پاکستان اور انڈین کمانڈرز کے 1971 کی جنگ کے دوران ایک دوسرے کو خطوط اور چائے کا ذکر

ریحان فضل - بی بی سی ہندی، دہلی


1971 کی جنگ میں جب مشرقی محاذ کے علاقے میں انڈین فوجیوں نے بخشی گنج پر قبضہ کیا تو اس علاقے کے کمانڈر میجر جنرل گربخش سنگھ گل نے وہاں جانے کی خواہش ظاہر کی۔

بریگیڈیئر ہردیو سنگھ کلیر نے اصرار کیا کہ وہ بعد میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے وہاں آئیں جب اس علاقے پر انڈین فوج کا مکمل قبضہ ہو جائے۔ لیکن جنرل گل نے اس پر اتفاق نہیں کیا۔

دونوں اہلکار ایک جیپ پر سوار ہوئے، بریگیڈیئر ہر دیو اسے چلا رہے تھے اور جنرل گل ان کے پاس بیٹھے تھے۔ چند میل بعد جب جیپ کا ٹائر بارودی سرنگ کے اوپر سے گزرا تو ایک زوردار دھماکا ہوا اور جیپ میں موجود دونوں افسران اچھل کر سڑک پر جا گرے۔

بعد ازاں انڈین فوج سے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی پا کر ریٹائر ہونے والے ہردیو سنگھ کلیر لکھتے ہیں کہ ’میں نے اٹھ کر اپنے اعضا کو حرکت دی اور محسوس کیا کہ میں چل سکتا ہوں۔ جنرل گِل جیپ کے دوسری طرف گرے تھے۔ ان کی ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں۔

میں دیکھ سکتا تھا کہ انھیں ٹھیک کرنا ہمارے بس میں نہیں تھا۔ میں انھیں پچھلی گاڑی میں 13 گارڈز کے طبی امدادی مرکز میں لے گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کا معائنہ کیا اور پھر انھیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے ’گوہاٹی‘ کے ملٹری ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔‘

میجر جنرل گندھروا ناگرہ جو اس وقت سیکنڈ انفنٹری ڈویژن کی کمانڈ کر رہے تھے کو جنرل گل کی جگہ 101 کمیونیکیشن زون کی کمان دی گئی۔ پھر ہم نے جمال پور پر قبضہ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔

انڈین فوجی سر میں گولی لگنے سے ہلاک

جمال پور کے دفاع کی ذمہ داری پاکستانی فوج کی 31 بلوچ رجمنٹ کو سونپی گئی تھی۔ جمال پور دریائے برہمپترا کے کنارے ایک اہم مواصلاتی مرکز تھا۔ ایم آئی ایل ون نے پاکستانی فوج کے پیچھے جمال پور-ڈھاکہ روڈ کو بلاک کر رکھا تھا جبکہ 13 گارڈز نے جمال پور میمن سنگھ روڈ کو کاٹ دیا تھا۔

8 دسمبر سنہ 1971 کو بریگیڈیئر ہردیو اپنے ہیلی کاپٹر میں 13 گارڈز کی طرف سے روڈ بلاک کرنے والی جگہ کے قریب اترے۔ چاروں اطراف گولیاں چل رہی تھیں۔ وہاں موجود انڈین سپاہیوں نے ہلکے ہلکے شعلے چھوڑے اور انھیں خبردار کیا کہ وہ وہاں نہ اتریں۔ لیکن بریگیڈیئر ہردیو کلیر نے اس کی پرواہ نہیں کی۔

جیسے ہی وہ نیچے اترے تو ایک سپاہی انھیں وہاں ہونے والی کارروائی کے بارے میں بریفنگ دینے لگا کہ ایک گولی بریگیڈیئر ہردیو کے پاس سے گزر کر سپاہی کے سر میں لگی۔ گولی اس کے ہیلمٹ سے نکل گئی اور سپاہی وہیں دم توڑ گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ انڈین فوجیوں کو کس طرح ناقص معیار کے ہیلمٹ دیے گئے تھے۔

مشرقی کمان کے کمانڈر جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ نے ریڈیو پر بریگیڈیئر ہردیو سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ اسی رات جمال پور پر حملہ کر دیں، چاہے اس کے لیے انڈیا کو کتنے ہی فوجیوں کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔

بریگیڈیئر ہردیو نے جواب دیا ’میں دشمن کا پیچھا کر رہا ہوں اور حالات کا جائزہ لے رہا ہوں۔ میں اسی وقت حملہ کروں گا جب میں پوری طرح تیار ہو جاؤں گا۔‘

میجر جنرل (ر) ہردیو سنگھ کلیر لکھتے ہیں: ’جنرل اروڑہ خود میرے پاس آنا چاہتے تھے اور حالات کا جائزہ لینا چاہتے تھے، لیکن میں نے ان سے کہا کہ ابھی موجودہ حالات میں ادھر آنے میں خطرہ ہے۔ میں ابھی انھیں اس جگہ خوش آمدید کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔‘

اگلے دن نو دسمبر کو بریگیڈیئر ہردیو نے کرنل بلبل برار سے مشورہ کرنے کے بعد جمال پور کے پاکستانی گریژن کمانڈر کو ہتھیار ڈالنے کا آپشن دینے کا فیصلہ کیا۔ کرنل بلبل برار نے جنرل ہردیو کے رائٹنگ پیڈ پر پاکستانی کمانڈر کو مخاطب کرتے ہوئے چار صفحات پر مشتمل نوٹ لکھا۔ ہردیو نے اس پر دستخط کیے۔ خط کے مندرجات کچھ یوں تھے:

’کمانڈر

جمال پور گریژن

مجھے آپ کو یہ بتانے کی ہدایت کی گئی ہے کہ آپ کی چوکی ہر طرف سے کٹ چکی ہے اور آپ کے لیے فرار کا کوئی رستہ نہیں ہے۔ توپ خانے والی ایک بریگیڈ نے آپ کو گھیر لیا ہے اور صبح تک ایک اور بریگیڈ یہاں پہنچ جائے گی۔ آپ نے اب تک ہماری فضائیہ کا بہت کم مزا چکھا ہے۔

ایک سپاہی کے طور پر میں آپ کی حفاظت اور ہماری طرف سے اچھے برتاؤ کا یقین دلاتا ہوں اگر آپ ہمارے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ اپنی انا کی خاطر اپنے ماتحتوں کی جان کو خطرے میں ڈالنے والی بے وقوفی نہیں کریں گے۔ میں شام ساڑھے چھ بجے تک آپ کے جواب کا انتظار کروں گا۔

اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو آپ کو تباہ کرنے کے لیے ہمیں مگ جہازوں کی 40 پروازیں الاٹ کی گئی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس خط لانے والے کے ساتھ احترام سے پیش آئیں گے اور اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

دستخط

بریگیڈیئر ایچ ایس کلیر‘

پاکستانی کمانڈر کا منھ توڑ جواب

یہ پیغام مکتی باہنی کے قاصد زحل حق منشی کے ذریعے پاکستانی کمانڈر تک پہنچایا گیا۔ وہ سائیکل پر سفید جھنڈا لگا کر پاکستانی حدود میں پہنچے تھے۔

لیفٹیننٹ کرنل پنٹا مبیکر لکھتے ہیں: ’پاکستانی سپاہیوں نے پیغام رساں کو پکڑ کر پہلے مارا، وہ بے ہوش ہونے ہی والا تھا کہ ایک پاکستانی افسر نے وہاں پہنچ کر اسے بچا لیا۔ جب اس کے جسم کی جامہ تلاشی لی گئی تو انھیں وہاں سے بریگیڈیئر ہردیو کلیر کا لکھا ہوا نوٹ ملا۔‘

وہ زحل حق منشی کو گیریسن کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل سلطان احمد کے پاس لے گئے، رات آٹھ بجے کرنل سلطان احمد نے اسی پیغام رساں کے ذریعے انڈین بریگیڈیئر کو پیغام بھیجا۔

’پیارے بریگیڈیئر

خط کے لیے شکریہ۔ یہاں جمال پور میں ہم ایک لڑائی شروع کرنے کا انتظار کر رہے ہیں جو ابھی شروع نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے بات کرنے کے بجائے لڑائی شروع کر دیں۔

ہمیں شکست دینے کے لیے 40 پروازیں کافی نہیں ہیں۔ اپنی حکومت سے مزید پروازیں مانگیں۔ پیغام رساں کے ساتھ حسن سلوک نہ کرنے کے بارے میں آپ کا تبصرہ غیر ضروری ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ پاکستانی فوجیوں کی مہمان نوازی کو کتنی کم اہمیت دیتے ہیں۔

مجھے امید ہے کہ اسے (پیغام کو) ہماری دی گئی چائے پسند آئی ہو گی۔ مجھے امید ہے کہ اگلی بار جب میں آپ سے ملوں گا تو میں آپ کو سٹین گن کے ساتھ تلاش کروں گا نہ کہ اس قلم سے جو آپ کی عظیم مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔

آپ کا خیر خواہ

لیفٹیننٹ کرنل سلطان احمد

جمال پور فورسز‘

200 پاکستانی فوجی جمال پور سے فرار ہونے میں کامیاب

چاروں طرف سے گھرے ہونے کے باوجود لکھا گیا یہ خط بہادری اور دلیری کی مثال سمجھا جاتا تھا۔ خاص طور پر اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ اس پیغام کے اندر 7.62 رائفل کی گولی لپیٹ کر بھیجی گئی تھی۔ یہ خالی دھمکی نہیں تھی۔

لیفٹیننٹ کرنل رفعت ندیم احمد لاہور سے شائع ہونے والے 16 اکتوبر سنہ 2021 کے فرائیڈے ٹائمز کے شمارے میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں؛ ’یہ خط بھیجنے کے فوراً بعد 31 بلوچوں کے کمانڈنگ آفیسر کو جمال پور چھوڑ کر مادھو پور جانے کی ہدایت ملی۔‘

اس کوشش میں بہت سے پاکستانی فوجی مارے گئے لیکن اس کے باوجود تقریباً 200 فوجی 93 بریگیڈ اور 33 پنجاب سے گزرنے میں کامیاب ہو گئے اور وہاں سے وہ ڈھاکہ سے 30 کلومیٹر دور کالیاکیر کی طرف بڑھے۔ 13 دسمبر کو انھیں حکم دیا گیا کہ ڈھاکہ کے باہر دریائے تنگائی پر مورچہ سنبھالیں، تب تک انڈین فوجی چاروں طرف سے ڈھاکہ کی طرف بڑھ رہے تھے، جب پاکستانی فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا گیا، تب بھی انھوں نے لڑائی بند نہیں کی اور وہ لڑتے رہے۔‘

بریگیڈیئر ہردیو سنگھ کلیر نے 11 دسمبر کی صبح دو بجے جمال پور پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ پاکستانی اڈے پر فضائی حملوں کا سلسلہ دن بھر جاری رہا۔

سورج غروب ہونے سے کچھ دیر قبل انڈین فضائیہ کے طیاروں نے وہاں دو بم بھی گرائے تھے۔ اسی شام تقریباً چار بجے پاکستانی فوجیوں نے ون ایم ایل آئی کے زیر قبضہ علاقے پر شدید فائرنگ شروع کر دی۔

پاکستانی 120 ایم ایم مارٹر انڈین دفاع کو کمزور کرنے کے لیے کر رہے تھے۔ بریگیڈیئر کلیر نے اس سے اندازہ لگایا کہ اس رات پاکستانی فوجی فرار ہونے کی کوشش کریں گے۔

پاکستانی فوجیوں کی غلط فہمی

میجر جنرل (ر) کلیر لکھتے ہیں: ’جب جمال پور میں سورج غروب ہوا تو میدان جنگ میں امن تھا، چاہے آپ اسے پیشگی وارننگ سمجھیں یا چھٹی حس یا محض خوش قسمتی، میں نے پہلے پاکستانیوں پر حملہ کرنے کا حکم منسوخ کیا۔ اور کمانڈنگ افسروں سے کہا کہ وہ دفاعی لڑائی کے لیے تیار رہیں۔

مجھے اندازہ تھا کہ پاکستانی لڑتے ہوئے پیچھے ہٹنے کی کوشش کریں گے اور اس کا سب سے زیادہ سامنا کرنل بلبل برار کو کرنا پڑے گا۔ پھر میں نے جنرل ناگرہ سے رابطہ کیا اور کہا کہ میں اگلی صبح آؤں گا۔ میں انھیں شام سات بجے تک جمال پور دے دوں گا۔ آپ سات بجے تک وہاں اترنے کی کوشش کریں اور ہمارے سپاہیوں کے لیے اچھا ناشتہ بھی لے آئیں۔‘

بریگیڈیئر کلیر کرنل سلطان احمد کے سپاہیوں سے نمٹنے کے لیے مکمل منصوبہ بندی کر کے سو گئے۔ لیکن دس دسمبر کی آدھی رات کے بعد پاکستانی فوجیوں نے انڈین فوجیوں کی طرف فائرنگ شروع کر دی۔

لیکن ایم ایل آئی ون کے سپاہیوں نے فائر ڈسپلن کا بہترین مظاہرہ کرتے ہوئے اس فائرنگ کا جواب نہیں دیا۔ جس کی وجہ سے پاکستانی فوجیوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ انڈین فوجی پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ اس کے بعد کرنل سلطان احمد نے اپنے سپاہیوں سمیت جمال پور سے جانے والی سڑک پر تین لائن میں مارچ کرنا شروع کیا۔

پاکستانی فوجی پھنس گئے تھے۔

اس وقت کے بریگیڈیئر کلیر لکھتے ہیں: ’فائرنگ کی آواز سے رات کو میری آنکھ کھلی۔ میں نے اپنے انٹیلیجنس افسر بلبیر سنگھ اور مترجم طاہر کے ساتھ سڑک سے صرف 15 گز کے فاصلے پر ایک ایم ایم جی بنکر کے قریب پوزیشن لی۔ تقریباً ایک بجے ہم نے دیکھا۔ پاکستانی فوجیوں کا ایک گروپ اندھیرے میں ہمارے سامنے سے گزر رہا تھا۔

ہم اپنی سانسیں روک کر بیٹھے رہے۔ پاکستان کی پوری بٹالین کو اس علاقے میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی۔ پھر میں نے ایم ایم جی سے فائر شروع کر دیے۔

’جیسے ہی ہم نے فائرنگ شروع کی، دوسرے سپاہیوں نے بھی فائرنگ شروع کر دی۔ میرے سامنے دس سے 15 پاکستانی فوجی مارے گئے۔ تب ہی کرنل سلطان احمد کو احساس ہوا کہ وہ پھنس گئے ہیں۔ انھوں نے اپنی فوج کو دوبارہ منظم کیا، محفوظ رستہ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے۔

’پاکستانی فوجیوں کے بہت قریب ہونے کے باوجود فرینڈلی فائر میں بھی ہمارا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔‘

234 پاکستانی فوجی مارے گئے

جب صبح ہوئی تو انڈین فوجیوں نے دیکھا کہ ان کے بنکر کے پانچ سے دس گز کے اندر کئی پاکستانی فوجیوں کی لاشیں پڑی ہیں۔ کرنل سلطان احمد کی جیپ اسی سڑک پر 500 میٹر آگے کھڑی تھی۔ اس کے بعد بریگیڈیئر کلیر کرنل بلبل برار کے ہمراہ 31 بلوچ رجمنٹ کے ہیڈ کوارٹر گئے۔

وہاں میجر فضل اکبر اور لیفٹیننٹ زیدی آٹھ جونیئر افسران کے ساتھ ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار تھے۔

میدان جنگ کا جائزہ لیا گیا تو پاکستان کے 234 فوجیوں کی لاشیں گنی گئیں۔ مجموعی طور پر 376 پاکستانی فوجی زخمی ہوئے جن کا انڈین ڈاکٹروں نے علاج کیا۔ اس کے علاوہ 61 دیگر پاکستانی فوجیوں کو جنگی قیدی بنایا گیا۔ انڈیا کی جانب سے دس فوجیوں کی جانیں گئیں جب کہ آٹھ فوجی زخمی ہوئے۔

یہ بھی پڑھیے

بنگلہ دیش پاکستان سے معافی کا مطالبہ کیوں کرتا ہے؟

بنگلہ دیش کا قیام: جنرل نیازی نے ہتھیار کیوں ڈالے؟

قیامِ بنگلہ دیش اور آپریشن ’جیک پاٹ‘: جب پاکستانی بحری جہاز پانیوں میں ڈبو دیے گئے

1971 کی جنگ: زخمی انڈین پائلٹ جنھیں جان بچانے کے لیے تالاب میں چھپنا پڑا

جب 1971 میں پاکستانی ٹینکوں کو نشانہ بناتے ہوئے انڈین پائلٹ خود نشانہ بن گیا

بریگیڈیئر کلیر کی جیکٹ پر تین گولیاں لگیں

اگلے دن صبح سات بجے جنرل ناگرہ جمال پور میں اترے تو نیچے اترتے ہی انھوں نے بریگیڈیئر کلیر کو گلے لگایا اور کہا: ’ہیری صرف تم ہی یہ کام کر سکتے تھے۔‘ وہ اپنے ساتھ چار غیر ملکی نامہ نگاروں کو بھی لائے تھے۔

میجر جنرل (ر) کلیر لکھتے ہیں: ’ان میں سے ایک نے میری توجہ میری پیرا جیکٹ میں گولیوں کے سوراخوں کی طرف مبذول کرائی۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں موت کی زد میں اس قدر قریب آ گیا ہوں۔ تین گولیاں میری جیکٹ کو چھید گئیں۔ جس کی وجہ سے چھ سوراخ ہو گئے۔

جب تمام 31 بلوچ سپاہیوں کی حاضری لی گئی تو معلوم ہوا کہ لیفٹیننٹ کرنل سلطان احمد اپنے 200 کے قریب سپاہیوں کے ساتھ فرار ہو چکے ہیں، جب ہم جمال پور شہر میں داخل ہوئے تو ایک بہت بڑے ہجوم نے ہمارا استقبال کیا۔

کیپٹن زین العابدین اس علاقے کے مکتی باہنی کے سربراہ نے ہمیں مبارکباد دی۔ وہاں بنگلہ دیش کا جھنڈا لہرایا گیا اور رابندر ناتھ ٹیگور کا گیت ’امار شونار بانگلا‘ گایا گیا جو بعد میں بنگلہ دیش کا قومی ترانہ بن گیا۔

دونوں کمانڈروں کو ملک کا دوسرا سب سے بڑا بہادری کا تمغہ

جنگ کے بعد بریگیڈیئر میجر جنرل ہردیو سنگھ کلیر اور لیفٹیننٹ کرنل سلطان احمد کو مہا ویر چکر اور ستارہ جرات سے نوازا گیا، جو انڈیا اور پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا بہادری کا اعزاز ہے۔

جب لڑائی ختم ہوئی تو لیفٹیننٹ کرنل کیشو پنٹامبیکر نے جنگی قیدی 31 بلوچ رجمنٹ کے منیر احمد بٹ سے رابطہ کیا تاکہ بریگیڈیئر کلیر کی طرف سے جمال پور کے کمانڈر کو لکھے گئے خط کی اصلیت جان سکیں۔

اس کی تصویر لینے کے بعد اسے ان کی یونٹ کے ریکارڈ میں رکھنے کے لیے واپس کر دیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments