جوتے کے ڈبے کے سائز کی سیٹیلائٹس دنیا کو کیسے تبدیل کر رہی ہیں؟


کیوب سیٹ ایک چھوٹی سی چیز ہے لیکن یہ ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے۔ اس کا سائز جوتے کے ایک ڈبے کے برابر ہوتا ہے۔ ان چھوٹی سی سیٹیلائٹس کو سنہ 1999 میں پروفیسر باب ٹوئگز نے طالب علموں کے لیے ایجاد کیا تھا۔

ان چھوٹی سیٹیلائٹس کی تیاری میں کم وقت لگتا ہے اور ان انھیں تیار کرنے اور خلا میں چھوڑنے کی لاگت بھی کم ہے۔ اسی لیے اب زمین کے مدار میں ایسی سینکڑوں سیٹیلائٹس گھوم رہی ہیں جنھیں یونیورسٹیوں، سٹارٹ اپ کمپنیوں اور حکومتی اداروں نے تیار کیا ہے۔

یہ چھوٹی چھوٹی سیٹیلائٹس موثر طریقے سے بہت سے کام کر رہی ہیں۔ ہم نے ایسے چھ شاندار پروجیکٹس کا جائزہ لیا ہے جن میں ان سیٹیلائٹس کے ذریعے دنیا کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

1: جنگلات کی کٹائی کو روکنا:

جنگلات کی کٹائی

ناروے کی حکومت نے دنیا بھر میں جنگلات کی کٹائی کے مسئلے کا مقابلہ کرنے کے لیے سیٹیلائٹ کمپنی 'پلینٹ' کے ساتھ شراکت داری کی ہے۔ پلینٹ کمپنی کے پاس 180 کیوب سیٹس سیٹیلائٹس ہیں جو ہر وقت خلا سے زمین کی تصاویر لیتی رہتی ہیں۔ ان سیٹیلائٹس میں لگے ہوئے کیمروں کا ریزولوشن تین ملین فی پیکسل ہے اور یہ خلا سے درختوں کی کٹائی کے شواہد حاصل کر سکتے ہیں۔

پلینٹ کمپنی کے سربراہ وِل مارشل کا کہنا ہے کہ ناروے کی حکومت نے 64 ٹراپیکل ممالک کا ڈیٹا اکھٹا کرنے کے لیے رقم ادا کی ہے۔

‘ہم ان ممالک کے محکمۂ جنگلات کو بتاتے ہیں کہ ان کے ملک میں کہاں کہاں جنگلات کی کٹائی ہو رہی ہے اور اگر کوئی ملک اس کٹائی کو روکنے سے متعلق معاہدے پر عمل کرتا ہے تو ناروے کی حکومت ایسے ملک کو اس کام کے لیے رقم فراہم کرتی ہے۔‘

2: معدومی کے خطرے سے دوچار جانوروں پر نظر رکھنا:

جانوروں کی نقل حرکت پر بھی ان چھوٹی سیٹیلائٹس کے ذریعے نظر رکھی جا رہی ہے

اس سال اٹلی اور کینیا کے طالبِ علموں نے 'وائلڈ ٹریک کیوب - سمبھا‘ نامی سیٹیلائٹ خلا میں بھیجی ہے۔ یہ کیوب سیٹ سیٹیلائٹ خلا سے کینیا کے نیشنل پارک میں پرندوں اور جانوروں کی نگرانی کرے گی۔

نیروبی میں انجینیئرنگ کے طالبِ علم ڈینیئل کیاری کہتے ہیں ’ہم نے انسانوں اور جنگلی حیات کے درمیان تنازعوں کو دیکھا ہے۔ مثال کے طور پر جب ہاتھی فصلوں پر چڑھ دوڑتے ہیں تو املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور کبھی کبھار تو لوگوں کو ہلاک بھی کر دیتے ہیں۔’

وہ کہتے ہیں کہ ایسے موقعوں پر ہم لوگوں کو جانوروں کی آنے کی پہلے سے خبر دے کر ان کی مدد کرتے ہیں تا کہ ان کے گاؤں تک پہنچنے سے پہلے ہی لوگ تیار رہیں اور انھیں بھگا دیں۔

ان طالبِ علموں کا منصوبہ ہے کہ وہ ہاتھیوں کو ریڈیو ٹیگ لگائیں گے۔ انھیں امید ہے کہ اس طرح وہ ہاتھوں کی نقل و حرکت کے علاوہ دیگر معلومات بھی حاصل کر سکیں گے۔

ڈینیئل کا کہنا ہے کہ کینیا میں ہاتھی دانت اور گینڈوں کی سینگ حاصل کرنے کے لیے ان جانوروں کا غیر قانونی شکار ایک عام مسئلہ ہے۔ ’ہمارے خیال میں یہ ریڈیو ٹیگ ان جانوروں کے دل کی دھڑکن کے ذریعے یہ بھی معلوم کر لیں گے کہ وہ زندہ ہیں یا انھیں ہلاک کر دیا گیا ہے۔‘

کیوب سیٹ تین سال کے مشن پر ہے۔ کیوب سیٹ سیٹیلائٹ کی عمر دو اور پانچ سال ہوتی ہے جس کے بعد یہ زمین کی فضا میں جل کر ختم ہو جاتی ہیں۔ ان کی عمر کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ انھیں زمین کے مدار میں کتنی اونچائی پر چھوڑا گیا ہے۔

3: جدید دور کی غلامی کو سامنے لانا:

ناٹنگھم یونیورسٹی میں انسانی حقوق کا پروجیکٹ ’رائٹس لیب‘ جبری مشقت کی خفیہ دنیا میں گھسنے کے لیے سیٹیلائٹ سے حاصل ہونے والی تصاویر کا استعمال کرتا ہے۔ اس تنظیم نے حال ہی میں کیوب سیٹ کی تصاویر کے ذریعے یونان میں پھلوں کے باغات میں کام کرنے والے بنگلہ دیشی مزدوروں کی عارضی بستیوں کے نقشے مرتب کیے ہیں۔

اس پروجیکٹ کی سربراہ پروفیسر ڈورین بوائڈ کا کہنا ہے ’ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ کچی آبادیاں کس طرح تبدیل ہو رہی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جب انھیں ہٹا دیا جاتا ہے تو کس طرح نئی بستیاں وجود میں آ جاتی ہیں۔ ہمیں اس کا اندازہ ماضی اور حال کی تصاویر سے ہوتا ہے۔‘

اس پروجیکٹ کی ٹیم ایک مقامی این جی او کے ساتھ کام کرتی ہے جو ان کیمپوں میں جاتے ہیں جو اس ٹیم نے ڈھونڈے ہوتے ہیں۔

’یہ لوگ ان کیمپوں میں رہنے والے تارکینِ وطن سے بات کر سکے تھے اس لیے ان کے پاس زیادہ معلومات تھیں کہ یہ تارکینِ وطن کن حالات میں رہ رہے تھے۔ وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ اس علاقے میں ہمارے پاس 50 عارضی بستیاں ہیں تو ہم اپنے کام کو کس طرح ترجیحی بنیادوں پر کریں۔‘

4: خلائی ملبے کی صفائی:

حال ہی میں دنیا بھر میں روس پر غصے کا اظہار کیا گیا جب اس نے اپنی ایک پرانی سیٹیلائٹ کو تباہ کرنے کے لیے میزائل داغ دیا۔ وہ سیٹیلائٹ تو تباہ ہو گئی لیکن اس کے ہزاروں ٹکڑے زمیں کے مدار کے نچلے حصے میں گھومنا شروع ہو گئے۔

گلوبل نیٹ ورکس نے اب تک خلا میں کچرے کے تقریباً 30 ہزار ٹکڑے ڈھونڈھے ہیں، اس کچرے میں ناکارہ سیٹیلائٹس سے لے کر خلائی راکٹوں کے ٹکڑے شامل ہیں۔ لیکن اس خلائی ملبے میں ایسی چیزیں بھی شامل ہیں جو اتنی چھوٹی ہیں کہ ان کا پتا لگانا مشکل ہے لیکن ان کا سائز بہرحال اتنا بڑا ضرور ہے کہ وہ بڑی اور اہم سیٹیلائٹس یا کسی خلائی جہاز پر موجود خلابازوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔

تاہم سائنسدان اب اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں ایک قدم آگے بڑھ چکے ہیں کہ زمین کے مدار میں تیزی سے گھومتے ہوئی کسی شے کو کیسے پکڑا جائے۔ اس پیش رفت کی وجہ بھی کیوب سیٹ ہیں۔ ان ہی چھوٹی سیٹیلائٹس کو مدار میں گھومتی ہوئی کسی شے کو پکڑنے کے تجربات میں استعمال کیا جا رہا ہے۔

سنہ 2018 میں ریموؤ ڈیبری نامی ایک یورپی سیٹیلائٹ نے کامیابی سے دو کیوب سیٹ سیٹیلائٹس کو خلا میں چھوڑا اور پکڑا، اس کام میں ایک ہارپون اور ایک نیٹ کو استعمال کیا گیا۔

اس سال ایک جاپانی کمپنی ایسٹروسکیل نے ای ایل ایس اے-ڈی نامی خلائی جہاز کو خلا میں بھیجا جس نے اپنے مقناطیسی نظام کو استعمال کر کے کامیابی سے ایک کیوب سیٹ کو خلا میں چھوڑا اور پھر پکڑ لیا۔

یہ بھی پڑھیے

انڈین مسلم نوجوان نے ‘سب سے ہلکا’ سیٹیلائٹ بنا لیا

جنگلات کی بحالی: فطری طور پر درخت دوبارہ اگ گئے

’نئے میدان جنگ کے لیے سپیس فورس کے قیام کا وقت آ گیا ہے‘

روس اور چین کا ’خلائی کچرا‘ بڑے حادثے سے بچ گیا

ہوا سے چلنے والی ٹربائن

5: ونڈ ٹربائنز کی دیکھ بھال:

ایسی بہت سے کیوب سیٹس ہمارے سروں پر گھوم رہی ہیں جن کا کام مختلف کاموں کے لیے سستا انٹرنیٹ فراہم کرنا ہے۔ سیٹیلائٹس کا یہ نیٹ ورک دنیا بھر میں دور دراز علاقوں میں موجود ان اشیا سے لوگوں کو جوڑتا ہے جن پر سینسرز لگائے گئے ہیں۔ کچھ کاشت کار ان سینسرز کو جانوروں کے کھانے کے حوض میں پانی کی سطح اور سٹوریج ٹاورز پر نظر رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تا کہ انھیں خود وہاں جائے بغیر دور بیٹھے صورتحال معلوم رہے۔

کیوب سیٹ دوبارہ قابل استعمال توانائی کو زیادہ کارآمد بنانے میں بھی استعمال ہو سکتی ہیں۔ ونڈ ٹربائنز پر عموماً سال میں دو مرتبہ دیکھ بھال اور مرمت کے لیے جایا جاتا ہے۔ اگر کسی ٹربائن کا بلیڈ خراب ہو گیا ہے تو اس بات کو معلوم ہونے میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔

پنگ سروسز نامی ایک کمپنی نے ایسا سینسر بنایا ہے جو ونڈ ٹربائن کے گھومتے ہوئے پنکھوں کی آواز پر نظر رکھتا ہے۔ یہ سینسر پنکھے یا بلیڈ میں کسی خرابی کی صورت میں تبدیل ہونے والی آواز کی فوراً نشاندہی کر دیتا ہے۔ یہ سینسر کیوب سیٹ کے ذریعے فوری طور پر ٹربائن آپریٹر کو مطلع کر دیتا ہے۔ اس وجہ سے ٹربائن کی مرمت فوری طور پر کی جا سکتی ہے اور اس طرح ان کی کارکردگی بھی بہتر ہو سکتی ہے۔

6: خلاؤں میں تحقیق کا سفر:

ویسے تو زیادہ تر کیوب سیٹس زمین پر نظر رکھتی ہیں لیکن ان میں سے کچھ دوسری طرف یعنی ستاروں کی جانب دیکھ رہی ہیں۔

سنہ 2018 میں خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا نے پہلی مرتبہ کیوب سیٹس دور دارز خلاؤں میں بھیجیں۔ مارکو-اے اور بی نامی ان کیوب سیٹس نے مریخ سے متعلق بہت اہم معلومات بھیجیں۔ اگلے سال ناسا اپنے آرٹیمِس ون راکٹ سے مزید 10 کیوب سیٹس خلاء میں بھیجے گا۔ اس تحقیق میں یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ خلا کی گہرائیوں میں کسی زندہ جسم پر تابکاری کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ چاند کے قطبِ جنوبی میں پانی کے ذخائر پر تحقیق بھی اس مشن کا حصہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments