راہل ڈراوڈ: انڈین کرکٹ کا فولاد جس سے اب لامحدود امیدیں وابستہ ہیں
ایاز میمن - کرکٹ تجزیہ کار، بی بی سی ہندی کے لیے
راہل ڈراوڈ سے اگر اس بات پر گفتگو کی کوشش کریں کہ انھیں انڈین ٹیم کے نئے چیف کوچ کی حیثیت سے کن چیلنجوں کا سامنا ہے، تو امکان یہی ہے کہ وہ انڈین کرکٹ میں کھلاڑیوں کی غلط عمر بتانے کے مسئلے پر بات کرنا شروع کر دیں گے۔
برتھ سرٹیفکیٹ، جو لڑکوں یا لڑکیوں کو ان سے دو سال چھوٹے ظاہر کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے، جونیئر ٹیم کی سطح پر انڈین کھیلوں میں عام ہے۔ یہ بات ڈراوڈ کو بہت تنگ کرتی ہے۔
ایک سال پہلے مجھے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ ‘یہ 12-13 سال کی عمر کے بچوں کے ساتھ انتہائی غیر منصفانہ ہے جو جسمانی طور پر 15-16 سال کی عمر کے بچوں (جنھوں نے عمر غلط بتائی ہو) کے مقابلے میں بہت کمزور ہوتے ہیں۔‘
‘ایک طرف، یہ نوجوان کھلاڑی کو نفسیاتی طور پر تباہ کر سکتا ہے، دوسری طرف، یہ بڑی عمر کے کھلاڑی کو کامیابی کے ناجائز احساس میں مبتلا کر سکتا ہے، جو اعلیٰ سطح پر کھل کر سامنے آتا ہے۔ نقصان دونوں ہی لحاظ سے ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے، ایسا کیا جا رہا ہے۔ والدین، کوچز، سکول کے پرنسپلوں اور یہاں تک کہ ریاستی کرکٹ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کی ملی بھگت سے ہوتا ہے۔‘
آج ایک سال بعد، وہ انڈیا کے سینئر کھلاڑیوں کو تربیت دے رہے ہیں۔
بلے باز اور کپتان کی حیثیت سے شاندار کیریئر کے علاوہ، انھوں نے انڈر 19 اور انڈیا اے ٹیموں کی کوچنگ کی ہے، پھر نیشنل کرکٹ اکیڈمی کی سربراہی بھی کی۔ انڈین کرکٹ میں اس وقت تقریباً ہر سینیئر کھلاڑی ان کی سرپرستی سے گزرا ہے۔
روی شاستری کے یہ عہدہ سنبھالنے سے پہلے بھی انھیں چیف کوچ بنانے کے لیے شور مچا تھا۔ انڈین ٹیم کا انچارج ہونا ایک اہم کام ہے، ہائی پروفائل بھی اور اچھی تنخواہ بھی۔ لیکن ڈراوڈ اس قسم کے لالچ میں آنے والے نہیں تھے۔ انھوں نے ذاتی طور پر وقت لیا اور یہ فیصلہ کیا کہ کیا یہ عہدہ سنبھالنا ان کے اور ان کے خاندان کے لیے درست ہے۔
ایک اور واقعہ شاید اس کی وضاحت کر سکتا ہے کہ ان کی ترجیحات کیا تھیں۔ تقریباً سات یا آٹھ سال پہلے وہ اچانک ٹی وی کمنٹری سرکٹ سے دور ہو گئے تھے۔ ہم نے کمنٹری باکس میں ایک ساتھ چند سیریز کی تھیں۔ ان کا اندازِ بیان شاندار تھا، اور ان کا تجزیہ کھیل کی گہری سمجھ والا تھا۔ انھیں براڈکاسٹروں کی طرف سے بہت زیادہ آفرز تھیں۔ انھوں نے اس کے بجائے کوچنگ جونیئرز اور انڈیا اے پر توجہ مرکوز کرنے کا انتخاب کیا۔
میں ایک دفعہ جنوبی شہر بنگلور میں پریمیئر بیڈمنٹن لیگ ٹائی کے دوران ان سے ملا اور ان سے پوچھا کہ انھوں نے ٹی وی کمنٹری کرنا کیوں چھوڑ دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ میں اتنے لمبے عرصے تک گھر سے دور نہیں رہ سکتا۔ ان کی بیوی وجیتا، جو ایک ڈاکٹر ہیں، نے حال ہی میں اپنا کیریئر دوبارہ شروع کیا ہے۔ ‘جب میں کھیل رہا تھا، وہ بچوں کی پرورش کر رہی تھی، اب میری باری ہے۔‘
2021 تک، حالات غالباً بہتر ہو چکے تھے۔ کووڈ کے خطرے میں کمی کے ساتھ، اگلے دو سالوں میں انڈین کرکٹ کے لیے چیلنجز میں تین آئی سی سی ٹورنامنٹ، ٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ ورلڈ کپ اور ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ شامل ہیں۔
ڈراوڈ کو بیان کرنے کے لیے کئی الفاظ اور القابات استعمال کیے جا چکے ہیں: پیچیدہ، منظم طریقہ کار، غیر معمولی، مستحکم اور اکثر استعمال ہونے والا لقب وال، کچھ ایسے ہیں جو آسانی سے ذہن میں آجاتے ہیں۔ لیکن ‘جارحانہ اور پرعزم‘ پکارے بغیر آپ ڈراوڈ کے اصل جادو تک نہیں پہنچتے۔
وہ باڈی لینگویج پر زیادہ زور نہیں دیتے اور شوخی بھی نہیں مارتے۔ لیکن یہ سوچنا کہ وہ صرف دفاعی انداز رکھتے ہیں ایک غلطی ہے۔ آسٹریلوی اوپنر میتھیو ہیڈن نے ریکارڈ پر کہا ہے کہ جارحیت کو سمجھنے کے لیے ڈراوڈ کی بیٹنگ کرتے وقت ان کی آنکھوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔
ان کے کیریئر کا گراف اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح انھوں نے جارحیت کے اپنے ورژن کو کھیل کی تاریخ کے عظیم ترین بلے بازوں میں سے ایک بننے کے لیے استعمال کیا۔
اس صدی کے پہلے چھ سات برسوں کو انڈین بلے بازی کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔ اگر سچن ٹنڈولکر اپنے شاندار کارناموں سے ملک کے دلوں کی دھڑکن تھے، تو ڈراوڈ فولاد تھے جس نے ٹیم کو ہمیشہ استحکام دیا۔
ڈراوڈ کو اپنے کھیل کے دنوں سے جو بھروسہ ملا وہ ریٹائر ہونے کے بعد تقریباً ایک دہائی تک برقرار ہے۔ ان کی بطور چیف کوچ تقرری پر شائقین، سابق اور موجودہ کھلاڑیوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ انڈیا نے ورلڈ کپ کی دوسری بہترین ٹیم نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شاندار کامیابی حاصل کی، اور ڈراوڈ کی بھرپور تعریف کی گئی۔
وہ پانچ میچ جو دھونی کے بغیر انڈیا ہار سکتا تھا
راہول ڈراوڈ کھیل رتن انعام کے لیے نامزد
کرکٹ میں ننانوے سے نو سو ننانوے تک کا کرب
کوہلی سات ڈبل سنچریاں بنانے والے پہلے انڈین کھلاڑی
دس بڑے کھلاڑی جو کرکٹ کا عالمی کپ نہ جیت سکے
مگر ڈراوڈ نے اپنے روایتی انداز سے اس جیت کے جشن کو ایک طرف کر دیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں ہے کہ کھیل میں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے، اور یہ کہ بڑے بڑے ناموں والے کوچز کے ارد گرد کی چمک دمک کبھی بھی کمزور پڑ سکتی ہے۔
انڈیا کے سب سے کامیاب کوچ جان رائٹ، گیری کرسٹن اور روی شاستری رہے ہیں۔ تاہم، زیادہ مشہور گریگ چیپل اور انیل کمبلے کے دور مختصر تھے، جن کے دور تنازعات پر ختم ہوئے۔
آج کل کی کرکٹ میں کوچنگ مشکل ہو سکتی ہے، کئی فارمیٹس کے بارے میں ساتھ ساتھ سوچنا پڑتا ہے۔ اس عہدے کے دباؤ سے نمٹنے کے علاوہ، تکنیکی پہلوؤں میں مہارت، میچ کو سمجھنے کی صلاحیت، اور بہت زیادہ کام کے بوجھ سے نمٹنا پڑتا ہے۔
اور ڈراوڈ کے سامنے دو بڑے چیلنجز ہیں۔
ایک متضاد شخصیات کے دو کپتانوں کو سنبھالنا، ٹیسٹ اور ون ڈے میں ویراٹ کوہلی، اور ٹی ٹوئنٹی میں روہت شرما۔ اس کی نزاکت کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ یہ ڈریسنگ روم کو بہت زیادہ متاثر کر سکتا ہے۔
دوسرا یہ ہے کہ ٹیم کو کئی ممالک والے ملکی ٹورنامنٹ جیتنے کے قابل نہ ہونے کی نفسیاتی رکاوٹ عبور کروانا۔ انڈیا نے آخری آئی سی سی ٹائٹل 2013 میں چیمپئنز ٹرافی جیتا تھا۔
اس کے بعد سے، انڈیا کے دو طرفہ مقابلوں میں شاندار ریکارڈ کے باوجود، 2015 اور 2019 کے ون ڈے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں، 2017 کی چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں، اس سال کے افتتاحی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل میں، اور حالیہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ناک آؤٹ مرحلے کے لیے کوالیفائی کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔
ڈراوڈ سے توقعات بہت زیادہ ہیں، اور وقت محدود ہے۔ مستقبل کیسے کھلتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).