یادِ ماضی: میں نے غم اور مایوسی کا مقابلہ کیسے کیا؟


ہم سب جانتے ہیں کہ زندگی بہت پر اسرار ہے۔ کبھی سہل ہو جاتی ہے کبھی دشوار گزار۔ اس میں آنسو بھی ہیں مسکراہٹیں بھی۔ سسکیاں بھی ہیں قہقہے بھی۔

اب تک نجانے کتنے دوست اور اجنبی مجھ سے پوچھ چکے ہیں

’ڈاکٹر سہیل آپ ہمیشہ ہنستے مسکراتے کھیلتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا راز کیا ہے؟ میں کہتا ہوں میں نے زندگی کے تکلیف دہ سرخ سمندر میں ایک پرسکون سبز جزیرہ بنا رکھا ہے میں اسی جزیرے پر رہتا ہوں۔

پھر کہتے ہیں جب آپ دکھی ہوتے ہیں۔ تو آپ کیا کرتے ہیں؟ کیا آپ اپنی زندگی میں کبھی طویل عرصے کے لیے بھی دکھی ہوئے تھے۔ اور اگر ہوئے تھے تو پھر آپ نے کیا کیا تھا؟

تو آج میں آپ کو ایک کہانی سنانے آیا ہوں جب میں سو دنوں کے لیے دکھی ہو گیا تھا بہت دکھی اور پھر اس دکھ کے بادل کے پیچھے سے ایک سکھ کا چاند نمودار ہوا۔ یہ اس دکھ کے بادل اور سکھ کے چاند کی مختصر کہانی ہے۔

یہ 1976 کی بات ہے جب میں اپنے ایک دوست اور ہم جماعت کے ساتھ پشاور سے کابل اور کابل سے تہران گیا تھا۔ ہم وہاں ملازمت تلاش کر رہے تھے۔ اس تلاش کے دوران ہمیں تین اور مرد ڈاکٹر اور دو لیڈی ڈاکٹرز مل گئیں۔ ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار تھے کیونکہ ہم سب کسی ہسپتال یا کلینک میں کام تلاش کر رہے تھے۔

مسئلہ یہ تھا کہ ہم سب کو مختلف شہروں میں ملازمت تو مل گئی تھی لیکن ہم وہاں کام نہ کر سکتے تھے کیونکہ ہمارے پاس ٹورسٹ ویزے تھے اور کام شروع کرنے کے لیے ہمیں ورک ویزے چاہیے تھے۔

ایک مہینہ گزر گیا۔ دوسرا مہینہ گزر گیا۔ تیسرا مہینہ گزر گیا۔

ہم جو چار سو امریکی ڈالر اپنے ساتھ لائے تھے وہ ختم ہونے لگے۔ کیونکہ ان دنوں اسٹیٹ بینک آپ کو صرف چار سو امریکی ڈالروں کا فارن ایکسچینج دیتا تھا۔

ہمارے سماجی اور معاشی حالات خراب ہو گئے تو ہم پانچ ڈاکٹر ایک سستے ہوٹل کے دو بیڈ روم کے کمرے میں رہنے لگے۔ ہم نے دونوں پلنگ باہر نکال دیے اور زمین پر پانچ بستر بچھا دیے۔ آخری دنوں میں تو حالات اتنے ناگفتہ بہ ہو گئے کہ ہم پیسے جمع کر کے دن میں ایک دفعہ کھانا کھاتے تھے۔

سب دوست حد سے زیادہ مایوسی کا اس وقت شکار ہوئے جب ایمبیسی نے کہا کہ اب مزید ویزے کی ایکسٹینشن نہیں ملے گی۔

اب ہم سات دوستوں کے پاس دو راستے تھے۔ ایران میں رہیں تو غیرقانونی طور پر مفرور بن کر رہیں اور یا مستقبل کے خوابوں کو خیر باد کہہ کر واپس پاکستان چلے جائیں۔

ان دنوں میں بھی بہت غمزدہ اور دکھی تھا لیکن فرق یہ تھا کہ میں مایوس نہیں تھا۔ مجھے ہمیشہ زندگی پر اتنا اعتماد و اعتبار رہا ہے کہ مجھے یقین ہوتا ہے کہ ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور موجود ہے۔ ہمیں بس اسے تلاش کرنا ہے۔

چنانچہ میں نے اگلے کچھ عرصے میں اس مسئلے کا حل تلاش کر لیا۔ (۔ اس حل کی تفصیل کے لیے ایک اور کالم چاہیے ) اور ہم سب دوست کام کرنے لگے۔

اس کے بعد میں نے ہمدان میں ایک سال بو علی سینا کے مزار کے سامنے بنیاد نیکو کاری شاہ دخت شمس پہلوی کے بچوں کے کلینک میں کام کیا اور پھر 1977 کے آخر میں نفسیات کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کینیڈا چلا آیا۔ ہمارے کچھ دوست اب بھی ایران میں بستے ہیں۔ ایرانی مہ وشوں کی زلفوں کے اسیر ہو کر انہوں نے ایرانی دختران خوش گل سے شادیاں کر لی ہیں۔

وہ سو دن جو میں بہت دکھی رہا۔ ان سو دنوں میں میں ہر روز ایک گانا سنتا تھا جو میری ہمت بندھاتا تھا مجھے حوصلہ دیتا تھا اور مجھے نا امید نہیں ہونے دیتا تھا۔ اور وہ گانا ایک ایرانی موسیقار داریوش کا گانا تھا۔ اس کا نام  برادر جان تھا۔

اب بھی جب میں دکھی ہوتا ہوں تو داریوش کا گانا برادر جان سنتا ہوں۔ وہ اب بھی مجھے تقویت دیتا ہے۔ پھر میں سوچتا ہوں کہ اگر میں نے وہ سو دنوں کا بحران برداشت کر لیا تو میں باقی سب بحران بھی سہ جاؤں گا اور ان سے زندگی کے کچھ راز سیکھوں گا۔

جب داریوش ٹورنٹو آئے تو میں ان کے کانسرٹ میں بڑے شوق سے گیا اور ان سے برادر جان گانا سنا۔ میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں کیونکہ وہ ان روشن خیال اور ترقی پسند فنکاروں میں سے ایک ہیں جو شاہ ایران کے دور بھی معتوب رہے اور خمینی کے دور میں بھی پاند سلاسل رہے۔ اور آخر ملک چھوڑ کر امریکہ ہجرت کر گئے۔

اگر آپ فارسی جانتے ہیں تو وہ گانا ضرور سنیں اور محظوظ ہوں اور اگر فارسی نہیں جانتے تو میں آپ کے لیے اس گانے کا ٹوٹا پھوٹا ترجمہ پیش کیے دیتا ہوں۔

۔ ۔
داریوش کے گانے۔ برادر جان۔ کا ترجمہ

اے میرے بھائی
تم نہیں جانتے میں کتنا دکھی ہوں
تم نہیں جانتے میں کتنا غمگین ہوں
تم نہیں جانتے
اے میرے بھائی تم نہیں جانتے
میں نفرت کے کس طلسم میں گرفتار ہوں
تم نہیں جانتے
بار بار در بدر ہونا
طوفان کی طرح ہمیشہ سفر میں رہنا
انسان کو کتنا دکھی کر دیتا ہے

اے میرے بھائی
تم نہیں جانتے
میں نے اپنے باپ سے
کون کون سے دکھ اور درد وراثت میں پائے ہیں

اے میرے بھائی
میں بہت دکھی ہوں
میں بہت غمگین ہوں
اب میں
ان نا امیدی کے دنوں
اور مایوسی کی راتوں سے تنگ آ چکا ہوں
میں ساری ساری رات
گلیوں اور بازاروں میں
بے مقصد گھومنے سے تنگ آ چکا ہوں
میں اس بے معنی اور فضول تکرار سے تنگ آ چکا ہوں
میرے دل پر ہمیشہ
اداسی کے بادل چھائے رہتے ہیں

اے میرے بھائی
اب میری زندگی میں
نہ کوئی مسکان ہے نہ کوئی خواب
فقط
تنہائی ہے اور غمگینی ہے
اب یوں لگتا ہے جیسے
میرے علاوہ دنیا میں سب انسان
خوش بھی ہیں اور خوش بخت بھی

لیکن پھر میں سوچتا ہوں
کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ
کل کا سورج امید کا پیغام لے کر آئے
اور تنہائی کی بہت سی راتیں گزارنے کے بعد
میں کسی کی محبت میں گرفتار ہو جاؤں
لیکن اس وقت تک
میں کتنا دکھی رہوں گا
میں کتنا غمگین رہوں گا

اے میرے بھائی
تم نہیں جانتے
تم نہیں جانتے
۔ ۔ ۔
گانے کا لنک

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments