین اگر کسی گاڑی میں موجود ہوں تو ان کی چیکنگ نہیں کی جاتی اور یہ تہذیب اور کلچر کے تحت ایسا کیا جاتا ہے۔

نور عالم ایڈوکیٹ کے مطابق عام طور خواتین کو جرائم کی طرف رجحان انتہائی کم ہے جبکہ مردوں میں جرائم کی طرف رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ان خواتین کو اکثر مرد جرائم کے لیے استعمال کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments